موت کا گھر اور حق دفاع
سنا ہے ۔۔۔انسانوں کی بستی میں موت کا گھر ہے ۔۔۔
بحث ہو رہی ہے کہ موت کے گھر میں رہنے والوں کو حق دفاع ہے یا نہیں ۔۔۔
اوریہ بحث وہ کر رہے ہیں جوموت کے گھر کے مکین نہیں ۔۔۔
یعنی موت کے گھر میں رہنے والوں کو اپنی رائے کا اظہار کرنے کا حق بھی نہیں ۔۔۔
یہ کوئی مسلمان ملک نہیں عالمی ادارہ صحت کہہ رہا ہے کہ مسلسل بگڑتی صورتحال سے غزہ ”موت کا گھر“ بن چکا
موت کے گھر کی تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس کے مطابق غزہ میں طبی صورت حال مسلسل خراب ہوتی جا رہی ہے اور غذائی قلت خطرناک حدود کو چھو رہی ہے،دن بدن بگڑتی صورتحال سے غزہ موت کا گھر بن چکا ہے۔ غزہ جنگ سے قبل صرف 1 فیصد سے کم آبادی کو خوراک کی کمی کا سامنا تھا اور اب 15 فیصد آبادی اس صورتحال سے دوچار ہے ، جنگ کے مزید طوالت اختیار کرنے اور امداد کی فراہمی متاثر ہونے کے نتیجے میں یہ تعداد اور بھی بڑھ جائے گی۔ عالمی پروگرام برائے خوراک کو غزہ کے شمالی علاقوں تک رسائی حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے ادارے نے بتایا ہے کہ غزہ میں صرف 15 بیکریاں کام کررہی ہیں۔ ان میں سے 6بیکریز جنوبی غزہ کے رفح میں اور9 وسطی غزہ کے دیر البلاح میں ہیں، شمالی غزہ میں بیکریاں نہیں ہیں، جس کی وجہ سے علاقے میں خوراک کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔
غزہ کے لوگ فاقوں پر مجبور ہیں،اقوام متحدہ کے فلسطینی پناہ گزینوں کے ادارے یو این آر ڈبلیو اے کے مطابق آخری بار شمالی غزہ میں 23 جنوری کو خوراک بھجوائی گئی تھی اس کے بعد سے وہاں کچھ نہیں پہنچ سکا جس کے باعث وہاں لوگ فاقوں پر مجبور ہیں۔یو این آر ڈبلیو اے کے چیف کا کہنا ہے کہ ہم نے اور اقوام متحدہ کی دیگر تنظیموں نے پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ امداد کی ترسیل نہ ہوئی تو قحط کا خطرہ ہے اور خوراک کی کمی بحران کو مزید سنگین بناسکتی ہے، اس لیے انسانی بنیادوں پر امداد کی ترسیل کرنے دی جائے۔ شمالی غزہ میں مستقل بنیادوں پر خوراک کے مزید قافلوں کو جانے کی اجازت دی جائے تو قحط سے بچا جاسکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے متعدد بار امداد کی فراہمی کی اپیل کی گئی ہے جسے بری طرح نظرانداز کردیا گیا ہے۔ قحط سے اب بھی بچاجاسکتا ہے، آنے والے دن ایک بار پھر ہماری مشترکہ انسانیت اور اقدار کا امتحان لیں گے۔ غزہ کے 23 لاکھ لوگ قحط کے دہانے پر ہیں اور اس کے باعث بچوں کی بڑی تعداد جان سے جاسکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں شہید ہونےوالوں میں 90 فیصد خواتین اور بچے شامل ہیں۔بعض انڈیپینڈنٹ اداروں نے رپورٹس مرتب کی ہیں جن کے مطابق غزہ سے متعلق حقائق غلط بتائے جا رہے ہیں مثال کے طور پر غزہ میں مارے جانے والوں کی تعداد کو ہی لے لیں20 فروری تک 29 ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں جن میں 13ہزار بچے ،9ہزار خواتین اور کوئی 9ہزار سے زیادہ جوان لوگ شامل ہیں حالانکہ بعض تھنک ٹینکس کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ مرنے والوں کی کم از کم تعداد اس سے دگنا ہے اور غزہ کی تقریبا ًتمام آبادی بے گھر ہو چکی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ سچ سے ہم کوسوں دور ہیں۔
