سیاسی جماعتیں اور عوام
اقتدار کے مزے لوٹنے سے فراغت کے فورا بعد اتحادی آپس میں دست و گریبان ہوکر اب ناکامیوں کا ملبہ ایک دوسرے پر گرانے میں مصروف ہیں.مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے درمیان جاری یہ لفظی گولہ باری عوام کو بیوقوف بنانے کی چال ہے.عوام کی تباہی کا ذمہ دار ایک دوسرے کو قرار دے کر اپنا دامن صاف پیش کیا جارہا ہے.ہماری دونوں بڑی پارٹیاں نہایت ہی آزمودہ،فرسودہ اور بیہودہ طریقے سے پرانا چورن نئی پیکنگ میں بیچنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جو اب انتہائی مشکل نظر آرہا ہے.
پیپلز پارٹی کے ساتھ جو ہاتھ ہوا ہے اس کا ہر کسی کو واضح طور پر ادراک ہے. بلاول بھٹو کے وزیراعظم بننے کے تمام راستے صاف کرکے زرداری صاحب نے پی ڈی ایم حکومت بنانے کے لیے ماحول بنایا تھا اور پھر اس صورتحال میں پکی پکائی دیگ پر شہباز شریف کو بٹھایا تھا تاکہ اگلی باری بلاول کو آسانی سے دلوائی جاسکے. 9 مئی سے پہلے تک بلاول کے لیے حالات سازگار تھے اور اگلے مرحلے میں پی ٹی آئی سے ٹوٹ کر آنے والے لوگوں کا رخ ذرداری صاحب کا آستانہ ہی ہونا تھا لیکن 9 مئی نے جہاں عمران خان پر تمام دروازے بند کرکے تالے لگوا دیے وہیں بلاول جیسے جذباتی نوجوان کا تجربہ کرنے کے فیصلے کو ازسرنو دیکھنے پر مجبور کردیا کیونکہ اس کا نتیجہ بھی اس سے منفرد نا نکلنے کے واضح امکانات پیدا ہوگئے. بلاول کے اندر ہیرو بننے کا شوق،اپنے باپ سے متعدد مواقع پر اختلاف کرنے اور بعض معاملات میں مریم نواز جیسی جارحانہ سوچ رکھنے پر بلاول جیسا خطرہ دوبارہ مول نا لینے کا فیصلہ ہوا تو پی پی نے زبردست چیخ و پکار شروع کردی.
بلاول متعدد بار اپنے باپ سے بھی کھلم کھلا اختلاف کرتے پائے گئے اور ابھی کل کے ایک اجلاس میں جب آصف علی زرداری نے خورشید شاہ پر جملہ کسا کہ آپ نے شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر بنایا تھا جس پر بلاول نے اپنے باپ کو فورا یاد کروایا کہ آپ نے بھی تو انہی کو وزیراعظم بنوایا تھا.
بلاول جیسے جزباتی نوجوان کو لانا عمران خان جیسا دوسرا تجربہ کرنے کے مترادف ہوگا.
دوسری طرف مسلم لیگ ن نے ہمیشہ کی طرح اپنے آخری ہتھیار کو بھرپور طریقے سے استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے. میاں نواز شریف کو پاکستان واپس بلاکر کر اپنے دامن پر لگے تمام داغ دھونے اور دوبارہ سے عوامی سطح پر مظبوط ہونے کے جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنا شروع کردیے ہیں. مسلم لیگ ن یہ معاملہ جتنا سادہ سمجھ رہی ہے حقائق اس کے اتنے ہی برعکس ہیں. یہ نا تو مشرف کا وہ دور ہے کہ میاں نواز شریف کی مقبولیت کا طوطی بول رہا ہے اور نا اب میاں نواز شریف کے پاس اخلاقی طور پر عوام کو پیچھے لگانے کے لیے کوئی نیا نعرہ بچا ہے. اب تو بس عوام کے تند و تیز اور تلخ سوالات ہیں جن کا سامنا واپس آکر میاں نواز شریف صاحب بھی نا کر پائیں گے.
2018 کے بعد بننے والی پی ٹی آئی حکومت کے خلاف جب نواز شریف نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا رونا رویا تھا تو عوام نے اس پر ہر ممکن حد تک مسلم لیگ ن کا ساتھ دیا. نواز شریف نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا تو لوگوں نے اس پر بھرپور پزیرائی بخشی.
لندن میں بستر مرگ پر اپنی بیوی کو چھوڑ کر واپس آکر جیل گئے اور سزا کاٹنے کا فیصلہ کیا تو عوام نے اس کو بہادری اور ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر بدلا ہوا نواز شریف قرار دیا.
بیماری کی وجہ سے بیرون ملک روانہ ہوئے تو اکثریت یہی سمجھتی رہی کہ جو شخص اپنی بیوی کو بستر مرگ پر چھوڑ کر پاکستان میں جیل جانے کے لیے واپس آگیا تھا تو وہ علاج کے بعد صحتیاب ہوتے ہی پہلی ہی فرصت میں دوبارہ پلٹ آئے گا کیونکہ وہ اب پہلے جیسا نواز شریف نہیں رہا.
