آخر عالمی تھانیدار کیا چاہتا ہے؟
پاکستان تحریک انصاف نے اب بھری عدالت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اعتراض کر دیا،سینئر بیرسٹر اور جماعت کے متوقع سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کے دوران کیا،بنچ کی قیادت خود چیف جسٹس کر رہے تھے جنہوں نے یہ اعتراض مسترد کر دیا،قارئین! یہ حوالہ محض اِس لئے دیا کہ ملک میں ہونے والی سیاسی اور سماجی تقسیم کے جو اثرات عدلیہ پر مرتب ہوئے ہیں آج ان کا ذکر پورے ملک میں ہو رہا ہے۔ میڈیا کے لئے یہ نیا ایشو ہے، نہ صرف ٹاک شوز اسی موضوع پر ہیں،بلکہ سوال جواب بھی اسی حوالے سے ہوتے ہیں،میں نے بھی فاضل آٹھ جج حضرات کا مختصر اور اب تفصیلی فیصلہ پڑھا اور سنا،اس پر معروف وکلاء کے خیالات سے مستفید ہوا،میں اپنی ذاتی رائے رکھتا ہوں، تاہم فی الحال اس مسئلے پر دخل اندازی سے گریز کر رہا ہوں اور دُعا کرتا ہوں کہ جوش پر ہوش غالب آئے،میں نے نصف صدی سے بھی ڈیڑھ دہائی کی صحافت میں طویل عرصہ کورٹس رپورٹنگ کے دوران بہت کیس رپورٹ کئے، بھگتے اور سنے، تاہم جو آج ہوا یا ہو رہا ہے ایسا کبھی دیکھا نہ سنا، میں اس پر پھر کبھی بات کروں گا۔فی الحال میرے سامنے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس اور اسرائیل کی کھلی جارحیت ہے،جسے روکا نہیں جا رہا اور اسرائیل (صیہونی قیادت) اپنے دیرینہ خواب کے مطابق بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور اس نے لڑائی کا دائرہ اور بڑھا دیا۔ غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنانے اور لاکھوں فلسطینیوں سے ان کا وطن چھین لینے کے بعد اب باقی ماندہ حصہ بھی ہتھیانا چاہتا ہے،اس نے فلسطینیوں کی نسل کشی شروع کر رکھی ہے۔ اسلامی دنیا،اسی طرح اس ظلم کی مذمت کرتی چلی جا رہی ہے جیسے جنوبی افریقہ جیسے کئی دوسرے غیر مسلم ممالک بھی کر چکے ہیں،اور اب جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھی واویلا ہی کیا جا رہا ہے جبکہ اسرائیل نے حزب اللہ کے بہانے لبنان پر بھی آتش فشانی کا سلسلہ جاری کر دیا ہے۔
میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے پہلے روز کی کارروائی الجزیرہ سے براہِ راست دیکھنا اور سنتا رہا ہوں،امریکی صدر جوبائیڈن نے افتتاحی خطاب کیا اور یہ خطاب بھی بھرپور طور پر ڈپلومیسی کا پورا پورا اظہار تھا۔امریکی صدر نے ایک مرتبہ پھر دنیا بھر سے احتجاج کرنے والے عوام کی اشک شوئی مناسب جانی اور فرمایا، اب وقت آ گیا ہے کہ غزہ میں جنگ ہو جائے، پھر کہا یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے، سب مل کر بیٹھیں اور دو ریاستی حل کے مطابق جنگ بندی کرائیں۔انہوں نے اسرائیلی مظالم کا ذکر کرنے سے تو گریز کیا لیکن 7ستمبر کا ذکر ضرور کیا کہ 7ستمبر کو بھولا نہیں جا سکتا، دوسری طرف اردن کے شاہ عبداللہ اور ترکی کے صدر اردوان نے بھرپور طریقے سے اسرائیلی مظالم کا ذکر کیا اور مذمت کی،لیکن اپنی طرف سے کسی عمل کا ذکر نہ کیا البتہ جنوبی افریقہ کے صدر نے کھل کر بات کی اور کہا کہ اقوام متحدہ پر پانچ ممالک کی اجارہ داری ہے اور اس کو ختم کئے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ طیب اردوان اور شاہ عبداللہ نے بھی یہ موقف دہرایا اور مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی تشکیل نو کی جائے۔اس سے پہلے جوبائیڈن بھی اس بارے میں اظہارِ خیال کر گئے،لیکن وہ صرف سلامتی کونسل میں توسیع چاہتے ہیں ان کا مطلب و مقصد یہ ہے کہ مستقل اراکین کی تعداد میں اضافہ کیا جائے،ان کی نیت پر شک کی گنجائش موجود ہے کہ بھارت کے ظالم مودی کی بھی بڑی خواہش یہی ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی مستقل نشست حاصل کر سکے،تاحال وہ ناکام چلے آ رہے ہیں،لیکن جوبائیڈن گو مودی کا نام بھول گئے (اس بھلکڑ پن کے باعث وہ دوسری باری صدارتی الیکشن سے باہر ہیں،جو امریکی روایت کے خلاف ہے) لیکن ان کے ارادے اسی کے حق میں ہیں،جن کو خصوصی طور پر چین اور پاکستان کی کاوش ناکام بناتی چلی آ رہی ہے۔
