سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 39
وہ رات غروب ہوتی ہوئی بارہویں صدی عیسوی کی ان راتوں میں سے ایک تھی جواپنے زمانے کی تاریخ کے نام فرمان جاری کرتی ہیں۔عشاء کی اذان سن کر سوجانے والی نوبت ابھی بیدار تھی۔قیصر دمشق کے مشرقی ایوان کی آئینہ بنددیواریں،زریں شمع دانوں اور مرصیع فانوسوں میں جلتی ہوئی ان گشت شموں کی سفیدٹھنڈی روشنیوں کی قبائیں پہنے خاموش کھڑی تھیں۔وسط میں بجھے ہوئے تخت پر ملک العادل دو زانو بیٹھے ہوئے تھے۔سامنے رکھی ہوئی کرسیاں خالی پڑی تھیں۔ان پر کچھ دیر پہلے بیٹھے ہوئے وزیر سالار اور عالم نائب السلطنت کو فیصلہ کن مشورے دے رہے تھے۔دروازوں پر بے تلواروں کے پہرے کھڑے تھے اور عادل خیالوں کے دلدل میں گردن تک دھسنے ہوئے تھے۔سوچتی ہوئی نظروں کے سامنے ایک نقشہ کھلا ہو ا تھا۔جس میں مغرب کی سلطنتوں کے علم سرنگوں تھے۔تخت اوندھے پڑے تھے۔تاج گھوڑوں کی ٹھوکروں میں لڑھک رہے تھے اور ان سب کے پرے ایک آفتاب شامی کفتان پہنے صقیلہ کا پرانا تاج سر پر رکھے قدم رکھتا شرماتاا ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔اس نظارے نے ان کی چمپئی چہرے پر مسرت کی قلعی کر دی۔سیاہ مونچھ سے بھرا ہوا ہونٹ لمبا ہو گا۔صحرا کی تاریک راتوں کی طرح سیاہ داڑھی مسکرانے لگی۔پھر وہ مضبوط گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہو گئے۔دروازے پر کھڑا ہوا تلواروں کا پردہ سرک گیا۔منور دالانوں،روشن غلام گردشوں،مشعلوں کی روشنی میں چشموں کی طرح لہریں لیتے ہوئے سر سبز صحنوں،دروازوں کی آنکھوں پر پلکوں کی طرح چھائے ہوئے نیزوں سے گزرتے ہوئے وہ اس جگمگاتے ہوئے کوشک کے سامنے آگئے جہاں قدم رکھتے ہوئے رات کی سیاہیوں کے پر چلتے تھے اور دن کو ہمیشہ حضوری کا شرف حاصل تھا۔
داخلے پر ’’صاحب‘‘نورالدین وائی کیفاکھڑا تھا۔نائب السلطنت کو دیکھتے ہی پیشوائی کو بڑھا۔
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 38 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سلطان خلوت خاص میں سند شاہی پر دوزانو بیٹھے تھے۔ان کے داہنے ہاتھ پر تقی الدین کے برابر ملک العادل تھے۔بائیں طرف دمشق کے قاصی القضاۃ اپنے ہاتھوں کی ڈھیلی لمبی آستینوں میں چھپائے خاموش بیٹھے تھے۔ان زانوسے تقی الدین کے پہلوتک لال کی صورت میں وہ امرائے عظام مو جود تھے۔جو اٹھارہ برس تک سلطان کے گھوڑے سے گھوڑے ملا کر تلواریں چلا چکے تھے اور اب اس طرح ساکت تھے گویا اپنی موت کا حکم سننے آئے ہوں۔پھر عادل کی آواز بلند ہوئی اور ساری جنگیں مجلس چونک پڑی۔
’’دین پناہا!غلام عسقلان کے سرحدی قلعوں کی مورچہ بندی میں مصروف تھا۔جب قحطان نے ملاقات کی۔رچرڈکی گرفتاری کی اطلاع دی۔مغرب میں برپا ہونے والی خانہ جنگی کے امکانات پر گفتگو کی۔خانہ زاد نے سپہ سالار کو پروانہ لکھ کر انتظام مملوکوں کے حوالے کیا اور لشکر خاص کو رکاب میں لے کر باب عالی پر حاضر ہو گیا‘‘
سلطان اسی طرح نگاہ نیچی کئے مسند کے زرد وزگل بوٹوں کو دیکھا کئے ۔دیر کے بعد نگاہ اٹھائی۔
’’تم کویا د رہا کہ قحطان ہمارا دوست ہے لیکن یہ بھول گئے کہ قحطان عیسائی بھی ہے‘‘
’’عالم پناہ قحطان کی زبان نے صرف ان خبروں کی تاکید کی ہے جو آرمینیہ اور صقلیہ میں متعین جاسوسوں نے ہمیں بھیجی ہیں اور ان سے سلطانِ اعظم واقف ہیں۔بیت المقدس کے دروازوں پر مغرب سے آنے والے زائرین کا روز ایک قافلہ اترتا ہے اور دس دس طرح کی باتوں سے ایک بات کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔‘‘
عادل کے چپ ہوتے ہی نورالدین نے گزارش کی۔
’’آرمینیہ کے دربار پر شاہ روپن کا بھائی ہملٹن چھایا ہوا ہے۔جس کی سفارش پر عالم پناہ نے آرمینیہ کی خطا بخشی کی تھی۔اسی ہملٹن کی اجازت کے بغیر فریڈرک بار بروسا کی صلیبی فوجیں آرمینیہ سے گزری تھیں اور تاج آرمینیہ کو ذلتیں اور مصیبتیں اٹھانا پڑی تھیں جو اسے یاد ہیں اور جن کا انتقام وہ آسٹریا کی سلطنت سے لینا چاہتا ہے ۔اس بارۂ خالص میں احکامات کیلئے آئی ہوئی سفارت دارلحکومت میں داخل ہو چکی ہے اور باریابی کی خواستگار ہے‘‘
