پی ٹی آئی کا احتجاج

پی ٹی آئی کا احتجاج

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج کی کال سے ملکی معیشت کا ایک دن میں 190 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے، لاک ڈاؤن اور احتجاج کی وجہ سے کاروبار رْکتا ہے، برآمدات متاثر ہوتی ہیں اور ٹیکس وصولیاں کم ہوجاتی ہیں۔ اُن کے مطابق وزارتِ خزانہ نے ایک رپورٹ تیار کی ہے جس کی رو سے ایک دن کی ہڑتال سے جی ڈی پی کی مد میں 144 ارب کا نقصان ہوتا ہے، اس میں صوبوں کا ایک دن میں زرعی اور صنعتی شعبے کا 26،26 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے، برآمدات کی مد میں 26 ارب، براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری متاثر ہونے سے روزانہ تین ارب روپے ڈوب جاتے ہیں، ٹیکس وصولیوں میں کمی آتی ہے جبکہ سیکیورٹی اخراجات پر بھی اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کام کے شعبوں میں نقصان اس کے علاوہ ہے جبکہ آئی ٹی اور ٹیلی کام کی بندش سے سماجی طور پر بھی منفی اثرات سامنے آتے ہیں۔ وزیر خزانہ نے یہ رپورٹ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اتوار کو دی گئی فائنل کال کے تناظر میں گفتگو کرتے ہوئے پیش کی۔ حکومت نے وفاقی دارلحکومت کو ہر طرف سے سیل کیا ہوا ہے۔  بیلاروس کے وزیر خارجہ بھی 68 رْکنی وفد کے ہمراہ اتوار کو جبکہ بیلا روس کے صدر سوموار کو تین روزہ دورے پراسلام آباد پہنچے۔ وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے وفد کا استقبال کیا، جس میں بیلا روس کے وزیر خارجہ کے علاوہ توانائی صنعت، مواصلات، قدرتی وسائل اور ہنگامی حالات کے وزرا کے علاوہ چیئرمین ملٹری انڈسٹری کمیٹی کے ساتھ ساتھ وہاں کی 43 بڑی کاروباری شخصیات بھی شامل ہیں۔ 

میڈیا رپورٹس کے مطابق اسلام آباد اور راولپنڈی کے تمام تعلیمی ادارے سوموار کو بند رہے، ترجمان ضلعی انتظامیہ کے مطابق تعلیمی ادارے بند رکھنے کا فیصلہ صورتحال کے پیش نظر کیا گیا۔سوشل میڈیا پر فلائٹ آپریشن بند ہونے کی خبریں بھی گردش کرتی رہیں لیکن بعد میں اِس کی تردید جاری کر دی گئی۔ اِن سطور کی تحریر تک پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) خیبر پختونخوا کا احتجاجی قافلہ وزیرِاعلیٰ کی زیرِ قیادت اسلام آباد کی طرف رواں دواں تھا، پی ٹی آئی کے جن کارکنوں نے شہر میں داخل ہونے کی کوشش کی اُنہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ دیگر شہروں میں بھی احتجاج کرنے والوں کے ساتھ ساتھ اِس کے ارکانِ اسمبلی، چند مقامی لیڈراورسینکڑوں کارکنوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں سیکیورٹی ہائی الرٹ رہی اور آئی جی اسلام آباد کا کہنا تھا کہ کسی بھی شر انگیزی سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔

پی ٹی آئی گزشتہ لگ بھگ ایک دہائی ماسوائے اپنے ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت کے سڑکوں پر احتجاجی سیاست ہی کرتی نظر آتی ہے، 2013ء کے انتخابات سے لے کر آج تک اِس کے کارکن چین سے نہیں بیٹھ سکے، احتجاجی سیاست تو اب قومی شعار بنتی نظر آتی ہے، پی ٹی آئی کی حکومت ہو تو دیگر جماعتیں اسلام آباد کا رُخ کر لیتی ہیں، بصورت دیگر وہ خود اسلام آباد بند کرنے کی خواہش میں مبتلا رہتی ہے۔دھرنا سیاست کی تو پی ٹی آئی بانی ہے،چار ماہ سے  زائد اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھی رہی، البتہ سانحہ اے پی ایس کے بعد وہ اپنا دھرنا ختم کرنے پر مجبور ہو گئی لیکن اس کے طرز سیاست میں فرق نہیں آیا۔ انتخابات سے لے کر اب تک وہ اسی خواہش میں مبتلا ہے کہ کسی طرح اسلام آباد میں ڈیرے جما لے لیکن ابھی تک اسے کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔حکومت اس کو روکنے کے لئے ہر حربہ استعمال کرنے پر بضدہے۔سیاسی جماعتوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ  جب چار ماہ سے زائد کا دھرنا لا حاصل رہا، لانگ مارچ ناکام رہے، کسی جلسے یا جلوس سے کوئی مطلوبہ نتیجہ نہیں حاصل ہوئے تو اس کا مطلب ہے کہ احتجاجی سیاست کی گنجائش ذرا کم ہی ہے، جتھوں کے دباؤ پر حکومتیں لپیٹی نہیں جا سکتیں۔کوئی بھی عمل، کوئی بھی ردعمل قانونی دائرے اور پارلیمانی حدود میں ہی کامیاب ہو سکتا ہے۔ایسے تو کل کو کوئی بھی کسی کو بھی چلتا کر دیے گا۔بنگلہ دیش میں احتجاج اور فساد کے بعد حکومت تو بدل گئی لیکن  وہاں مسائل حل ہونے کی بجائے مزید گمبھیر ہو گئے ہیں۔حکومت جمہوری طریقے سے قائم ہوتی ہے اور ہونی چاہئے۔عمران خان وہ پہلے وزیراعظم تھے جنہیں باقاعدہ تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے محروم کیا گیا۔اس کے بعد اْنہوں نے پارلیمان میں بیٹھنے کی بجائے مستعفی ہو کر سڑکوں کا رْخ کر لیا، دو صوبوں میں قائم اپنی حکومتوں کو خود ہی ختم کر دیا لیکن پھر بھی ناکام ہی رہے۔ کبھی امریکہ کے خلاف آواز بلند کی اور پھر ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے پر ڈھول بجائے، کبھی اسٹیبلشمنٹ  پر تنقید کی اور پھر اس کے ساتھ ہی مذاکرات پر زور دے رہے ہیں۔سانحہ نو مئی ہو گیا، پی ٹی آئی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی، کئی رہنما پارٹی چھوڑ گئے، خود بانی پی ٹی آئی پابند سلاسل ہو گئے، انتخابات کے نتیجے میں اْن کی جماعت قومی اسمبلی میں بڑی جماعت بن کر اُبھری تاہم پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر مرکزمیں حکومت بنانے سے انکار کر دیا۔ خیبر پختونخوا میں حکومت بنا لی لیکن پنجاب میں ایسا نہ ہو سکا، سندھ اور بلوچستان میں بھی اُنہیں کامیابی نہیں ملی۔اِس کے بعد اب اُنہوں نے فائنل احتجاج کی کال دے دی ہے، ان سب سے کچھ حاصل نہیں ہو گا،نقصان صرف اور صرف ملک کا ہو رہا ہے اور موجودہ حالات میں ہم اِس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔  اب بھی وقت ہے تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھیں، اپنی اپنی ضد ایک طرف رکھیں، حکومت سخت رویہ اپنانے کی بجائے بات چیت کا راستہ کھولے، پی ٹی آئی بھی میز پر بیٹھ جائے۔جب سب ایک ہی ملک کے شہری ہیں تو مفادات الگ الگ کیسے ہو سکتے ہیں۔ معاملات بالآخر سڑکوں پر نہیں پارلیمان ہی میں حل ہوں گے۔جس کے جو بھی شکوے ہیں، انہیں سنیں اور دور کریں۔ملک میں خراب حالات کا فائدہ دشمن عناصر ہی اٹھاتے ہیں، اپنے گھر کی خود حفاظت کریں کوئی بھی باہر سے آ کر یہ کارخیر سرانجام نہیں دے گا۔

مزید :

رائے -اداریہ -