آئی پی پیز 

  آئی پی پیز 
  آئی پی پیز 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) نے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو کھربوں روپے کی کپیسٹی پیمنٹس کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ان آئی پی پیز نے ہر پاکستانی کے زندگی کو متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔ مہنگی بجلی تمام پاکستانیوں کے لیے ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شہر اور ہر گلی محلے میں بجلی کے بلوں کو لے کر ”باں باں“ ہو رہی ہے

چند روز قبل سابق وفاقی وزیر اعجاز گوہر نے یہ بات بالکل درست کہی کہ حکومت کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ 24 کروڑ پاکستانیوں کی بقا زیادہ اہم ہے یا 40 خاندانوں (جن کی ملکیت یہ آئی پی پیز ہیں) کے لیے یقینی منافع ضروری ہے۔ انہوں نے موجودہ وفاقی وزیر بجلی اویس لغاری سے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز کو کی گئی ادائیگیوں کا ریکارڈ مانگا تھا۔ پتا نہیں وہ فراہم کیا گیا یا نہیں۔ اب اگر فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری سپریم کورٹ میں جا رہی ہے تو عدالت خود ہی یہ سب کچھ طلب کر لے گی اور  پھر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ میں اعجاز گوہر صاحب کے اس مطالبے کی پُر زور حمایت کرتا ہوں کہ تمام آئی پی پیز کا ڈیٹا پبلک کیا جائے اور قوم کو بتایا جائے کہ کس بجلی گھر نے اپنی صلاحیت کے مطابق کتنی بجلی پیدا کی۔ میں اپنے قارئین اور پاکستانی عوام کی جانب سے ان کے ان مطالبات کی بھی تائید کرتا ہوں کہ آئی پی پیز کو ادا کی گئی کپیسٹی پیمنٹس کا ریکارڈ بھی پبلک کیا جائے، آئی پی پیز کی پیداواری لاگت کا ڈیٹا عوام کے سامنے رکھا جائے، آئی پی پیز کو فیول کی مد میں ادا کی گئی رقوم کے بارے بتایا جائے اور آئی پی پیز کی جانب سے صارفین سے کی گئی وصولیوں کا ڈیٹا بھی عوام کے سامنے رکھا جائے۔ گوہر اعجاز کا یہ انکشاف اس قوم پر ایٹم بم بن کر گرا کہ  52 فیصد پاور یونٹس حکومتی ملکیت میں ہیں، جو 50 فیصد سے کم پیداواری صلاحیت پر چلائے جا رہے ہیں، لیکن صارفین سے 100 فیصد کپیسٹی چارجز وصول کیے جا رہے ہیں، اور یہ کہ 48 فیصد آئی پی پیز 40 خاندانوں کی ملکیت ہیں۔ اس مظلوم قوم کے ساتھ اس سے بڑی زیادتی بھی کوئی ہو سکتی ہے؟ 

گزشتہ 77 برسوں سے اس ملک میں اقتدار کے مزے لوٹنے والے حکمرانوں سے یہ سوال بھی پوچھا جانا چاہیے کہ انہوں نے ان عوام کش معاہدوں کو ختم کرنے کے لیے اب تک کیوں کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی؟  ہمارے ملک میں یہ بات بہت دفعہ کی گئی کہ پی آئی اے اور کراچی کی پاکستان سٹیل ملز جیسے ادارے قومی خزانے پر بوجھ ہیں، اس لیے ان کو نجی شعبے کے ہاتھ فروخت کر دینا چاہیے تاکہ وہ ان کے معاملات اچھے طریقے سے چلا سکیں۔  اس سوال کا جواب بھی تلاش کیا جانا چاہیے کہ کیا پی آئی اے اور پاکستان سٹیل ملز آئی پی پیز سے بھی زیادہ بڑے بوجھ ہیں؟ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ہر سال اربوں روپے عوام سے اکٹھے کر کے اور اہم ضروریات کو ایک طرف رکھ کر قومی خزانے میں سے ان بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں کے حوالے کر دیے جاتے ہیں اور کسی کے ماتھے پر شکن نہیں آتی۔

یہ آئی پی پیز ہیں کیا؟ پاکستان میں انہوں نے کب کام شروع کیا؟ اور ملک اور قوم کے مالی حالت دیکھتے ہوئے بھی ان کے ساتھ ’عوام کُش، معاہدے کس نے کیے، جن کے نتیجے میں لوڈ شیڈنگ سے تو صارفین کو نجات نہ مل سکی لیکن ان کی جیبوں سے پیسے تیزی سے نکلنا شروع ہو گئے؟ آئیے ان سوالات کے جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ 1994ء وہ سال تھا جب حکومت پاکستان نے تیل، کوئلے اور گیس پر مبنی آئی پی پیز کی ترقی کے لیے سرمایہ کار دوست پالیسی کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے بعد 16 آئی پی پی یونٹس قائم کیے گئے۔ اگلے سال یعنی 1995ء میں ہائیڈرو پاور پالیسی کا اعلان کیا گیا جس کے نتیجے میں ملک کا پہلا ہائیڈرو آئی پی پی تیار ہوا۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ 1994-95ء میں یہاں پاکستان میں کس کی حکومت تھی۔ 2002ء میں نئی حکومت (یہ مسلم لیگ ق کی حکومت تھی) نے ایک نئی پالیسی اپنائی، جس کے تحت مزید 12 آئی پی پیز نے کام شروع کیا۔ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPPs) کی ترقی کے لیے پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر بورڈ حکومت پاکستان کے تمام محکموں اور وزارتوں کی جانب سے ون ونڈو سہولت کار کے طور پر کام کرتا ہے۔ حیرت ہے ایسا کوئی بورڈ پاکستانی عوام کو تو اب تک نہیں مل سکا۔ 2015ء میں پاکستان نے ایک نئی پاور پالیسی اپنائی جس کے ذریعے مزید 13 آئی پی پیز قائم کیے گئے، جن میں زیادہ تر چینی کمپنیاں تھیں۔ نجی شعبے میں ٹرانسمشن لائن کی ترقی کے لیے ٹرانسمشن پالیسی کا بھی اعلان کیا گیا۔ وکی پیڈیا کے مطابق 2018ء تک پاکستان میں 40 سے زائد آئی پی پیز کام کر رہے تھے، لیکن گوہر اعجاز کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں اس وقت 106 آئی پی پیز کام کر رہے ہیں۔ ان آئی پی پیز کے ساتھ غالباً ٹیک اینڈ پے معاہدے کیے گئے تھے۔ ٹیک اینڈ پے ایسا معاہدہ ہوتا ہے جس میں خریدار پروڈکٹ کو لینے کا پابند ہوتا ہے۔ وہ اگر پروڈکٹ نہیں لیتا تو پھر بھی اسے پروڈکٹ کی پیداواری صلاحیت کے مطابق رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔ گوہر اعجاز جس کو کپیسٹی پے منٹس قرار دے رہے ہیں، وہ یہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے گزشتہ برس 1198 ارب روپے کی بجلی خریدی جبکہ کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں 3127 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی۔ ظلم کی یہ داستان یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ کئی پاور یونٹس جب لگائے جا رہے تھے تو اگر ان کی پیداواری صلاحیت 70 میگا واٹ تھی تو بدعنوانی کر کے اس کو100 میگا واٹ شو کرایا گیا اور اب تک پیسے 100 میگا واٹ کے حساب سے وصول کیے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں جس بجلی کی قیمت زیادہ سے زیادہ 20 روپے یونٹ ہونی چاہیے تھی وہ مظلوم شہری  60 روپے سے 80 روپے تک میں خرید کر استعمال کرنے پر مجبور ہیں، متعدد حکومتی ٹیکسز اور چارجز اس پر مستزاد۔ یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ وہ پرانے آئی پی پیز جن کے ساتھ معاہدے ختم ہو چکے تھے ان میں سے کئی کارخانوں کے کنٹریکٹ دوبارہ رینیو یعنی بحال کر دیے گئے ہیں۔ 

مزید :

رائے -کالم -