پی ڈی ایم بننے کے بعد جب جلسے شروع کیے تو مسلم لیگ ن کا بیانیہ زبان زد عام تھا. درجنوں ضمنی الیکشن بھرپور ریاستی مشنری کے استعمال کے باوجود مسلم لیگ ن نے واضح اکثریت کے ساتھ جیتے.تمام تر اثر و رسوخ اور منظم کاروائیوں کے باوجود ڈسکہ کا الیکشن مسلم لیگ ن سے نا چرایا جاسکا اور اس کی چوری کا بھانڈہ بیچ چوراہے پھوٹ گیا. سول سپرمیسی کی تحریک کے لیے نواز شریف نے لندن سے عوام سے مدد طلب کی تو لوگوں نے بھرپور ساتھ دیا.
پی ڈی ایم نے تاریخ ساز جلسے کیے اور نواز شریف ان جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے یہی تاثر دیتے دکھائی دیے کہ انہوں نے اقتدار بہت دیکھ لیا ہے اب وہ اس ملک کے مرض کی جڑ سے تشخیص چاہتے ہیں اور اب وہ اقتدار کے لالچ میں قطعا کوئی سودے بازی نہیں کریں گے.انہوں نے پوری شدت سے 2018 کے الیکشن چرانے اور ملک کو اس نہج تک پہنچانے کا کچھ لوگوں کو ذمہ دار قرار دیا اور عمران خان کو اس سازش کے مہرے سے بڑھ کر کچھ نا سمجھا.
ان حالات میں عمران خان عوامی سطح پر انتہائی کمزور ہوچکے تھے اور دہائیوں سے ساتھ چلنے والے نوجوان بھی عمران خان سے شدید مایوس ہوکر عمران خان کو کوستے نظر آنے لگے. نواز شریف یہ تاثر مظبوط کرنے میں کامیاب ہوچکے تھے کہ وہ تاریخ سے سبق حاصل کرچکے ہیں اور وہ اب کبھی وہ غلطیاں نہیں دھرائیں گے جن کو دھرا کر عمران خان اقتدار تک پہنچا تھا،لیکن "عادت انسان کا موت تک ساتھ نہیں چھوڑتی" میاں صاحب نے اسی کا ثبوت دیا اور جنہیں بھرے جلسوں میں 2018 کے الیکشن کو چرانے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے آئین و قانون شکن قرار دیتے تھے جب انہیں اپنے دور کو طوالت بخشنے کے لیے ان کے ذرا سے سہارے کی ضرورت پڑی تو ان کی پارٹی ننگے پاؤں بھاگ کر خدمت گاری کے لیے پہنچ گئی جو کل تک پی ٹی آئی کو تابعداری کے طعنے دیتی تھے وہ خدمت گاری میں مصروف ہوگئے.
جن پر مسلم لیگ ن بھرے جلسوں میں فرد جرم تحریر کرتی تھی انہوں نے جب نوکری کی پیشکش کی تو انہوں نے عمران خان سے بھی کم تنخواہ پر نوکری کرنے کے لیے بے چینی دکھائی.مہنگائی،بیروزگاری اور غربت کے حد درجہ اضافے کا جواز بنا کر اقتدار میں آئے اور مہنگائی کو 15 فیصد سے 30 فیصد،ڈالر کو 150روپے سے 300روپے،پیٹرول کو 150 روپے سے 300 روپے اور بجلی کی قیمتوں میں 60 فیصد اضافہ کرکے عوام کو جس اذیت میں مبتلاء کیا ہے اور جس طرح عوام کو بے یار و مددگار چھوڑ گئے ہیں عوام اس کو کیسے بھول سکتے ہیں؟
عمران خان نے ساڑھے تین سالہ دور میں قرض لینے کا پچھلے پچھتر سال کا ریکارڈ توڑا لیکن شہباز حکومت نے اگلے سولہ ماہ میں ان سے بھی زیادہ قرض لے کر اڑتا تیر بغل میں لیا اور عمران خان کی مقبولیت کی راہیں اپنے ہاتھوں سے ہموار کیں.ان کو گرانے کے بعد مظلوم بننے اور ان سے ناامید ہوئے نوجوان کو دوبارہ عمران خان کی طرف رجوع کا جواز دے دیا.
پی ٹی آئی کو 72 صدارتی آرڈیننس جاری کرنے پر طعنے مارنے والوں نے آخری ایک ہفتے میں بغیر ضروری کاروائی کیے 73 بلز پاس کرکے پاکستانی قانون سازی کے عمل کو پوری دنیا میں مذاق بنوایا اور بغیر اپوزیشن کے اسمبلی چلاکر اسمبلی کو بے توقیر کرنے کی کوی کسر نا چھوڑی.
طاقتور حلقوں کے ساتھ اچھے تعلقات کو ایک پیج قرار دینے والے عمران خان کو اپنے جلسوں میں "بندہ تابعدار" قرار دینے والی مریم نواز کے چچا جان پل بنانے پر بھی ان کے شکریہ کے قصیدے پڑھتے دکھائی دیے.
گذشتہ سولہ ماہ میں اقتدار کے لالچ نے مسلم لیگ ن کو عوام میں محرم سے مجرم بنا دیا ہے.اقتدار لے کر اپنی پارٹی کے ابن الوقت رہنماؤں کو تو خوش کرلیا ہے لیکن عوام کی زندگی کو عذاب بنانے پر عوام بھی آپ کا شدت سے انتظار کررہے ہیں.غربت،بیروزگاری،مہنگائی اور تاریخ کے مشکل ترین حالات کی ستم ظریفی سے روتی بلکتی اور چلاتی عوام سیاستدانوں سے شدید مایوس اور دلوں میں نفرت جمائے نظر آرہے ہیں.
۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