سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 38

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 38
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 38

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ان کے سامنے ایلینور کھڑی تھی۔سفید زرہ مکتر پہنچے،دستانہ پوش ہاتھ میں عصائے شاہی لئے چھل بل کرتے گھوڑے کے پاس ننگے سر کھڑی تھی۔چاندی کے تاروں کی ایک مہین لٹ پیشانی پر لزر رہی تھی،جیسے تاج میں آویزاں موتیوں کی لڑی۔حسین ومتین آنکھوں میں گفتگو کرتی ہوئی،خاموش آنکھوں میں سلطنتوں اور خانوادوں کو زیر و زبر کر ڈالنے والا منصوبہ تیر رہا تھا۔درباری رقاصاؤں کے بے مثال جسموں کو ترغیب دیتی ہوئی بے جھپک بے قراری کے بجائے ان کے باوقار جسم پر کہانیوں کی کسی آسودہ اور سنجیدہ ملکہ کی تمکنت برس رہی تھی۔

جب شیر دل رچرڈ بیمار ہوئے اور عالم پنا ہ نے علاج کیلئے شاہی اطباکو متعین کیا اور یہ خبر یورپ پہنچی تو ملکہ عالیہ رو دیں۔گھنٹوں آپ کی شجاعت اور سخاوت کا ذکر فرماتی رہیں۔مغرب میں تو یورپ تک مشہور ہو گیاشاہی طبیب کے بھینس میں آپ خود بنفس تشریف لے گئے تھے۔اور چارہ گری کا فرما ئی تھی۔

