شخصی اَنا مقدم ہے یا ملک؟
اب تک پاکستانی عوام پر یہ بات تو واضح ہو چکی ہے کہ اس ملک میں مقبولیت نہیں قبولیت سے حکومت ملتی ہے لیکن جنہوں نے قبولیت کا شرف بخشنا ہوتا ہے وہ بھی پاکستان کے شہری ہیں کسی کا کتنا بڑا عہدہ ہو، مرتبہ ہو یا جتنا بھی طاقتور، ہوتا تو وہ بھی پاکستانی ہی ہے اور میرا نہیں خیال کہ کوئی بھی پاکستانی کسی بھی حال میں پاکستان کا دشمن ہو سکتا ہے وقتی غصہ، کسی زیادتی کا رنج اور کسی مخالفت کی جلن تو ہو سکتی ہے لیکن بدلے کی آگ میں ملک کو جھونکنے کا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا،لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ یہاں ہر دو چار برس کے بعد کہیں دو یا چار بڑوں کی اناؤں کا ٹکراؤ ہو جاتا ہے اور وہ ضد میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی یا نادانستہ طور پر ملک کا نقصان کر بیٹھتے ہیں یہ ٹکراؤ ہمیشہ سیاستدانوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہی ہوتا رہا ہے گو کہ سامنے سیاستدانوں کی آپس کی لڑائی نظر آتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے تسلسل کے ساتھ یہ بات کہی جاتی ہے کہ ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، مگر یہ بات سب کو نظر آ رہی ہوتی ہے کہ مسئلہ کسی سیاسی شخصیت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان چل رہا ہوتا ہے فوجی اسٹیبلشمنٹ سے مراد سپہ سالار اور ان کی ٹیم ہے، کیونکہ نہ تو فوج بطور ادارہ کبھی سیاست میں ملوث ہوئی ہے نہ ہی سارے افسروں کی سیاست میں کوئی دلچسپی ہوتی ہے فوج ایک منظم ادارہ ہے، جس کی وجہ سے سب سپہ سالار کے حکم کے تابع کام کرتے ہیں۔
اس اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کی کش مکش نے پہلے پاکستان کو دو ٹکڑے کیا اور باقی ماندہ پاکستان کو معاشی طور پر اس قدر کمزور کر دیا ہے کہ دنیا ہمیں بھکاری سمجھنے لگی ہے پاکستانی صلاحیتوں سے مالا مال قوم ہونے کے باوجود دنیا کی قوموں میں سب سے نچلے درجے پر جا چکے ہیں پاکستان کا پاسپورٹ آخری تین ممالک کے ساتھ ملا دیا گیا ہے اور دنیا میں کہیں بھی پاکستانیوں کی عزت نہیں ہے بطور پاکستانی تعارف کرواتے ہوئے ہمیں شرم آنے لگی ہے اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے اور پاکستانی قوم بہت باصلاحیت قوم ہے، لیکن انہیں اپنے وطن میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا موقع ہی نہیں ملا، لیکن دنیا کے بیشتر ممالک میں پاکستانی مختلف شعبوں میں اپنا لوہا منوا رہے ہیں لیکن جیسے محاورہ ہے کہ مور جب اپنے پاوں کی طرف دیکھتا ہے تو شرمندہ ہو جاتا ہے اسی طرح ایک پاکستانی جتنا بھی باصلاحیت ہو جب بطور پاکستانی اپنی طرف دیکھتا ہے تو شرم سے منہ چھپانے لگتا ہے کیا ہمارے حکمران، سیاستدان اور فوجی جرنیلوں کو اس بات کا قطعی احساس نہیں ہے کہ ان کی اناؤں کی وجہ سے پاکستان تباہ ہو رہا ہے؟ مانا کہ ان کی جائیدادیں اور رہائشیں بیرون ممالک بھی ہوں گی لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ جن کا اپنا ملک نہیں ہوتا وہ دوسرے ممالک میں پناہ گزین کے طور پر دوسرے درجے کی شہری بن جاتے ہیں اور پھر وہ جتنے بھی مالدار ہوں ان کی عزت ہوتی ہے نہ ان کی بات کی کوئی اہمیت ہوتی ہے۔
اِس وقت پاکستان پوری دنیا میں تماشہ بن کر رہ گیا ہے اور پاکستانی عوام ایک طرف مہنگائی کے بوجھ تلے کراہ رہے ہیں تو دوسری طرف آئے روز پورا پاکستان کنٹینر لگا کر بند کر دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے کئی مریض راستے میں دم توڑ جاتے ہیں، شادیوں والے راستے میں پھنسے رہتے ہیں بیرون ممالک سفر کرنے والوں کے جہاز چھوٹ جاتے ہیں ملک کو معاشی طور پر ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے یہ سب کس وجہ سے ہو رہا ہے؟ کیا پورا ملک چند لوگوں کی اَنا کی بھینٹ نہیں چڑھ رہا؟دونوں طرف پاکستانی ہیں تو آپس میں بات کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے والے یہ کیوں نہیں سمجھ رہے کہ آپ میں سے جو بھی اوپر رہے پاکستان بہرحال نیچے ہی کی طرف جائے گا،یہ ناچیز ایک عام شہری کی حیثیت سے درخواست گزار ہے کہ اپنی اَنا سے نکل کر ملک کا سوچیں اور فوری طور پر ایک دوسرے کے ساتھ مکالمے کا آغاز کریں جو پہل کرے گا وہی اچھا ہو گا،لیکن میرے خیال میں پہل اسٹیبلشمنٹ کو کرنی چاہئے، کیونکہ طاقت انہی کے پاس ہے اور حکومت بھی انہی کے رحم و کرم پر ہے۔عمران خان اور اس کی جماعت کی ہزار غلطیاں ہو سکتی ہیں،مگر وہ بھی پاکستانی ہیں اور پاکستان کا احساس ان کو بھی ضرور ہو گا، پی ٹی آئی والوں نے 9 مئی سمیت جو بھی کیا ہے، مگر اِس وقت لوگ ان کو مظلوم گردانتے ہیں اور حکومت ان کے خلاف جتنا ظلم بڑھائے گی ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہو گا، اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں تمام سیاسی قوتوں پر مشتمل ایک ایسی قومی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے جو ملک کو معاشی مشکلات سے نکالنے، جمہوریت کو مضبوط کرنے اور آئندہ منصفانہ انتخابات کا بندوبست کرے تاکہ ملک میں استحکام آئے یہ سب ممکن ہے اگر شخصیات ملک کو اپنی اناوں پر مقدم رکھیں۔