گذارش یہ ہے کہ ہمارے درد مند ادیب اور کہانی نویس اسرائیل کے حوالے سے بہت کچھ لکھتے چلے آ رہے ہیں گو ان کے نزدیک بھی اسرائیل فریبی، دھوکے باز اور جارح ہے،لیکن ہر کوئی یہ بات تسلیم کرتا ہے کہ اسرائیل کی موساد، ٹیکنالوجی اور اسلحہ میں برتری ثابت ہے اور یہ سب امریکہ کی بدولت ہے اور حالیہ غزہ اور اب لبنان پر حملوں کے بعد تو مزید تسلیم کرنا پڑے گا کہ جدید اسلحہ میں بھی اس کی تیاری مکمل ہے کہ لبنان پر2500 طیاروں سے حملے کئے گئے ہیں۔اب اگر بے حسی کی بات کریں تو تاحال مسلم ممالک کے سوا غیر مسلم ممالک خصوصاً یورپی یونین اور نیٹو والوں میں سے کسی نے ان حملوں کی مذمت بھی نہیں کی، اُلٹا خود اپنے ان انسان دوست عوام کی بھرپور حوصلہ شکنی شروع کر دی جو اس ظلم پر احتجاج کرتے ہیں۔جرمنی میں چھوٹے بچوں تک کو گرفتار کر لیا گیا اور مظاہرین کو منتشر کر دیا گیا ہے۔
میں ایک بار پھر یہ سب دُکھی دِل سے لکھ رہا ہوں اور ایمان ہے کہ یہ سب ظلم و ستم ہم مسلمانوں کی بداعمالی اور اللہ اور رسولؐ کے بتائے راستوں سے بھٹکنے کا نتیجہ ہے،اگر ایسا نہ ہو تو ہم مسلمانوں کے وہ ممالک جو امیر ترین ہیں اور یورپ و امریکہ ان کے سرمائے کی بدولت ترقی کر رہا اور مسلمان ممالک ہی کے خلاف ہے کہ امریکہ نے مصر، لیبیا، شام، عراق اور یمن کو برباد کر دیا اور جھوٹ بول کر انسانیت کے نام پر یہ سب کیا۔پہلے بھی اسرائیل کو مضبوط بنانے، اس کی توسیع میں تعاون کیا اور اب بھی برملا اعلان کرتا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ ہے،حتیٰ کہ امریکہ کے حالیہ ہونے والے صدارتی انتخابات میں دونوں جماعتوں ری پبلکن اور ڈیمو کریٹ کے صدارتی امیدوار ٹرمپ اور کمیلا ہیرس ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اسرائیل کی حفاظت کا دعویٰ کر رہے ہیں،بلکہ اس حوالے سے اتنا آگے بڑھ چکے ہیں کہ یہ ثابت کرنے پر زور لگا رہے ہیں کہ وہی اسرائیل کے بڑے حمایتی ہیں اب اگر اس صورتحال پر غور کریں تو صاف واضح ہوتا ہے کہ امریکہ عالمی تھانیدار کی حیثیت سے چاہتا ہے کہ سب اس کی ڈکٹیشن پر عمل کریں اور اسرائیل کو نہ صرف مالی امداد دی جا رہی ہے بلکہ ہر نوعیت کا تباہ کن اسلحہ بھی مہیا کیا جا رہا ہے۔امریکہ کی دو رخی ملاحظہ فرمائیں کہ عراق پر حملہ خطرناک ہتھیاروں کا الزام لگا کر کیا اور خود نہ صرف تیار کرتا،بلکہ اسرائیل کو بھی دے رہا ہے، یہ جو اسرائیلی دفاعی نظام ہے جو میزائلوں کو فضاء میں ہی روک کر تباہ کر لیتا ہے یہ بھی امریکی ہے جو سوویت یونین(اب صرف روس) کے مقابلے میں تیار کیا گیا۔
اِس وقت فلسطینی عوام دنیا کی مظلوم ترین قوم ہیں،جو ایک سال کے بعد بھی ظلم برداشت کرنے پر مجبور ہیں کہ ان کے پاس تو اب کوئی جاء پناہ بھی نہیں۔دِل سے ان کے لئے دُعا نکلتی ہے،جو اس شدید بمباری اور نسل کشی کے اقدامات کے باوجود زندہ رہنے پر مجبور ہیں۔بلاشبہ ان مجاہدین کی بھی تعریف دِل سے ہوتی ہے جو کسی بھی نام سے ظلم کے خلاف نبرد آزما ہیں۔
بزرگوں سے سیکھے اور پڑھے علم کے مطابق دنیا اب بتدریج قیامت کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس سے قبل دجالوں کی آمد اور بڑے دجال کا ظہور بھی لازم ہے اس کے بعد ہی حضرت امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ہونا ہے،لیکن دیکھنا تو یہ ہے کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں،ہم کیسے غافل لوگ ہیں کہ ساڑھے چودہ سو سال سے ہمیں آگاہ کیا جا رہا ہے اور فرامین کے مطابق سب کچھ ہو بھی رہا ہے اور ہم پھر بھی راہِ راست پر نہیں آ رہے۔اِس وقت جو بھی عملی مدد ممکن ہے وہ ایران کی طرف سے ہے اور باقی سب مذمت میں مصروف ہیں،حالانکہ سب متفق اور متحد ہو کر جنگی نہیں تو معاشی اقدامات سے ظالم کو جھکنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔کل ہمارے وزیراعظم محمد شہباز شریف بھی خطاب فرمائیں گے اور درد بھرے دِل کے ساتھ غزہ اور لبنان کا ذکر کریں گے۔ کشمیر کا بھی ذکر تو لازم ہو گا،لیکن میری دعا ہے کہ وہ حال ہی میں کی جانے والی گفتگو کے مطابق دو ریاستی فارمولے کا ذکر نہیں کریں گے، اسرائیل قبضہ گروپ ہے ہم اِسے تسلیم ہی نہیں کرتے۔