اُجاغ میں پڑی ہے راکھ (2)
آفتاب خان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں
محبت پرورش پائے دلوں کے نرم گوشوں میں
کبھی بنجر زمینوں میں شجرکاری نہیں ہوتی
اور
سب کو معاشیات نے گھیرا ہے اس طرح
صدقہ بھی لے رہے ہیں وہ خیرات ہی نہیں
اکرم کنجاہی اپنے مضمون ”بیدار حسیت اور آگہی کا شاعر“ آفتاب خان کے ہاں تجربوں کا شعور، آگہی کا درد اور انسان کے جذباتی کرب کا اظہار نمایاں ہے۔ محبت کی ہفت رنگ کیفیات کے ساتھ ساتھ اُس نے انسانی رشتوں کے تقدس، احترام اور حیاتِ انسانی کی لازوال اقدار کی بات کی ہے۔ ایسے اخلاقی رویوں اور عادات و خصائل کا تجزیہ کیا ہے جو قاری کو خیروشر کی پہچان میں مدد دیتے ہیں۔ درحقیقت یہ اخلاقیات کے وہ عمومی اصول ہیں جو تمام مذاہب عالم میں یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔
آفتاب خان کے کلام میں کیا سوز ہے کیا ساز ہے ملاحظہ ہو
مزاج چھوڑ تُندخُو، نہ زہر دل میں گھول تو
کسی کے درد کو سمجھ کسی کے دکھ میں آہ کر
رہے گا سچ ہمیشہ سچ ہوس کی پیروی سے بچ
ہزار نعمتیں ہیں جب نہ صرف زر کی چاہ کر
نقوش ہیں دھواں دھواں بجھے گا یہ چراغِ جاں
قلیل عمر کے لیے نہ زیست یوں تباہ کر
معلم شاعر، ادیب ڈاکٹر اخترشمار نے وفات سے پہلے 20نومبر2019 کو آفتاب خان کے لیے یہ مضمون لکھا ”اُجاغ میں پڑی ہے راکھ“ ایک تاثر میں لکھتے ہیں کہ آفتاب خان کے اشعار پڑھ کر ہمیں وہ سچ مچ ”اینگری ینگ مین“ محسوس ہوتا ہے کہ اس کے ہاں بعض اوقات معاشرے کی ناہمواریوں اور ناانصافیوں پر ایک غصہ، احتجاج اور جھنجھلاہٹ نمایاں دکھائی دیتی ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس تلخ نوائی میں اُس کا لہجہ بلند آہنگ ہونے کی بجائے دھیما رہتا ہے جس میں ایک کوملتا کی آنچ بھی دکھائی پڑتی ہے۔
معروف شاعر، ادیب، معلم، ڈاکٹر ایوب ندیم اپنے مضمون میں یوں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ آفتاب خان کی غزل میں بعض الفاظ خاص معنویت کے حامل ہیں مثلاً فقر، درگاہ، بیعت، جھونپڑی، پیر اور مرید وغیرہ۔ یہ لفظ اُس کے مخصوص ذہنی رجحان کا پتا دیتے ہیں اور استعاروں میں ڈھل کر اُس کے شعری کینوس میں رنگ بھرتے ہیں۔
ہاتھوں میں ڈگڈگی ہے سیاست کے نام پر
یہ میر کارواں تو مداری ہے آج بھی
سڑکوں پہ ان دنوں ہے قیامت کا اک سماں
سب جا رہے ہیں خواب کا لاشہ لیے ہوئے
آگہی اور شعور کے شاعر سعود عثمانی اپنے مضمون میں لکھتے ہیں آفتاب خان نے بیک وقت دو ٹھکانے بنائے، ایک شاعری دوسرا لاہور۔ دونوں جگہ وہ آسودہ رہے اُس اضطراب کے ساتھ آسودہ جو بہرحال زندگی اور شاعری میں ساتھ کبھی نہیں چھوڑتا۔ شاعری میں بھی اُس نے غزل گیت، فلمی میدان میں قسمت آزمائی کی اور غزلیں سر کیں لیکن جو اُس کی اصل تھی اُس کا دامن تھامے رکھا۔ سنجیدہ شاعری اُس کے اندر سے پھوٹتی اور اُس کی اصل کا پتا دیتی ہے وہ کہتا ہے عشق کے گرم جزیروں میں چلا آیا ہوں۔ خوبصورت شعر ملاحظہ کیجیے۔
یہ میرا عشق سرایت نہ تجھ میں کر جائے
میں آفتاب ہوں نظریں جھکائے دیکھ مجھے
ڈاکٹر نثارترابی بہت ارفع اعلیٰ تہذیب شاعر کا نام ہے۔ اُن کی ناموری اور مقبولیت کا پلہ بہت گراں ہے۔ انہوں نے آفتاب خان کی شاعری کے حوالے سے نہایت مؤثر مختصر اور جامع مضمون لکھا اور پھر ان کی کتاب کی پذیرائی پر گفتگو بھی فرمائی۔ وہ لکھتے ہیں آفتاب خان کی شاعری میں جذبے کا خلوص اور فن کی پختگی ایسے شاعرانہ اوصاف لفظیات اور اسلوب بیان کی نئی جہت اور جھلک نمایاں کرتے ہیں۔ یہ ایک نہایت شائستہ و متین شاعر کا کلام ہے جس کی جنم بھومی تو پھولوں کا شہر پشاور ہے لیکن جسے زندہ دلانِ لاہور نے خلوص و محبت کی بانہوں میں سمیٹ کر کچھ یوں سینے سے لگا رکھا ہے کہ اب لاہور ہی اس کا مستقل مستقر بن گیا ہے۔ اپنے لحن، لب و لہجے اور موضوعاتی برتاؤ کے اعتبار سے ”اُجاغ میں پڑی ہے راکھ“ کی غزلیات شعری جمال آرائی سے زیادہ خیال کے بے ساختہ پن کو اپنا رہنما بناتی ہیں۔
اس واسطے غزل کا سسکتا ہے تن بدن
جبراً کسی غزال سے چھینا گیا ہے بن
آفتاب خان نے شاعری میں محملاتِ آہ و فغاں گردوپیش دکھائے ہیں یہ اُن شعراء میں سے ہیں جنہوں نے ماورائی عشق کا تصور دیا ہے۔ یاد آوری کے لیے بتاتا ہوں کہ غزل غزال سے ہے۔ غزال ہرن کی اُس چیخ کو کہتے ہیں کہ جب اُسے شکاری سے بچنے کی کوئی امید نہیں ہوتی اور وہ بے پناہ درد اور کسک کے ساتھ ایک چیخ برآمد کرتی ہے تو اسے بھی غزل کہتے ہیں۔ غزل لکھنا کوئی آسان کام نہیں یہ جتنی آسان ہے اُتنی ہی مشکل صنف بھی ہے خالصتاً غزل کی شاعری پورا آدمی مانگتی ہے۔ سلیم احمد کہتے ہیں کہ نظم پورا آدمی مانگتی ہے لیکن میرے خیال میں غزل پورا آدمی مانگتی ہے اکثر شاعر غزل لکھنے سے ابتدا کرتے ہیں مگر آفتاب خان نے 20سال غزل کی تربیت میں گزارے ہیں۔ یہ خالصتاً غزل کے شاعر ہیں ہم سب دوسری شعری مجموعہ کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ اُمید ہے کہ آفتاب خان اپنی شاعری کو خوب سے خوب تر بنانے کی جستجو کرتے رہیں گے۔
مجھ سے ملا کے آنکھ اُتارا ہے مجھ میں عشق
یہ عشق آخری تھا جو اوّل بنا دیا