پہاڑوں کے سائے نے شام کر رکھی تھی لیکن دوسری چوٹیوں کے چمکتے پیکر بتا تے تھے کہ ابھی شام دور ہے
مصنف : عمران الحق چوہان
قسط:139
دوئکر۔۔۔۔ ایگلز نیسٹ:
وہ جو نیچے سے لیڈی فنگر کے آس پاس ایک نا قابل ِ رسائی مٹی کی چٹان نظر آتی تھی وہی دوئکر یا دوئی کار تھا اور ہم وہاں پہنچ چکے تھے۔ ایک کھلا اور کشادہ علاقہ۔ ایک چھو ٹی سی کم آباد بستی۔ کھیتوں میں بینگن اور آلو کی فصلیں۔ جن میں کہیں کہیں لالہ اورگلاب کے پھولو ں کی جھاڑیاں تھیں۔ ہوا سرد تھی اور برف کی تہوں سے سر نکالے تیکھی ببلیماتنگ یا لیڈی فنگر ایک نگران کی طرح بالکل سر پر ایستادہ۔ سارے میں پہاڑوں کے سائے نے شام کر رکھی تھی لیکن دوسری چوٹیوں کے چمکتے پیکر بتا تے تھے کہ ابھی شام دور ہے۔
کافی دیر سے پانی نہ پینے کی وجہ سے حلق سوکھ رہاتھا اور پیچھے رہ جانے والے دوستوں کا انتظار بھی لازم تھا۔ سڑک کنارے ایک دکان کے باہر 3 ہنزائی بوڑھے ایک بنچ پر بیٹھے محوِ گفت گُو تھے۔ میں نے انہیں سلام کر کے پینے کے پانی کا پوچھا تو شلوار قمیض پر کوٹ اور ہنزائی ٹوپی پہنے ایک بوڑھے نے پوچھا، ”آپ لوگ لسی پیے گا؟“
ان پہاڑٰی ڈھلوانوں پر جنگلی بوٹیاں اور پھل کھا کر اور چشموںکا پانی پی کر دودھ دینے والی گائیوں کے دودھ سے بنی لسی سے کون کافر انکار کر سکتا تھا۔ ہم نے بلا تکلف اس کی دعوت قبول کر لی ۔ وہ اندر گیا تو ہم اس کے گھر کے باہر پختہ نا لے کے کنارے زمین پر چوکڑیاں مار کر بیٹھ گئے۔ کچھ لمحوں میں باقی دوست بھی وہیں پہنچ گئے۔ اس مہربان بوڑھے کا نام شالی خان تھا۔ وہ سیبوں اور خوبانیوں کے پیڑوں میںچھپے اپنے گھر سے گا ڑھی لسی سے بھرا 1 جگ اور 2سٹیل کے گلاس لایا اور ہمیں پکڑا کر اندر دوبارہ چلا گیا۔ جتنی دیر میں ہم نے لسی کے دو دوگلاس معدے میں انڈیلے شالی خان ایک تھال میں دُھلے ہوئے سیب لے کر آگیا۔ اس کے ساتھ اس کا دو تین سال کا پوتا دانش بھی تھا۔ دانش بہت پیارا تھا۔ وہ اجنبیوں سے گھبرائے بغیر آرام سے سمیع کی گود میں بیٹھ کر سب کی صورتیں دیکھنے لگا۔ لسّی اور سیب ختم ہونے پر ہم نے شکریہ ادا کیا اور آگے چل پڑے۔
اونچے نیچے کھیتوں کی پتھریلی منڈیریں پھلانگتے اور فصلوں سے گزرتے ہم چٹان کی کگر پربنے ایک ہوٹل تک پہنچ گئے۔ ایگلز نیسٹ اسی کا نام تھا۔یہ ہو ٹل امتیاز نامی ایک نوجوان نے بنایا تھا۔ کریم آباد جیسی مصروف اور مشہور جگہ چھو ڑ کر اتنی دور آکر ہوٹل بنا نا ایک تجربہ تھا جو بہت کامیاب بھی ہو سکتا تھا اور اس کے بر عکس بھی۔ ر ہنما نے ہمیں امتیاز سے ملوایا۔ وہ ایک خوش شکل اور کسرتی جسم کا لڑکا تھا۔ اچھا خا صا فلمی وجاہت کا حامل۔ تنگ جینز اور چست ٹی شرٹ میں ملبوس۔ اس کے جسم کے کٹ بتاتے تھے کہ وہ ”جِم“ کو باقاعدگی سے وقت دیتا ہے۔ہمارا رہنما اس کا بے تکلف دوست تھا سو اس کی فر مائش پر اس نے شرٹ اتار کر اپنی کمر اور کندھوں پر گُدے ہوئے چند ٹیٹو دکھائے جو اپنی تفصیل (detail) کے ساتھ بہت خوبصورت تھے۔ انہی میں ایک شاہین (eagle) کا ٹیٹو بھی تھا (ایگلز نیسٹ)۔ یہ چترکاری کسی جرمن ”چتر نار“ کی محنت، اور شاید محبت کی بھی، یاد گار تھی۔ایگلز نیسٹ تعمیر کے ابتدائی مرحلے میں تھا۔ امتیا ز آگے چل کر اسے اعلیٰ درجے کا ہوٹل بنا نا چاہتا تھا۔ہوٹل کے گرد با غیچے میں تریک کے خوش دل درخت، کوز موس اور گلاب کے پو دے تھے جن پر خوش رنگ پھول شام کی ہوا میں جھولتے تھے۔ امتیاز نے ہمیں اندر بیٹھنے کی دعوت دی لیکن ہمارے ر ہنما نے پہلے اوپر سے نظارہ دکھانے اور کچھ دیر بعد چائے پینے کا وعدہ کر کے ہمیں ہو ٹل کے ساتھ واقع ٹیلے پر چڑھنے کا اشارہ کیا۔ ایک پگڈنڈی مٹی میں دھنسی ہوئی چھو ٹی بڑی چٹانوں کے اندر چلتی تھی۔بدلتے موسموں اور ہواؤں کی باہم کاری گری نے ان چٹّانوں کو مختلف شکلوں میں تراش دیا تھا۔ ان ہی میں وہ چٹان بھی تھی جسے ایک خاص زاوئیے سے دیکھا جائے تو ایک بیٹھے ہوئے شاہین کا تا ثر دیتی تھی۔ یہ چٹّان ایسی جگہ تھی جہاں سے آپ زیریں ہنزہ کو تا حد ِ نگاہ دیکھ سکتے تھے ۔
زمانہ بدلتا ہے تو حالات بدلتے ہیں اور ان کے ساتھ خیالات بھی۔ایرانی شہنشاہ واہ سودان کو شکار کے دوران ایک بلند چٹان پر عقاب بیٹھا نظر آیا تو اس نے اس چٹان پر قلعہ الموت تعمیر کیا۔ امتیاز کو دوئکر کی چٹان میں ا یک سنگی عقاب نظر آیا تو اسے قلعے کے بجائے ایک ہو ٹل بنانے کا خیال سوجھا، فکر ِ ہر کس بقدر ِ ہمت اوست۔
دوئکر کی شام :
اوپر پہنچ کرحیرانی اور خوشی آپ کو یک دم دبوچ لیتے ہیں اور مسافر”wow یا واہ“ کی کیفیت میں مبتلاہوتا ہے لیکن چند لمحوں بعد جب وہ جگہ سے مانوس ہوتا ہے تو پھر ایک گہری خوشی اس کے دل و دماغ پر طاری ہو جاتی ہے۔ وہی خوشی اور سرشاری جو حُسن کی قربت ایک دھڑکتے دل میں پیدا کرتی ہے۔ ہنزہ سارا حسین ہے لیکن دوئکر کا یہ مقام ہنزہ کا بھی حُسن ہے۔ یہاں کی شام کا افسوں ایک جاوداں یاد بن کر آپ کے ساتھ رہتا ہے۔ آپ اوپر پہنچتے ہیں تو دور تک سبزے کی شال میں لپٹا ہنزہ آپ کے سامنے ایک کینوس کی طرح کھل جاتا ہے۔ قلعہ بلتیت سے لے کر قلعہ التیت تک ایک پینوراما ہے جس میں کریم آباد، مومن آباد اور التیت کی آبادیا ں، کچے پکے گھر، گھروں کی چھتوں پر سوکھتی سرخ خوبا نیوں کے چھابے ، سرکشیدہ تریک کے پیڑ، دریائے ہنزہ کا پانی (جو اتنی بلندی سے بھی سبز نظر آتا ہے)۔ اسی دریا کے مغربی کنارے پرکریم آباد ہے اور مشرقی کنارے پر وادی نگر ۔ کبھی نگر اور ہنزہ ایک ہی ریاست کا حصہ تھے۔ دریائے ہنزہ دونوں ریاستوں کے درمیان نظریاتی سرحد کا کام بھی دیتا ہے ۔ پہاڑی ڈھلوانوں پر زینہ وار کھیت اور ان سب کے گرد سنگین اور سردبرف پوش چوٹیاں ۔ چاندنی راتوں میں، اگر آسمان صاف ہو، توراکا پوشی کا حسن جادو بن کر وادی پر اترتا ہے اور ہر بیدار آنکھ کو مسحور کر لیتا ہے۔ لاہور کے میرے ایک دوست جمیل سلیمی کے بقول، ” یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی آدمی چاندنی رات میں راکاپوشی کو دیکھے اور پاگل نہ ہوجائے۔“ (جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