حماس کا احتساب اور ہندوستانی کثیر المفاسد منصوبہ

    حماس کا احتساب اور ہندوستانی کثیر المفاسد منصوبہ
    حماس کا احتساب اور ہندوستانی کثیر المفاسد منصوبہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 ستمبر 23 میں انڈیا میں جی 20 ممالک کے اجلاس میں "انڈیا مڈل ایسٹ یورپ ایکنامک کوریڈور" بنانے کا فیصلہ ہوا، تفصیل یوں تھی: انڈیا، امارات بحری رابطہ، امارات سعودی عرب، اردن، اسرائیل  ریلوے لائن کی تعمیر، اسرائیل تا اٹلی بحری رابطہ پھر یورپ تک ریل روڈ رابطے۔ نومبر 2024 میں برازیل کے اگلے اجلاس میں کوریڈور کی سوا سالہ کارگزاری بتانا لازم تھا۔ لیکن نہ تو اجلاس کو اس کی پیش رفت بتائی گئی، نہ اس کا ذکر ہوا۔ کیوں؟ حماس نے 47 ہزار شہدا قربان کر کے اس کوریڈور کے پرخچے اڑا دیے اور ہمارا مستقبل محفوظ کر دیا۔ آگے پڑھیے۔ کوریڈور کی جزئیات طے کرنے میں انڈیا، سعودی عرب، اسرائیل اور امریکہ کو دو سال لگے۔

 یہ کثیر المقاسد منصوبہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اور ہمارے سی پیک کا جواب تھا۔ یہ امریکہ، بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ بھی تھا تاکہ حجاز مقدس کا گھیراؤ کیا جائے۔ امریکی سرپرستی میں امارات تا اسرائیل ریلوے لائن اس کوریڈور کا مرکز تھا۔ دو سالہ چار ملکی اجلاس خفیہ نہیں تھے کہ متاثرہ ممالک سے پوشیدہ رہتے۔ چنانچہ اس کے دو اہداف چین و روس نے سربراہی اجلاس میں اپنے صدور نہیں وزرائے خارجہ بھیجے۔ منصوبے کے اعلان پر چین مکمل ساکت رہا جو اس کی شناخت ہے۔ روس بھی خاموش رہا۔ صدر ترکیہ اس پر خوب برسے۔ خارجہ تعلقات محلے داری جیسے نہیں ہوتے کہ تھپڑ مارا جائے تو فوراً دو تھپڑ جڑ دیے جائیں۔ ملکوں کی جنگیں زیر زمین اور خاموشی سے ہوتی ہیں۔

اس گٹھ جوڑ پر تمام متاثرہ فریق متحرک ہو گئیے۔ شام کی طویل خانہ جنگی میں روس نے بشار الاسد کا خوب ساتھ دیا تھا، ترکیہ سے جنگ جاری رکھی۔ لیکن اس منصوبے کا اعلان ہوتے ہی دونوں ایک ہو گئے۔ صدر بشار الاسد فرار تو دسمبر 2024 میں ہوئے لیکن اب یہ امر راز نہیں رہا کہ ان کی معزولی روس، ترکی اور قطر کے سال بھر کے خفیہ مذاکرات کا نتیجہ تھی۔ ستمبر 23 میں کوریڈور کا اعلان ہوا تو ایک ماہ بعد منصوبہ ساز اسرائیل، حماس کی لپیٹ میں آ چکا تھا۔ تو کیا حماس نے صرف ایک ماہ کی تیاری سے حملہ کیا تھا؟ صاحب سینکڑوں میل لمبی سرنگیں بچھانے میں کئی سال لگے اور یہ کام مدت سے ہو رہا تھا۔ کیا خیال ہے، حماس نے بغیر کسی سرپرستی کے لاکھوں ٹن بارودی راکٹ میزائل وغیرہ مٹی اور ریت سے بنائے تھے؟ ہزاروں افراد کی قربانی تو دینا پڑی لیکن ناک سے پرے دیکھ سکنے کی صلاحیت سے محروم جرنیل نما حربی صحافیوں کو یاد دلا دوں کہ جنگ حماس نے شروع نہیں کی، 1948 میں اسرائیل نے شروع کی تھی جو بلا تعطل جاری ہے۔

جس پر دولت کی دھن سوار ہو، کھرب پتی ہو کر بھی مرتے دم تک وہ ہل من مزید کہہ رہا ہوتا ہے۔ حصول علم کے مجنون کو بادشاہ نے موت کی سزا سنائی، اگلا ملزم لانے کا حکم دیا، ملزمان کی آنکھیں چار ہوئیں۔ مجرم نے کہا اس نئے ملزم سے ملنے دیں کہ اس کے پاس ایک حدیث نبوی ہے، وہ سیکھ لوں تو سر قلم کر دینا۔ حکام کا قرب حاصل کرنے کو بے چین درباری کا یہ حال رہا کہ اناڑی نواب تیر اندازی کر رہا تھا۔ تختے کی بجائے تیر کا نشانہ درباری بن رہے تھے۔ زندان تملق کا اسیر درباری اپنا نو مولود جگر گوشہ لا کر بولا: "اذن کا طالب ہوں کہ اسے یہاں رکھ دوں۔ شاید کوئی متبرک تیر اس کے نصیب میں بھی ہو".

