کالم،سالم،بالم اورظالم
ہمارے ایک دوست کولوگ فارغ سمجھتے تھے حالانکہ وہ بعض اوقات کام بھی کررہے ہوتے تھے۔ لوگ اُن کو نالائق سمجھتے تھے جبکہ وہ ایف۔ اے۔ میں صرف چند سالوں کی پڑھائی کے بعدانٹرمیڈیٹ کا اعلیٰ امتحان پاس کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ پڑھنا لکھنا اُن کیلئے مشکل نہیں تھا۔ دیواروں پراپنا نام لکھ کرآسانی سے پڑھ لیتے تھے۔مطالعہ کے بھی شوقین تھے۔ ڈائجسٹ اور جاسوسی ناول باقاعدگی سے پڑھتے تھے۔ مزیدتعلیم حاصل کرنے پردل مائل نہ ہوا۔ ایک مقامی اخبارمیں بطور رپورٹر کام کرنے لگے۔ ایک دن کالم نگاربھی بن گے۔ ایک غیر معروف اخبار میں اُن کا کالم تواتر سے چھپنے لگا۔وہ دوستوں کے حلقے میں معروف بلکہ مشہور و معروف ہوگئے۔ایک دوست نے اُن سے پوچھا کہ وہ کالم کیوں لکھتے ہیں؟۔ جواب میں انہوں نے فرمایا ”وہ کالم اپنے بالم کیلئے لکھتے ہیں“۔ بالم سے ان کی پہلی ملاقات سالم انٹر چینج پرہوئی تھی۔ پہلی ملاقات کے بعد ہی وہ مکمل طور پر چینج ہوگئے تھے۔ اُن کے پاس ہروقت چینج ہی چینج نظر آتی تھی۔تمام بھکاری اُن کو بہت ”دیالو“ سمجھتے تھے۔ اُن کے پاس کبھی کوئی بڑا نوٹ نہ دیکھاگیا۔تمام بڑے نوٹ اُن کے بالم کے حصے میں آتے تھے۔لوگ کہتے تھے کہ اُن کابالم بڑاظالم ہے مگروہ اس بات پر فخرکرتے تھے کہ بالم،سالم انہی کا ہے۔
واقفان حال مگر یہ کہتے تھے کہ”بالم“سالم انٹرچینج پرانہیں ملا ضرورتھامگراُن کا پورا تو کیاذرا سا بھی نہیں تھا۔گھر والے بالم اورکالم،دونوں کے خلاف تھے۔سالم کا سالم گھرکالم اوربالم کے خلاف یک نظریہ،یک زبان تھا۔ بڑے بھائی کاکہناتھالوگ رفتہ رفتہ تباہی کے گڑھے میں گرتے ہیں،مگر ہمارا بھائی تویک دم سالم کا سالم ہی گر گیا۔ گھر والوں کوان کے کالم سے زیادہ اپنے پالتوبکرے کی فکر تھی۔ بالم کی محبت میں گرفتار ہونے سے پہلے ہمارے دوست سالم بکرا کھا جاتے تھے۔ اب بکرا اُن کا کالم، سالم کاسالم ہی نگل جاتاتھا۔شاید اسے ہی کہتے ہیں ”جیسی کرنی ویسی بھرنی“۔ ایک بھائی کے بقول بکرے کا یہ فعل ”جیسے کو تیسا“کی زندہ مثال تھا۔ والدصاحب کوہروقت یہ شکوہ رہتا تھا کہ ان کے کالم کھا کھاکربکرابھی عقل سے پیدل ہوگیاتھا۔ عجیب وغریب حرکات وسکنات کامرتکب پایا جاتا تھا۔ بعض حرکات تو قابل دست اندازی پولیس بھی ہوتی تھیں۔ والد صاحب مزیدفرماتے تھے کہ اس بکرے کی ماں کیا خیر منائے گی، جوایساکالم کھاجاتا تھا، جسے دیمک بھی نہیں کھاتی۔جس بکرے کوکھانے پینے کی اتنی تمیز بھی نہ ہو،اُس کی ماں آخرکب تک خیر مناسکتی تھی۔ بکرے کامعدہ کالم کھاکھاکرمگر پتھرہضم،لکڑہضم ہوگیا۔کچھ عرصہ بعد وہ دیگر بکروں میں بطور ”گیسٹرو انٹرولوجسٹ“ مشہور ہوگیا۔کئی بکرے بوقت ضرورت اُس سے مشورہ کرتے ہو ئے پائے گئے۔ایک واقفِ حال رازدرانہ لہجے میں سب کو بتاتے تھے ”کالم تو اُن کیلئے صرف ایک بہانہ ہے، مقصد بالم کادیااپنے بوجھ دل سے ہٹانا ہے اوردوسروں پر ڈالنا ہے“۔ وہی صاحب مزید فرماتے تھے”اُن کا ایک کالم پڑھنے سے صرف دوسرے کالم کی اشاعت تک بندے کی طبیعت بوجھل رہتی ہے۔
جولوگ زیادہ حساس ہیں اُن کوطبیعت کے بہت زیادہ بوجھل ہونے کی شکایت بھی ہو سکتی ہے۔دیگرمسائل ہونے کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کیاجاسکتاہے ورنہ تو کالم پڑھنے کے بعد دم درود ہی کافی وشافی ہے۔“ایک دوست انہیں کہنے لگے ”آپ اگرمولاناظفرعلی خان کے دورمیں کالم نگارہوتے تو ہٹ لسٹ پر ہوتے۔اب شاید آپ ہٹ بلکہ سپرہٹ ہوجائیں“۔ایک دوسرے دوست نے مشورہ دیاکہ اُن کو کالم نگاری کی بجائے کارٹون بنانے پر مغزماری کرنی چاہیے۔ ایک اوردوست دور کی کوڑی لاتے تھے اورفرماتے تھے”آپ کالم لکھنے کی بجائے مزاحیہ شاعری کیاکریں کیوں کہ آپ کے چہرے پراب وہی سوٹ کرتی ہے“۔ہمارے ایک شاعرمحبوب کی طرف قاصد کوخط دے کر روانہ کرتے تھے مگر قاصدکے لوٹنے سے پہلے ہی دوسرا خط بھی لکھ رکھتے تھے۔انہیں محبوب کے جواب کامکمل ادراک ہوتا تھا۔ ہمارے کالم نگاردوست بھی کسی سے استفسارکیئے بغیر ہی اپنا کالم پیش کردیتے تھے۔اتنی منت سماجت سے کام لیتے تھے کہ مخاطب کیلئے کالم پڑھے بغیرکوئی چارہ نہیں رہتاتھا۔یہ الگ بات ہے کہ بعض لوگوں کادل کالم پڑھ کر چارہ کھانے کوکرنے لگتاتھا۔اپنا کالم بغیرمنت سماجت کے پڑھنے والے واحدانسان وہ خود ہی ہوتے تھے۔ اخبار میں چھپے کالم میں بھی وہ تمام غلطیاں جوں کی توں موجودہوتی تھیں جوانہوں نے کی ہوتی تھیں۔ جس سے یہ شک یقین میں بدل جاتاتھا کہ اُس اخبار کاکاتب انتہائی باذوق انسان تھااوراس کاذوق ان کے بکرے کے ذوق سے کہیں بلند تھا۔
ان کے اوربالم کے معاملات کالم کی طرح سیدھے تھے۔ کالم میں بھی کوئی گہرائی نہیں تھی اورتعلقات میں بھی۔ وہ کما رہے تھے۔ بالم صاحب کھارہے تھے۔ اردگرد کے لوگ مسکرارہے تھے۔ بالم کو کالے رنگ کے لباس میں دیکھ کر شدید جذباتی ہوجاتے تھے اور بالم سے التجا کرتے تھے ”اس رنگ کے کپڑے نہ پہناکر، یہ رنگ تومیری کمزوری ہے“۔ حاسدین کا مگریہ خیال تھاکہ ان کے بالم کے کرتوتوں کی صحیح عکاسی صرف یہی رنگ کرسکتا ہے۔ ”ہمارے دوست کی کمزوری کی اصل وجہ بالم کے کپڑوں کا رنگ نہیں،بالم کا اپنا رنگ ڈھنگ ہے“۔ایک صاحب تو بالم کے شدید خلاف تھے۔بالم دشمنی میں کسی بھی حدتک چلے جاتے تھے۔ اکثراوقات شدیدغصے سے کہہ اُٹھتے تھے ”اونٹ سے کسی نے پوچھا تھا ”اونٹ رے اونٹ بتا تیری کونسی کل سیدھی“ اونٹ نے آدمی کومفصل جواب دیا۔وہ آدمی مگر اونٹوں کی زبان نہ سمجھتا تھا۔ اونٹ کو مجبوراً اس زبان میں سمجھانا پڑا جو پوری دنیا میں سمجھی جاتی ہے۔
ہر دور میں سمجھی جاتی رہی ہے، آج بھی سمجھی جاتی ہے اور قیامت تک سمجھی جاتی رہے گی۔ آدمی سمجھ توگیا مگرخود بے کل ہوگیا۔ دوسروں کوپھر بھی نہ سمجھا سکا۔ اونٹ کی تو پھر بھی کوئی کل سیدھی ہو سکتی ہے مگران کے بالم کی کوئی کل سیدھی نہیں۔خودبالم بھی نہ کل سیدھاتھا،نہ آج سیدھا ہے اورنہ ہی آئندہ اس کے سیدھاہونے کاکوئی اندیشہ ہے“۔ان کے کالم اور بالم کو لے کر جس کے منہ میں جوآتا،کہہ دیتا۔اُن کے بالم کو سارا جہان ظالم لگتاتھا۔سارے جہان کو بھی اُن کا بالم ظالم لگتاتھا۔پڑھنے والوں کو اُن کا سالم کالم ہی ظالم لگتاتھا۔بدخواہوں کاکہنا یہ تھا کہ پورے کالم میں ایک سطر بھی تعریف کے قابل نہیں اورپورے بالم میں ایک خوبی بھی ذکر کے قابل نہیں مگروہ اپنے بکرے،بالم اور کالم کے بارے میں کبھی پریشان نہ ہوئے۔بالم اگرکبھی لوگوں کے رویے کی شکایت کرتاتواسے سمجھاتے کہ لوگ کچھ توکہیں گے بلکہ بہت کچھ کہیں گے کیوں کہ لوگوں کا کام ہے کہنا۔ کبھی کبھی بالم کو سالم انٹرچینج لے جاتے اور پہروں خاموش بیٹھے رہتے۔بالم بات کرنے کی کوشش کرتاتواُس سے بھی چپ ہوجانے کی درخواست کرتے۔ کالم پکڑ کر زیرلب گنگناتے رہتے -:
تو میرا بالم ہے، یہ میرا کالم ہے ……دنیا مگر بڑی ظالم ہے