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 37 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
فتح بیت المقدس کی خبر سے سارے یورپ میں زلزلہ آگیا تھا۔میں نے اپنی آنکھوں سے سارے انگلستان کو روتے ہوئے دیکھا ہے۔شاہی محل پر ماتمی بادلوں کو رینگتے ہوئے دیکھا ہے۔لیکن ملکہ عالیہ کی آنکھیں اس طرح پر سکون تھیں،اسی طرح مطمئن تھیں۔۔۔
مراحم خسروانہ سے ما لا مال خواتین کا قافلہ جب انگلستان پہنچا تو ملکہ عالیہ نے اسے بطور خاص باریا کیا۔کردید کرید کر آپ کی باتیں نکالیں۔آپ کی صورت،آپ کی سیرت،آپ کے گھوڑے اورآپ کی تلوارکی ایک ایک تفصیل حاصل کی۔ہفتوں اور مہینوں ذکر کرتی رہیں۔اور اسی طرح کہ ہر بارآنکھیں پرنم ہو گئیں،آواز بھر آگئی،نیندیں اچٹ گئیں اور زندگی دشوار ہو گئی‘‘
’’براعظم نائب السلطنت سے شہزادی جین کی شادی کی تجویز اور تحریک بھی ملکہ عالیہ کے ایماپر کی گئی تھی لیکن قدرت کو یہ منظور نہ تھا کہ دنیا کے دو عظیم الشان فرما نروا ایک دوسرے کے دست و بازو بن کرساری دنیا آپس میں بانٹ لیں۔‘‘
’’اگر بیت المقدس کی حرمت درمیان نہ آجاتی تو ہم دعائیں مانگتے اور قدرت کو ر ضا مند کرلیتے‘‘
’’اس رشتے کاسب سے بڑا فائدہ انگلستان کو پہنچا۔کیا اس صورت میں آسڑیا کی مجال ہو سکتی تھی کہ بادشاہ پر ہاتھ ڈال دے؟‘‘
’’ہم نے تم کو اسی مسئلہ خاص پر مشورے کیلئے طلب کیا تھا۔کیا رچرڈکی رہائی کی کوئی اور صورت نہیں ہو سکتی؟‘‘
’’ہو بھی سکتی ہے لیکن غلام سلطنت اعظم سے گزارش کرے گا اسے قبول نہ فرمایا جائے ۔ ملکہ عالیہ بادشاہ کی گرفتاری سے پریشان ضرور ہیں لیکن وہ یہ بھی نہیں جانتی ہیں کہ بہر حال رہائی ضروت حاصل ہو جائے گی۔ان کی گفتگو کے پس پردہ میں نے شدت سے یہ آرزو محسوس کی کہ آپ ایک جرار لشکرکے ساتھ یورپ پر نزول فرمائیں۔آسٹریا اور مشرقی یورپ کی زیر وزبر کرتے ہوئے انگلستان میں جلوس کریں۔جہاں ایک مشن عام برپا ہو اور ملکہ عالیہ کی آنکھیں آپ کے دیدار سے مشرف ہوں اور ان کی وہ خواہش جو بیت المقدس کی بر گزیدہ دیواروں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئی بیت المقدس کے درمیان آئے بغیر پوری ہو سکے۔۔عالی جاہا ۔۔۔ملکہ عالیہ کے مقدس نام کو فرانسیسیوں نے ناپاک افسانوں سے ملوث کر دیا ہے۔اور یہ افسانے جس طرح شہرت پا چکے ہیں اس سے ملکہ عالیہ کوبہت غم پہنچا ہے اب ان کی خواہش ہے کہ جس تلوار کی انھوں نے داد دی ہے۔اس سے ہزیمتوں کی بارش ہو اور شکستوں میں شرابور یورپ کی زبان گنگ ہو جائے۔‘‘
’’تم کو یقین ہے کہ ہمارے لشکر کو روکنے کیلئے سارا یورپ متحد ہو کر ہمارے سامنے نہیں کھڑا ہوجائے گا۔‘‘
سلطان اعظم متحدہ یورپ جتنا بڑا لشکر جمع ہو سکتا تھاجمع کرکے بیت المقدس کی بازیابی کیلئے بھیج چکا۔۔جہاد کے نام پر اٹھ کھڑے ہوئے طوفان کو بیت المقدس کی دیواروں کے نیچے سے ڈھکیل کر بحرۂ روم میں غرق کر دینا جس تلوارسے ممکن ہو سکا وہ عالم پناہ کی کمر میں موجود ہے اور جس کا سایہ سارے مغرب میں محسوس کی جا تا ہے۔۔۔اس تلوار کی ہیبت کا اندازہ دمشق میں بیٹھ کر نہیں کیا جا سکتا۔۔۔خانہ جنگی کے دلدل میں دھنستا ہوا یورپ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔‘‘
’’قحطان!‘‘
’’عالم پناہ‘‘
’’ہم نے ہمیشہ دین کیلئے تلوار نکالی ہے اور گھوڑا اٹھایاہے۔کشور کشائی کو یہ شرف کبھی نہیں بخشا گیا۔‘‘
قحطان کی طلاقت لسانی کا ترکش خالی ہو چکا تھااور سلطان اپنے خیالوں کے پائیہ لخت میں لوٹ چکے تھے جہاں ایلینور حکمراں تھی۔
مغرب کے وقت قصر شاہی کے سامنے میدان میں گھوڑے قدم رکھتے ہی سلطان اعظم نے ملاخطہ کیا کہ سارا میدان غبار میں اٹے ہوئے سواروں سے بھر اپڑا ہے اور پھاٹک کے داہنی طرف وہ علم نصب ہے جس کے زرد پھر سونے کے تاروں کا شیر دہاڑرہا ہے اور اعلان کر رہا ہے کہ نائب السلطنت ملک العادل نے اپنے خدام کے ساتھ جلوس فرمایا ہے۔
پھاٹک سے نکلتے ہی لانبے اور مضبوط بدن کے ملک العادل کے لپک کر پیشوائی کی اور رکاب بوسی کیلئے وہ سرجھکا دیا جس کے عمامے کی سر پیچ کیلئے سات سمندروں نے موتی انتخاب کئے تھے۔
رکاب گیروں کے بڑھئے ہاتھوں کو بامراد کئے بغیر سلطان گھوڑے سے اتر پڑے۔ملک العادل کے جھکے ہوئے سرکو سینے سے لگالیا۔پشت پردشت شفقت رکھا اور باتیں کرتے ہوئے بارگاہِ خاص کی طرف چلے۔(جاری ہے )

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 39 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں