ٹرانسجینڈر ایکٹ کے فوائد و نقصانات
2018 میں مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں پاکستان پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے باہمی اتفاق سے بننے والے اس ایکٹ کا خوب چرچا ہے.صف بندی ہوچکی ہے. ایک طبقہ اس کو اسلام سے منافی، فحش، ہم جنس پرستی کو فروغ دینے والا، آئین پاکستان کی بنیادی رو کے خلاف، قرآن و سنت سے متضاد اور ہمارے معاشرتی اقدار کی توہین قرار دے رہا ہے.
دوسرا طبقہ اس کو خواجہ سراؤں کے بنیادی حقوق، ان کے دیرینہ مسائل کا حل، ان کی جدوجہد کا ثمر، ان کے معاشرے میں ایک انسان ہونے کی حیثیت کو تسلیم کرنا، ان کو جائیداد، جنس، نوکری، کاروبار اور دیگر حقوق کی ضمانت قرار دے رہا ہے.
حمایت و مخالفت میں اٹھنے والے آوازیں عموما اپنے اپنے طبقے کی صف بندی کی وجہ سے اٹھ رہی ہیں.
بہت کم لوگ اس کو اس کا بنیادی طور پر جائزہ لینے کے بعد اس پر کوئی رائے قائم کررہے ہیں.ٹرانسجینڈر ایکٹ نا تو سارے کا سارا برا ہے جس طرح اس کے خلاف محاذ آرائی جاری ہے اور نا ہی یہ خواجہ سراؤں کے حقوق تک محدود ہے.
اس میں خواجہ سراؤں کے بنیادی حقوق حق سیاست، حق روزگار، حق تجارت، حق جنس، حق خاندان،حق جائیداد، حق ثقافت، حق ملازمت اور دیگر حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے جو کہ نہایت خوش آئند بات ہے.اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ خواجہ سراء ہمارے معاشرے کا ایک مظلوم طبقہ ہیں جنہیں ہمیشہ دھتکارا جاتا ہے اور اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ بہت سارے خواجہ سراء جسمانی طور پر مکمل مرد ہونے کے باوجود اپنے نفسیاتی امراض کی وجہ سے خود کو عورت سمجھنے لگ جاتے ہیں اور عورتوں جیسی وضع قطع، چال ڈھال، لباس اور طرز زندگی اختیار کرلیتے ہیں.
ناچ گانوں کا کاروبار کرتے ہیں اور معاشرے کے دیگر کئی افراد کی طرح ان میں سے بھی کئی لوگ جگہ جگہ جسم فروشی جیسے قبیح فعل میں ملوث ہوتے ہیں.نا تو ان کی وجہ سے تمام خواجہ سراؤں کے حقوق سلب کیے جاسکتے ہیں اور نا ہی ایسے لوگوں کے دو نمبر دھندوں کو خواجہ سراؤں کے حقوق کی آڑ میں تحفظ دیا جاسکتا ہے.
ہم بحیثیت قوم اعتدال سے انتہائی ناواقف ہیں ہم ہر معاملے میں افراط و تفریط کا شکار ہوجاتے ہیں.حمایت برائے حمایت اور مخالفت برائے مخالفت پسندیدہ وصف ہے.جہاں ٹرانسجینڈر ایکٹ کی مخالفت میں دلائل بلند ہورہے ہیں وہیں اس کے حق میں بھی علم بلند ہیں.
یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اس کی مخالفت صرف اس لیے کی جارہی ہے کہ یہ خواجہ سراؤں کے حقوق کا ضامن ہے.ان کا موقف یہ ہے کہ اس بل میں تو کہیں نہیں لکھا کہ یہ فحاشی کو فروغ دینے کے لیے ہے اور نا یہ لکھا ہے کہ یہ مرد سے مرد اور عورت سے عورت کی شادی کی اجازت دیتا ہے اور نا اس میں شادی کا لکھا ہے تو پھر کیونکر اس کی مخالفت کی جارہی ہے؟
اس بل کا اگر جائزہ لیں تو یہ واقعی اسلام کے منافی نہیں، اسلام نے واضح طور پر اصول دیا ہے کہ جو مردوں کے زیادہ قریب ہوں اس کو مردوں جیسے اور جو عورتوں کے زیادہ قریب ہوں انہیں عورتوں جیسے حقوق دیے جائیں.انہیں وہ مکمل حقوق دیے ہیں جو دیگر انسانوں کے لیے ہیں تو پھر ان کو ایسے حقوق دینے کی کوئی کیونکر مخالفت کرسکتا ہے؟
خواجہ سراء کمیونٹی کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس بل میں موجود ان کے تحفظ اور حقوق سے کوئی مسئلہ نہیں ہے.مسئلہ جنس کی تبدیلی کے طریقہ کار پر ہے جس میں اتنے ابہام ہیں کہ خواجہ سراؤں کی آڑ میں جسم فروش، ہم جنس پرست اور جرائم پیشہ طبقے نے اس کا فائدہ اٹھانا ہے.کسی کے ظاہری عورتوں والے حلیے سے اس کو عورت اور کسی کے ظاہری مردوں والے حلیے سے اس کو مرد تسلیم کرنا پڑے گا، باوجود اس کے کہ ان کہ جسمانی حالت اس سے بالکل مختلف ہی کیوں نا ہو.
کیا اس سے انکار ممکن ہے کہ یہاں خواجہ سراؤں کے حلیے میں مکمل مرد پھرتے ہیں جن کے بچے بھی ہوتے ہیں وہ شادی کے قابل بھی ہوتے ہیں لیکن وہ اپنی جنسی تسکین اور پڑنے والی غلط عادت کو پورا کرنے کے لیے عورت بنے پھرتے ہیں.کیا ایسے افراد کو ہمارا نادرا، معاشرہ اور ریاست اس بنیاد پر عورت تسلیم کر لے ، یہ کہہ رہے ہیں؟؟؟
جنس کی تبدیلی کے طریقہ کار کو موثر اور محفوظ بنانے کے لیے میڈیکل بورڈ کا بنایا جانا غلط کیسے ہے؟اس کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو کس بات کا خوف ہے؟ یہی خوف تو نہیں کہ وہ جسمانی طور پر اپنے ظاہری حلیے سے مختلف ہیں اور حقوق وہ اپنی جنس مخالف کا لینا چاہتے ہیں؟ اس ایکٹ کا معاملہ عدالت میں بھی ہے جس میں گزشتہ حکومت کی وفاقی وزارت انسانی حقوق نے جواب داخل کرواتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ہم نے یہ بل اسلامی نظریاتی کونسل سے مشاورت کرکے بنایا ہے جبکہ اسلامی نظریاتی کونسل نے واضح طور پر اس سے انکار کردیا اور اس بل کی جنس تبدیلی کے طریقہ کار کی کھل کر مخالفت کی.
وزارت نے یہ بھی کہا کہ یہ بل حکومت نے یوگیا کارٹا پرنسپلز (Yogyakarta Principles) کے اصولوں کے تحت بنایا ہے. یاد رہے یوگیا کارٹا پرنسپلز میں ہم جنس پرستی کو مکمل قانونی حمایت حاصل ہے.سوال یہ ہے کہ ہم نے قانون سازی اپنے معاشرے، مذہب اور قوم کو سامنے رکھ کر کرنی ہے یا یوگیا کارٹا پرنسپلز کو؟۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطۂ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