مطلب ۔۔۔موت کے گھر میں بھیانک بھوک بھی ہے ، ننھے بچوں کیلئے دودھ اور پینے کا صاف پانی بہت پہلے نایاب ہو چکا ، بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔۔۔غزہ میں بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ۔۔۔ غزہ کے شمال میں بنیادی اشیا ءکے حصول کےلئے لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے، فلسطینی اپنے بچوں کو جانوروں کی غذا دینے پر مجبور ہیں ۔۔۔امدادی ٹرکوں کے منتظر لوگوں پر اسرائیلی فورسز فائرنگ بھی کر رہی ہیں۔
ایسے میں یہ لوگ پھر بھی اپنا دفاع کر رہے ہیں ۔۔۔ دنیا کو آئینہ دکھا رہے ہیں ،شاید انصاف پسندوں کو 30 ہزار سے زائد فلسطینی شہید60ہزار سے زائد زخمی اور لاکھوں بے گھر نظر آ سکیں ۔۔۔ غزہ میں سر پر ہر وقت اڑتے جنگی جہازوں کی گھن گرج نے فلسطینی بچوں میں خوف پیدا کر رکھا ہے۔ بے گھر فلسطینی بچوں کے چہروں پرانصاف اور مدد کی راہ تکتے تکتے تھکان صاف دیکھی جا سکتی ہے ۔ ۔ ۔ انسانوں کی بستی میں ہے کوئی جو جنگ میں اپنے گھروں کو تباہ ہوتے اور کئی پیاروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے شہید ہوتے دیکھنے والے بچوں کا کرب ختم کر سکے ۔۔۔ان کی کھوئی مسکراہٹیں واپس لا سکے۔۔۔؟
ایک ننھے فلسطینی ولاگر رمضان محمود (6 لاکھ سے زائد فالوورز رکھتے ہیں)نے غزہ کی صورت حال پر بمباری کے دوران مسکراتے ہوئے نئی ویڈیو بنا کر اپنے انسٹاگرام اکاو¿نٹ پر شیئر کی ہے۔ویڈیو میں رمضان محمود بمباری سے تباہ ہونے والی ایک عمارت کے ملبے پر کھڑا ہے۔اور کہتا ہے”140 دن ہوگئے، ہم ہر قسم کے عذاب اور جبر سہہ رہے ہیں اور دنیا ابھی تک رسوا ہے“۔
ایک طرف ننھا فلسطینی بلاگردنیا کو آئینہ دکھا رہا ہے اور دوسری جانب غزہ میں فلسطینی بچوں کی ہلاکت کے سوال پرامریکی رکنِ کانگریس اینڈی اوگلز نے جواب میں کہا ہے کہ” ہمیں غزہ میں سب کو ہلاک کر دینا چاہیے“۔
امریکی رکنِ کانگریس کے اس بیان پر مسلمانوں، ڈیموکریٹس اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے کڑی تنقید کی جا رہی ہے ۔
امریکن مسلم ایڈوائزری کونسل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اینڈی اوگلز کا یہ بیان تمام فلسطینی عوام کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔
اینڈی اوگلز کے ترجمان نے شدید ردِ عمل کے بعد صفائی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اینڈی اوگلز فلسطینیوں کا نہیں حماس کا حوالہ دے رہے تھے۔
امریکہ کے بعد برطانیہ کا رخ کریں تو غزہ میں جنگ بندی کی قراردادپر برطانوی پارلیمنٹ مچھلی بازار بن گئی۔ حکمران جماعت اور سکاٹش نیشنل پارٹی کے ارکان نے بطور احتجاج واک آﺅٹ بھی کیا۔50سے زائد ارکان پارلیمنٹ نے کامنز اسپیکر پر عدم اعتماد کی تحریک پر دستخط کر دئیے ۔
سنا ہے ۔۔۔برطانیہ میں انتہا پسندی کے پیش نظر پہلی بار ارکان پارلیمنٹ کو باڈی گارڈ فراہم کیے جانے لگے ہیں۔یہ فیصلہ اسرائیل حماس جنگ کے تناظر میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ گارڈز کے اخراجات پارلیمنٹ کے فنڈ زسے ادا کیے جائیں گے۔ وزیر اعظم رشی سونک نے سیاست میں بڑھتی ہوئی نفرت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
برسلز سے اطلاعات ہیں کہ یورپی پارلیمنٹ کی سلامتی و دفاعی کمیٹی کے ارکان کی ٹیلی فون کالز ٹیپ کئے جانے کاانکشاف بھی ہوا ہے جس سے ارکان پارلیمنٹ میں کھلبلی مچ گئی ہے۔اس کمیٹی کے ارکان نے گزشتہ دسمبر میں بھارت،اسرائیل اور مقبوضہ فلسطین کے دورے کیے تھے۔
