قدر کرنے کے لیے موت کا انتظار کیوں؟؟؟
22 فروری 1973 کو کراچی میں پیدا ہونے والا ارشد شریف 23 اکتوبر 2022 کو کینیا میں کینیا پولیس کی گولیوں سے اپنے زندگی کی بازی ہار چکا ہے.
شاید ہی کسی کی موت نے پوری قوم کو اس طرح افسردہ کیا ہو جس طرح ارشد شریف کی مرگ ناگہاں نے پورے ملک کو سوگوار کیا ہے.
ارشد شریف انتہائی زیرک، دانشمند، مدبر، فصیح و بلیغ اور دلیر صحافی تھا جو تحقیقاتی صحافت میں اپنی پہچان آپ تھا.
ملک عزیز پاکستان میں دستاویزات کے ساتھ سٹوری کرنا اور اس کو مکمل دلائل کے ساتھ ثابت کرنا ارشد شریف کا خاصا تھا.
2019 میں وہ حسن کارکردگی پر صدارتی ایوارڈ بھی حاصل کرچکے تھے.
پاکستان کے کئی بڑے چینلز کے ساتھ کام کیا اور صحافت میں درجنوں لوگوں کو متعارف کروایا اور کام کرنے کا موقع دیا.
ارشد شریف تحریک انصاف کے حامی اینکر کے طور پر جانے جاتے تھے پانامہ پیپرز کا سارا مواد ارشد شریف نے اکٹھا کیا تھا جس کو عدالتوں میں بھی بطور ثبوت استعمال کیا جاتا رہا.
عمران خان کے خلاف بھی فارن فنڈنگ کا مواد ارشد شریف نے اکٹھا کیا تھا اور سٹوری کی تھی.
ارشد شریف کے والد نیوی کے آفیسر ریٹائرڈ تھے اور چھوٹے بھائی اشرف شریف آرمی میں میجر تھے.
2011 میں بھائی اور باپ کا جنازہ ارشد شریف نے ایک ہی دن اٹھایا تھا اور پچھلے 11 سال سے وہ اپنے سارے خاندان کے واحد کفیل تھے.
چند ماہ پہلے تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہباز گل نے ارشد شریف کے پروگرام "پاور پلے" میں اداروں کے خلاف گفتگو کی جس پر ارشد شریف اور ڈاکٹر شہباز گل پر بغاوت کے مقدمات درج ہوئے اور اے آر وائی پر پابندی عائد کردی گئی.
ڈاکٹر شہباز گل گرفتار ہوئے اور چند ہفتے جیل میں رہنے کے بعد ضمانت پر رہا ہوگئے جبکہ اے آر وائی بھی اپنے چینل سے پابندی ہٹوانے میں کامیاب ہوگیا.
عمران خان صاحب کے بقول انہوں نے ارشد شریف کو پاکستان میں درج مقدمات کا سامنا کرنے کی بجائے باہر منتقل ہوجانے کا مشورہ دیا اور ارشد شریف اسلام آباد سے پشاور چلے گئے وہاں چونکہ عمران خان صاحب کی حکومت تھی انہوں نے راتوں رات پشاور ایئرپورٹ سے ارشد شریف کو دبئی فرار کروا دیا.
ارشد شریف دبئی سے کینیا چلے گئے اور وہاں پولیس کے ہاتھوں انتہائی سفاکانہ انداز میں قتل کردیے گئے.
. ارشد شریف دبئی سے کینیا کیوں گئے؟
کس کے کہنے پر گئے؟
کینیا میں ان کا میزبان کون تھا؟
جس کے ساتھ وہ سفر کر رہے تھے وہ کون تھا؟
پولیس نے اگر گاڑی نہ روکنے پر فائرنگ کی تو نشانہ ڈرائیور کی بجائے ساتھ بیٹھا شخص کیوں تھا؟
پولیس نے گاڑی نہ روکنے پر فائرنگ کی تو گاڑی کے ٹائر بریسٹ کرکے گاڑی روکنے کی بجائے سوار شخص پر 11 گولیاں کیوں چلائیں؟
جب کار سواروں نے پولیس پر فائرنگ نہیں کی تو پولیس نے کار میں سوار شخص کو مارنا ہی کیوں مناسب سمجھا؟
عمران خان صاحب نے انہیں فرار کروایا تھا تو کسی ملک میں ان کے رہنے کا بندوبست کیوں نہیں کیا؟
کینیا جانے کا مشورہ کس نے دیا؟
یہاں سے کون ارشد شریف کو دھمکیاں دے رہا تھا کہ جس کی وجہ سے انہوں نے یہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت جانی؟
یہ وہ سوالات ہیں جو ہر پاکستانی کی زبان پر ہیں...
ہم بطور معاشرہ کسی انسان کو مرنے کے بعد ہی کیوں ہیرو مانتے ہیں؟
جب وہ زندہ ہمارے درمیان موجود ہوتا ہے تو ہم اس کی قدر کیوں نہیں کرتے؟
یہاں مقدمات کسی کے جرم کی پاداش میں بنائے جاتے ہیں یا کسی کو سبق سکھانے اور جھکانے کے لیے مقدمات کا سہارا لیا جاتا ہے؟
ارشد شریف کے پاس عام آدمی سے زیادہ وسائل تھے، تعلقات تھے، شہرت تھی، مقدمات بننے پر یہاں سے نکل جانے کا راستہ موجود تھا اور ارشد شریف تو نکل گیا لیکن جن کے پاس یہ سب کچھ نہیں ہوتا وہ کیا کرتے ہونگے؟
جھوٹے مقدمات میں لوگوں کی زندگیاں اجڑ جاتی ہیں، جیلوں میں پڑے ایڑیاں رگڑتے لوگ مر جاتے ہیں اور اگر بچ نکلیں تو باقی زندگی خود پر لگے الزامات دھونے میں گزر جاتی ہے.
اس کا کون ذمہ دار ہے؟
ارشد شریف کی ماں ہر جانے والے کو روک کر پوچھ رہی ہے کہ مجھے بس اتنا پوچھ دو کہ میرے بیٹے کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے والا کون تھا؟
کیا اس سوال کو جواب کبھی مل پائے گا؟
میرے ملک میں کوئی نہیں ہے جو عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکے اور کینیا سے پوچھے کہ تمھیں ایک مہمان کو مارتے شرم کیوں نا آئی؟
کوئی ہے جو کینیا سے سوال کر سکے کہ ہمارا بندہ مار کے تم اس کو شناختی غلطی قرار دے کر کیسے اپنے کندھے اچکا سکتے ہو؟
کیا کینیا عالمی عدالت کو جواب دہ نہیں ہے؟
ہم آخر کب ایک انسانی جان کو پوری انسانیت سمجھیں گے؟
کب وہ دن آئے گا کہ ہمیں انسانوں کی قدر جاننے کے لیے ان کی موت کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا.
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطۂ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