سلطان نے نگاہ اٹھائی،مجلس شوریٰ کے رنگ کا جائزہ لیا۔دھیمی مگر مضبوط آواز میں فرمایا’’تمہاری فتوحات کا راز تمہاری شمشیر زنی میں نہیں،تمہارے جوش ایمانی میں پوشیدہ ہے کشور کشائی اور جہانبانی کی ہوس جوش ایمانی کو غارت کردیتی ہے۔ہم نہیں چاہتے کہ دین کے نام پر غلاف کی جانے والی تلوارکو دنیا کے نام پرنکالیں اور ایمان کی حرارت کو چند فتوحات کے جشن وجلوس کے ہاتھ بیچ دیں‘‘
تقی الدین نے عادل کی نظروں کی شہ پاکر عرض کیا’’دین پناہا !اسلامیوں نے ہمیشہ اپنے وطن میں صلیبی لڑائیاں لڑی ہیں اور قہرناک جنگوں کی نا قابلِ بیان ہلاکتوں کا شکا رہوئے ہیں۔ہماری صلح پسندی نے لوٹ مار کے عاشق سپاہیوں کو جھوٹے دین کی جھوٹی حرمت کے نام پر مہم آزمائی کاشوق دلایا ہے ۔دین پناہ کی لشکر کشی صلیبی لڑائی کو جو دین پناہ کے عہد مبارک ہی میں برپا ہو سکتی ہے،کم سے کم ایک پشت کیلئے ٹال دے گی ۔مغرب کی نفسیات بدل ڈالے گی اور جارحیت کو مدافعت میں تبدیل کر دے گی ‘‘
سلطان نے اس عالم دین کو آنکھ بھر کر دیکھا جس کے قلم کی دہلی سے غرناطہ تک اور سمرقند سے قاہرہ تک دھوم تھی۔
’’آپ خلا میں کیا دیکھ رہے ہیں قاضی اعظم؟‘‘
’’دین پناہ۔۔۔ غلام جو کچھ دیکھ رہا ہے اس کے بیان کی قوت اور جسارت اپنی زبان میں نہیں پاتا ‘‘
’’تاہم ‘‘
قاضی اعظم نے سیاہ کفتان کی ڈھیلی ڈھالی زردوز آستینوں سے اپنے ہاتھ نکالے اور زانو پر رکھ لئے۔داہنے ہاتھ کی سیدھی انگلی میں وہ مہر چمک رہی تھی جس کے خوف سے سپہ سالاروں کے خنجر اور وزرائے عظام کے قلم لرزتے تھے۔انھوں نے گردن جھکائی تو سفید ریشمیں داڑھی کو نوک چمڑے کے کمر بند پر ٹک گئی۔مجلس شوریٰ اس طرح بیٹھی تھی جیسے اس کے سر پر آبِ حیات کے لبریز پیالے رکھے ہوں جن کے چھلک جانے کے ڈر سے سانس تک نہ لے رہی ہو۔۔۔سلطان اعظم کی سوالیہ نگاہیں ان کے پروقار چہرے پر مرکوز تھیں۔جب سکوت ادب کی حد سے گزرنے لگا تب وہ آواز بلند ہوئی جس نے مسجد اقصیٰ میں ایک صدی بعد پہلا خطبہ دیا تھا۔’’
میں دیکھ رہا ہوں کہ پوری ایک صدی کے بعد اسلامیوں پر اتاری جانے والی آسمانی رحمت اٹھائی گئی۔سلطان السلاطین اس منزل میں آسودہ ہو چکے جو بنی نوع انسان کا مقدر ہے۔تقدیر نے ذوالفقار ثانی نیام کر دی جس کی ہیبت کے سائے میں ملت بیضا تمکنت کی نیند سو رہی ہے۔اور یہ عظیم الشان سلطنت جس پرکسی بھی نمرود کو رشک آسکتا ہے پارہ پارہ ہو چکی ہے۔مصر،جزیرۂ،کردستان،حجاز،یمن،شام،افریقہ اور آرمینیا میں الگ الگ حکومتیں قائم ہو چکیں اورکتوں کی طرح زمین کے ایک ایک ٹکڑے پر لڑ رہی ہیں۔اور دمشق کے اس مقدس تخت پر کوئی ناپاک سلطان بیٹھا ہے جس کے حضور میں سونے کے پیالے اور چاندی کے بدن رقص کر رہے ہیں اور اسلامیوں کے ساحلوں پر صلیبی جہاز اتر رہے ہیں۔قلعے شکار اور شہر مسمار ہو رہے ہیں۔مسجد اقصیٰ پر صلب گاڑ دی گئی اور مسجد عمر میں گھوڑے باندھ دیئے گئے ۔
سلطانِ اعظم !
میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ اسی متبرک کو شک کے اسی مبارک تخت پر نصرانیوں کا نجس بادشاہ جلوس فرما ہے اور مجھ جیسے جن کے سینوں سے قرآن نوچ لئے گئے اور سروں سے دستار فضیلت چھین لی گئی ،مویشیوں کی رسیوں میں جکڑے کھڑے ہیں اور آل ایوب کے دردناک انجام پر ماتم کر رہے ہیں اور اس دن کو کوس رہے ہیں جس دن ہم دوبارہ بیت المقدس میں فاتحانہ داخل ہوئے تھے۔‘‘
ان کی آواز پھٹ گئی ۔وہ ہانپنے لگے۔آنکھوں میں بہتے ہوئے آنسو داڑھی پر لرزنے لگے۔انھوں نے شملے کا کونا چہرے پر رکھ لیا۔(جاری ہے )
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 40 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں