کیا صدقہ فطر نقد رقم کی صورت میں دیا جاسکتا ہے؟ امارات کی فتویٰ کونسل کا مؤقف آگیا

ابو ظہبی (ڈیلی پاکستان آن لائن) متحدہ عرب امارات کی فتوٰیٰ کونسل نے رمضان المبارک 1446 ہجری کے لیے جاری کردہ فتوٰیٰ میں واضح کیا ہے کہ صدقہ فطر نقد رقم میں ادا کی جا سکتی ہے۔ بدھ کے روز جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق کونسل نے فی فرد زکوٰۃ الفطر کی نقد رقم 25 درہم مقرر کی ہے۔ کونسل کے مطابق زکوٰۃ الفطر تمام مسلمانوں پر فرض ہے، خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، مرد ہوں یا عورت، ہر وہ شخص جو مالی کفالت کا ذمہ دار ہو، اسے اپنی، اپنے اہل خانہ اور زیرِ کفالت افراد کی طرف سے زکوٰۃ الفطر ادا کرنی ہوگی۔
خلیج ٹائمز کے مطابق فتوٰی میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کا حوالہ دیا گیا، جس میں نبی اکرم ﷺ نے زکوٰۃ الفطر کے طور پر ایک صاع (تقریباً 4 مٹھی بھر) جو یا ایک صاع کھجور دینے کا حکم دیا تھا۔ کونسل نے وضاحت کی کہ چاول کی صورت میں زکوٰۃ الفطر کی مقدار فی فرد اڑھائی کلوگرام بنتی ہے، اور یہ رقم نقد بھی ادا کی جا سکتی ہے۔
کونسل نے مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ زکوٰۃ الفطر جنرل اتھارٹی آف اسلامک افیئرز، اوقاف، زکوٰۃ فنڈ، اور دیگر فلاحی تنظیموں کے ذریعے مستحق افراد تک وقت پر پہنچائیں تاکہ اسے عید سے قبل ضرورت مندوں تک پہنچایا جا سکے۔ کونسل نے وضاحت کی کہ زکوٰۃ الفطر کا ایک بنیادی مقصد غریبوں کو عید کے موقع پر مانگنے سے بے نیاز کرنا ہے، اور یہی چیز اسے زیادہ بامقصد بناتی ہے۔
کونسل کے مطابق، نقد رقم کی صورت میں زکوٰۃ الفطر کی ادائیگی کو اس بنیاد پر جائز قرار دیا گیا ہے کہ یہ غریبوں کی مدد کے لیے زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ اس حوالے سے امام ابو جعفر الطحاویؒ کا حوالہ دیتے ہوئے کونسل نے کہا کہ "زکوٰۃ کی رقم دینا زیادہ بہتر ہے، کیونکہ اس سے غریب کو فوری ضرورت کے مطابق چیزیں خریدنے میں آسانی ہوتی ہے۔"
ماضی میں زکوٰۃ الفطر کے لیے جو اور گندم اس وجہ سے مقرر کیے گئے تھے کیونکہ اس دور میں مدینہ میں خرید و فروخت انہی چیزوں کے ذریعے ہوتی تھی۔ تاہم، آج کے دور میں چونکہ تمام مالی لین دین نقد میں ہوتا ہے، اس لیے نقد زکوٰۃ دینا زیادہ بہتر ہے۔ کونسل کے مطابق، ایک ضرورت مند فرد جب اشیائے خور و نوش حاصل کرتا ہے تو وہ انہیں فروخت کر کے اپنی دیگر ضروریات پوری کرتا ہے، اور اگر یہی رقم نقد میں دی جائے تو اسے نقصان برداشت نہیں کرنا پڑتا۔
فتوٰیٰ کونسل نے علمائے کرام کی مختلف آراء کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا کہ کچھ فقہاء صرف اجناس میں زکوٰۃ الفطر دینے کے قائل ہیں، جبکہ دیگر نقد رقم کی ادائیگی کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔ کونسل نے اعلان کیا کہ جو شخص مقررہ مقدار میں اجناس کے طور پر زکوٰۃ ادا کرے، وہ بھی درست عمل کرے گا، اور جو نقد میں دے گا، وہ بھی اپنی ذمہ داری پوری کر لے گا۔ تاہم، موجودہ حالات میں مستحق افراد کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے، نقد زکوٰۃ دینا زیادہ بہتر ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک صدقہ فطر نقد رقم کی صورت میں دینا جائز بلکہ بہتر ہے۔ ان کے مطابق شریعت کا اصل مقصد ضرورت مندوں کی مدد کرنا ہے، اور زمانے کے لحاظ سے نقدی زیادہ مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا استدلال یہ ہے کہ اگر اجناس دی جائیں اور غریب کو ان کی ضرورت نہ ہو، تو وہ بیچ کر کم قیمت میں فروخت کرے گا جبکہ نقدی ملنے کی صورت میں وہ اپنی ضرورت کے مطابق چیزیں خرید سکتا ہے۔ جب کہ باقی تینوں ائمہ کرام (امام مالک، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ ) کے نزدیک صدقہ فطر اجناس کی شکل میں دینا چاہیے۔