 صاحب، اپنا اپنا جنون ہے۔ حماس کا احتساب کرنے والے فن حرب کے ماہر صحافیوں کو یہ سمجھانا ناممکن ہے کہ دو عالم سے بیگانہ کر دینے والے جذبہ جہاد کی لذت کیا ہوتی ہے۔ میرے فلسطینی استاد ڈاکٹر عبداللہ عزام جہاد افغانستان میں شہید ہوئے تو 14 سالہ بیٹے کو بیوہ بندوق تھما کر بولی: "جاؤ باپ کا ادھورا مشن پورا کرو". بھائی لوگو!  کچھ نہیں کر سکتے تو گھر بیٹھے حماس کا احتساب تو نہ کرو. ہمارے دل بہت خونم خون ہیں۔ جاؤ یوکرین روس جنگ پر اپنے ماہرانہ تبصرے لکھو کہ تمہیں پتا چلے کہ تم کتنے پانی میں ہو، تمہاری تحریریں کون چھاپتا ہے۔

انسانی تاریخ کی یہ طویل ترین جنگ 1948 سے بلا تعطل جاری ہے۔ 76 سالوں میں فلسطینی لاکھوں شہدا دفنا چکے ہیں۔ ہوش سنبھالنے کے بعد سے یہی سن رہا ہوں کہ میرے وجود کا یہ مغربی کنارے والا حصہ روزانہ اوسطاً چار چھ شہدا کے جنازے پڑھتا ہے۔ حماس نے حالیہ جوابی حملہ تو غزہ کی طرف سے کیا تھا، کوسوں دور مغربی کنارے میں سالانہ ہزاروں بچے شہید کر دیے جاتے ہیں، نئی یہودی بستیوں کے لیے میگا فون پر اعلان ہوتا ہے کہ جو اٹھا سکتے ہو، اٹھا کر فوراً نکل جاؤ۔ کہاں جاؤ؟ کچھ پتا نہیں. پھر گھروں پر بلڈوزر چلا دیا جاتا ہے، فلسطینی لپیٹ میں آتے ہیں تو آئیں۔ وہاں تو حماس کا ایک بھی مجاہد نہیں ہے۔ وہاں کس نے جنگ شروع کر رکھی ہے؟ بولو، بتاؤ، جواب دو؟ متعدد کافر ممالک سمیت 11 ممالک نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے، عالمی عدالت انصاف نے اسے مجرم ریاست کہہ کر اس کے وزیراعظم اور آرمی چیف کو مفرور قرار دے رکھا ہے۔ اور تم حماس کو جنگ شروع کرنے کا الزام دے کر ہمارے شہیدوں کی جمع تفریق کرتے ہو؟ تم "اللہ والے" یہ احتساب اہل غزہ پر چھوڑ کر اپنے تبصرے روس یوکرین جنگ پر آزماؤ، دیکھتے ہیں انہیں کون چھاپتا ہے۔

40 سال قبل ہماری اقتصادی شہ رگ کراچی، یورپ اور ایشیا کے مابین ایک پل تھا۔ پاکستان کا گھیراؤ کرنے والے ممالک نے ہمارے بالمقابل ریت کے ٹیلوں کو کنکریٹ سے بدل کر نیا بیروت لا کھڑا کر دیا۔ ممالک کی جنگ نادیدہ اور خاموش ہوا کرتی ہے۔ جواب آں غزل یہ کہ پاکستان نے گوادر کو وسط ایشیا کا دروازہ بنا جواب دیا تو جواب میں سوکن بندرگاہوں کے مالکان نے ہمارے ہاں کلبھوشن بھر دیے۔ تب ہم نے بذریعہ سی پیک سر اٹھانے کی کوشش کی تو ازلی دشمن، ایکنامک کوریڈور نامی نئی سوکن لے آیا۔ لیکن خاطر جمع رکھیے، طاقت کے مراکز بشمول پاکستان اس کوریڈور کی بدولت اب اٹھ چکے ہیں۔

 حسینہ واجد کا زوال اور بنگلہ دیش میں ہمارے اثر ونفوذ میں اضافہ، یہ ہندوستانی کوریڈور، سال بھر کے سہہ ملکی مذاکرات کے بعد بشار الاسد کا فرار، حماس کی ناقابل یقین پیش قدمی، پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس جس سے باہر بہت کچھ طے ہوا ہے، آئی ایس آئی چیف کے پڑوسی ممالک کے خاموش دورے اور ایران پاکستان آرمی چیف کی ملاقات۔ یہ سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں. حماس کے اس جوابی حملے سے کسی کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے تو وہ پاکستان ہے۔ کہاں ہے سی پیک کی سوکن، انڈیا مڈل ایسٹ یورپ اکنامک کوریڈور؟ قارئین کرام! حماس پر برسنے والوں کو سوز الفت کا نشان مت سمجھیو۔ آہ "جن" کو ماورائے ایں و آں سمجھا ہے "تو"۔

مزید :

رائے -کالم -