امریکہ برطانیہ کے بعد روس کا ذکر کریں توروس نے عالمی عدالتِ انصاف میں اپنے دلائل میں کہا ہے کہ اسرائیل کا فلسطینیوں پر تشدد کو حقِ دفاع کہنا قابل قبول نہیں، غزہ پر بمباری” حق دفاع“ میں چھپائی نہیں جاسکتی۔ تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی کہ اپنے حق دفاع کے نام پر نسل کی نسل مٹادی جائے۔روس نے اسرائیل کے حق دفاع کے مو¿قف کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں بلا امتیاز معصوم شہریوں، خواتین اور بچوں تک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ روس نے اسرائیل پر فلسطینی بستیوں کو مسمار کرنے پر بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کی جگہ یہودی آباد کاروں کو بسانے کی اسرائیلی پالیسی اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ختم کرنے اور زر تلافی ادا کرنے کا کہا جائے۔روس نے تجویز پیش کی کہ جنگ زدہ غزہ میں اسرائیل کی تمام خلاف ورزیوں کا بہترین حل ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔
چین نے اسرائیلی جبر کیخلاف مزاحمت کو فلسطینیوں کا”ناقابل تسخیر حق“ قرار دیا ہے۔عالمی عدالت انصاف میں فلسطینی سرزمین پر 57 سالہ اسرائیلی قبضے کے خلاف سماعت کے دوران چینی قانونی مشیر نے کہا فلسطینی عوام کی غیر ملکی جبر کے خلاف مزاحمت ایک”ناقابلِ تسخیر حق“ ہے۔ سماعت کے موقع پر چین اور جاپان نے اسرائیل اور فلسطین کے تنازع کے دو ریاستی حل پر زور دیا۔
سماعت کے دوران آئرلینڈ نے مو¿قف اختیار کیا کہ اسرائیل فلسطینی سرزمین پر دہائیوں سے قبضہ جما کر عالمی قانون کی سنگین خلاف ورزی کا ارتکاب کر رہا ہے۔
عالمی عدالت انصاف میں ایران کا کہنا تھا کہ آئی سی جے کا فیصلہ ہزاروں فلسطینیوں کی زندگیاں بچانے کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔
پاکستان نے فلسطینی علاقوں سے اسرائیلی فوج کے انخلاءکا مطالبہ کیا ہے۔عالمی عدالت انصاف میں فلسطینی علاقوں غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس پر اسرائیل کے 57 سالہ قبضے کےخلاف سماعت ہوئی جس میں پاکستان کی جانب سے دلائل دیئے گئے۔ عالمی عدالت انصاف میں نگران وزیرِ قانون و انصاف احمد عرفان اسلم نے پاکستان کا مو¿قف پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ عدالت فلسطینیوں کا حقِ خودارادیت تسلیم کر چکی ہے۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ دو ریاستی حل سے ہی یہ تنازع ختم ہوسکتا ہے ، فلسطینی اور اسرائیلی ریاستوں کی موجودگی دونوں اکائیوں اور خطے کے امن کی ضمانت ہے۔ قبضہ ایک غیر قانونی عمل ہے جس کے قانونی نتائج کا سامنا اسرائیل کو کرنا پڑے گا۔بیت المقدس تینوں بڑے مذاہب کیلئے مقدس شہر ہے۔مغربی کنارے، غزہ،مشرقی بیت المقدس پر اسرائیلی قبضہ غیرقانونی ہے، اسرائیل فلسطین سے فوری طور پر اپنی فوج نکالے، امید ہے عدالت اس قبضے کے خلاف فیصلہ سنائے گی۔
اسی بحث و مباحثے اور تازہ ترین صورتحال میں پاکستان نے” موت کے گھر “میں رہنے والوں ( مظلوم فلسطینی بہن بھائیوں) کیلئے امدادی سامان کی ساتویں کھیپ روانہ کر دی ہے،فلسطینیوں کےلئے بھیجے گئے 300 ٹن امدادی سامان میں دوائیں، کمبل، اشیاءخورونوش اور دیگر ضروری اشیا ءشامل ہیں۔ امدادی سامان مصر پہنچنے کے بعد غزہ روانہ کیا جائے گا۔
کاش غزہ میں امداد کی صورت میں انصاف ۔۔۔زندگی۔۔۔ بچوں کیلئے سکون ۔۔۔ اور نہتوں پربم گولے برسانے والوں کیلئے کچھ رحم ۔۔۔ تھوڑی بہت انسانیت بھجوائی جا سکتی ۔۔۔
کاش انتہا پسندوں کیلئے میانہ روی ، حلم ،بردباری، شفقت اور عالمی قوانین کا احترام بھجوایا جا سکتا ۔
کاش غزہ میں سب کو غذا ملے۔۔۔کسی شہر کسی ملک کو” موت کے گھر“ کا خطاب نہ ملے ۔۔۔کاش
نوٹ : ادارے کا مضمون نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں