نشہ ۔۔۔ زہر قاتل

نشہ ۔۔۔ زہر قاتل
نشہ ۔۔۔ زہر قاتل
سورس: Representational Image

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گھر گھر اندر وین نی   ما ئیں

لٹیا  سب دا چین  نی   ما ئیں

گبھرو لعلاں ورگے پتر

نشیاں دے وچ رہن نی   ما ئیں

انسان اپنی اولاد   کے لیے بہت خواب دیکھتا ہے   مگر وہی اولاد انہیں تنکوں کی طرح بکھیر دیتی ہے۔آج آپکو جگہ جگہ ماؤں کے وہ لعل نظر آئیں گے جو گھر سے تو نکلتے ہیں پڑھ لکھ کر کچھ بننے کے لیے لیکن بن جاتے ہیں نشئی۔   آج کل نشہ عام ہو گیا ہےجو گھروں کے گھر ہی اجاڑ دیتا ہے۔ماؤں کے وہ چراغ جنہوں نے پڑھ لکھ کچھ بن کر اپنے گھر کو روشن کرنا تھا انکے اندھیرے دور کرنے تھے وہی چراغ اپنے ہی گھروں کو آگ لگا دیتے ہیں اور وجہ ہے صرف ایک نشہ۔۔

کئی  برسوں سے ایک موضوع تواتر کے ساتھ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر زیر بحث ہے کہ تعلیمی اداروں میں نشہ آور اشیاء کے استعمال میں خطرناک  حد تک اضافہ ہوا  ہےاور  اسکے اعدادوشمار تشویش ناک صورت حال اختیار کر چکے ہیں۔ لیکن کیا کریں ہماری ازلی بے پرواہی کا، جو ہر مسئلے کو حل کرنے میں آڑے آ جاتی ہے۔ ذمہ داران شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مسئلے کے حل کی یقین دہانی کرواتے ہیں اور بات ختم۔ شاید ہمیں صورت حال کی نزاکت کا اندازہ ہی نہیں ہو رہا۔

 تعلیمی اداروں میں طلباء و طالبات نشہ آور اشیاء کا استعمال کھلے عام کر رہے ہیں۔ یہ سن کر زیادہ حیرت نہیں ہوتی افسوس ہوتا ہے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں ۔  تشویش ناک بات یہ ہے کہ ان بچوں کے  کمسن ذہن اس حقیقت کو جان کر سخت انتشار کا شکارہو جاتے ہیں ۔

اقوام متحدہ کے انسداد منشیات کے ادارہ یو این او ڈی سی کے مطابق سبسٹانس یوز ڈس آرڈرز  ایسے پیچیدہ امراض ہیں جو منشیات کے حد سے زائد استعمال سے جنم لیتے ہیں اور پاکستان، جہاں 64 فیصد نوجوان 29 سال سے کم عمر کے ہیں اور 30 فیصد 15 سے 29 سال کے درمیان ہیں، میں نوجوان تیزی سے ان امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔پاکستان میں سالانہ 44 ٹن ہیروئن کی کھپت ہے۔پاکستان کے پڑوسی ملک افغانستان میں 2017ء میں 9 ہزار میٹرک ٹن افیون کی پیداوار ہوئی اور اسے ہمسایہ ممالک میں سمگل کیا گیا۔

اب بات کر لیتے ہیں کرسٹل میتھ یا آئس کی جو کہ بہت تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ کرسٹل میتھ انتہائی نشہ آور ہوتا ہے۔ عام طور پر ’آئس‘ کہلانے والا یہ نشہ امیر طلبا اور نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ اس نشے کا علاج پیچیدہ ہے اور بہت سے خاندان اس مسئلے کو خفیہ رکھتے ہیں۔

اگربچہ کسی طرح کے نشے کا عادی ہے تو اس کا اندازہ اس کی حرکات و سکنات سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس کی چند علامات میں آنکھوں کا سرخ رہنا، وزن کا بہت زیادہ بڑھنا یا گر جانا، بھوک کا نہ لگنا، ذہنی طور پر سن اور رویے میں شدید بدلاؤ، زیادہ پیسوں کا مطالبہ کرنا، زبان میں ٹھہراؤاور کاموں کو سرانجام دینے میں دشواری  اور خاص طور پر آئس کا نشہ کرنے والوں میں چڑچڑا پن بہت زیادہ ہو جاتا ہے

کرسٹل نشہ کرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے لیکن بہت سے لوگ اس لت کو خفیہ رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اصل تعداد معلوم کرنا مشکل ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بہت سے خاندان بدنامی سے ڈرتے ہیں اور اس کو خفیہ رکھتے ہیں۔ 

''پہلے پہل تو ایک عجیب و غریب احساس پیدا ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، اس سے انسان چڑچڑا اور بے چین ہو جاتا ہے۔ اس سے ایک تو زندگی برباد ہو جاتی ہے، دوسرا یہ خاندان کے لیے بھی باعث بدنامی ہوتا ہے۔معاشرہ اب اس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ اس سب کی وجوہات کیا ہیں اور انسانی عقل یہیں پر آ کر دنگ رہ جاتی ہے۔

کیونکہ یہ مسئلہ ایک شہر ایک گلی، ایک طبقے کا نہیں بلکہ ہر گھر ہر ملک کا مسئلہ بن چکا ہے۔ نوجوان نسل کچھ شوقیہ طور پر نشے کے عادی بنتے ہیں کچھ غلط صحبت سےاور کچھ فیشن کے طور پر ۔ صرف نوجوان لڑکے نہیں لڑکیاں بھی اس دلدل میں دھنستی چلی جاتی ہیں ایسا کیوں ہے؟ منشیات کے عادی افراد کے علاج کےمرکز بھی بنائے گے ، بہت سے غیر سرکاری ادارے بھی  اس پر کام کر رہے ہیں لیکن جس طرح ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے یہ مرکز بھی کم ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ اس کے لیے سخت اقدامات کرے تا کہ آنے والی نسلیں اس لعنت سے محفوظ رہ سکیں    اس کے علاوہ  والدین، جنہیں اپنے بچوں کی تربیت کرنا چاہیے وہ اپنے آپ میں مگن ہوتے ہیں بعض اوقات مائیں بھی بچوں کی اس عادت پر پردہ ڈالتی ہیں کہ کہیں لوگ ان سے نفرت نہ کریں، باپ سختی نہ کرے۔ نشے کا عادی ہونا ایک بیماری ہے، جس کا علاج کیا جا سکتا ہے لیکن اگر اس موضوع پر بات ہی نہیں ہو گی تو ایک دن یہ عادت جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔

 جب ایک انسان کے لیے کوئی برائی برائی ہی نہ رہے تو آپ اسے روک نہیں سکتے اس لیے یہاں والدین کو ہی نظر رکھنا ہو گی۔ جبکہ عموماً والدین دنیا کے وہ آخری فرد ہوتے ہیں، جنہیں یہ بات پتہ چلتی ہے کہ بچے نشے کا شکار ہو چکے ہیں۔

نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

مزید :

بلاگ -