کامیابی ترا مقدر ہو! 

   کامیابی ترا مقدر ہو! 
   کامیابی ترا مقدر ہو! 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  پنجاب میں حکومت سازی کا آغاز ہوگیا ہے تمام نومنتخب اراکین اسمبلی نے حلف اٹھا لیا۔ یہ اجلاس سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کی زیرصدارت ہوا۔ نامزد وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سمیت 313 سے زائد اراکین اسمبلی نے حلف اُٹھایا۔ مریم نواز باوقار طریقے سے حلف برداری کی تقریب میں شامل ہوئیں وہ پنجاب کی منتخب شدہ پہلی خاتون وزیراعلیٰ ہوں گی۔ اُمید یہ کی جاتی ہے کہ مریم نواز وزیراعلیٰ بننے کے بعد پُراعتماد ہوکر صوبہ کو چلائیں گی۔ یہ وہ اعتماد ہے جو اُن کے والد محترم نوازشریف سے اُنہیں ورثہ میں ملا ہے۔ اس وقت اُن کے لیے سب سے بڑا چیلنج معاشی بدحالی ہے۔ مہنگائی عوام کا اوّلین مسئلہ ہے جس کا تدارک کرنا ضروری ہے۔ مریم نواز کووزیراعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بہت قابل اور تجربہ کار ایڈوائزرز کی ضرورت ہے جو انہیں عوام دوست مشورے دیں جن سے کم از کم غریب اور سفیدپوش لوگوں کے لیے زندگی آسان ہوجائے۔ پنجاب کے عوام کی نظریں اُن پر لگی ہیں۔ وہ امید کرتے ہیں کہ اُن کو بجلی، گیس اور پانی کے بھاری بلوں سے نجات مل سکے گی جو ایک عرصے سے غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ امید ہے کہ ان کے وزراء عمران خان کے بنائے وزراء کی طرح نہیں ہوں گے جو کہتے تھے کہ غریب روٹی کھانا کم کردے ایک روٹی کھاتے ہیں تو آدھی روٹی کھالیں۔ مریم نواز کو ایک مضبوط اپوزیشن کا بھی سامنا کرنا ہوگا جو آسان کام نہیں کیونکہ مریم نواز اس سے پہلے حکومت سازی کا تجربہ نہیں رکھتیں، یہ بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ میاں نوازشریف نے وزیراعظم کی سیٹ چھوڑ کر اپنی بیٹی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنادیا ہے۔ اللہ کرے یہ اُن کا عقلمندانہ فیصلہ ثابت ہو۔ میاں نوازشریف سب کی سنتے ہیں اور خاموشی سے سوچ سمجھ کر دوراندیشی سے فیصلہ کرلیتے ہیں۔ لگتا تو یہی ہے کہ نوازشریف کا پاکستان میں آنے کا فیصلہ اپنے لیے نہیں تھا۔ میاں خاندان کے تمام افراد کی کامیابی پنجاب سے منسلک رہی ہے۔ میاں نوازشریف سب سے پہلے وزیرخزانہ رہے پھر اپنی کارکردگی کی وجہ سے عوام میں بے حد مقبول ہوگئے اور پاکستان کے وزیراعظم بنے اُن کی بیٹی مریم نواز بھی اُنہی کے نقش قدم پر چل رہی ہیں۔ مریم نواز کو اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد انتقامی ایجنڈے پر کام نہیں کرنا چاہیے یہ اُن کا بڑا پن ہوگا۔ اسلام کے تقاضے بھی یہی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعلیم پر اس طرح عمل کریں کہ اپنے قول و فعل میں انسانیت کے لیے نمونہ ثابت ہوں اور لوگوں کی راہبری اور ہدایت کا فرض ادا کریں۔ 

امید ہے کہ مریم نواز سب کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں گی اپنے ملک پاکستان کی خاطر جو اس وقت نہایت مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔ ان بگڑے حالات سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ وہ سب سیاستدانوں کو اپنے ساتھ لے کر چلیں۔ ملک کی خوشحالی اور ترقی کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں دوسری سیاسی جماعتوں پر بھی لازم ہے کہ وہ حکومت کا ساتھ دیں اور خوشدلی سے حکومت کی طرف اپنا ہاتھ بڑھائیں۔ زندگی میں بلامشروط اور بنا کسی شرط کے پیار کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کو معاف کردینا چاہیے یہاں تک کہ جو آپ کے نزدیک معافی کے لائق نہ ہو۔ یہی اعمال و افعال ہی آپ کی شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ 

ہمارے بہت سے تجزیہ نگاروں کو ابھی بھی یہ یقین نہیں کہ مریم نواز وزیراعلیٰ کا عہدہ بخوبی سرانجام دے سکیں گی۔ ہمارے ہاں ہر نئے آنے والے وزیراعلیٰ کے لیے ایسی ہی مشکلات ہوتی ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ سیکھ جاتا ہے بشرطیکہ اُن کے ایڈوائزرز اُن کے ساتھ مخلص، قابل اور تجربہ کار ہوں۔ ہمارے سامنے ایسی دو مثالیں موجود ہیں جن میں پروفیسر حسن عسکری اور محسن نقوی جنہوں نے بخوبی وزیراعلیٰ کے عہدے کو نبھایا اور عوام کی بھرپور خدمت کی اسی لیے آج وزیراعلیٰ محسن نقوی کی بہت تعریف کی جارہی ہے۔ 

پی ٹی آئی حکومت نے پنجاب کا وزیراعلیٰ ایسا شخص لگادیا  تھا جس کے بارے میں اُن کی اپنی جماعت متفق نہ تھی مگر مخالفت کے باوجود اُنہیں وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔ اُن کا دور انتہائی برا دور رہا اُنہوں نے نہ خود کوئی کام کیا اور نہ ہی پنجاب میں ترقی ہوئی۔ ہر کام بند کردیا گیا اس پر تو بہت بات ہوسکتی ہے۔ میرا خیال ہے ہمیں ماضی کی قباحتوں پر نظر ڈالنے کی بجائے مستقبل پر نظر رکھنی چاہیے۔ ہم اپنی پسند اور ناپسند کے حوالے سے کسی کے بارے میں بیان نہ دیں تو بہتر ہے اُنہیں کام کرنے دیں۔ مریم نواز سے میری گزارش ہے کہ وہ اداروں کو ٹھیک کریں جس سے عوام کی مشکلات میں کمی آئے گی۔ یوں وہ نوجوانوں کے دل میں گھر کرلیں گے۔ پنجاب میں تعلیم پر سخت توجہ دینے کی ضرورت ہے، علاج معالجے کی سہولیات پر خاص توجہ دینی ہوگی تاکہ غریب عوام کو علاج کی سہولیات بآسانی میسر آسکیں۔ 

بہت سال پہلے مریم نواز پنجاب یونیورسٹی میں تشریف لائی تھیں۔ اُن سے بالمشافہ ملاقات بھی ہوئی تھی۔ اُنہوں نے پنجاب یونیورسٹی کی فیکلٹی کے سامنے جو تقریر کی اُس میں اُنہوں نے اپنے دادا، والد اور والدہ کا ذکر کیا تھا۔ بہت سے مسائل پر آپ نے بات بھی کی تھی۔ پنجاب یونیورسٹی کے تجربہ کار اور باصلاحیت اساتذہ نے آپ کی تقریر اور انداز کو پسند کیا تھا۔ 

آپ کا گھرانہ شروع سے کلچر اور آرٹ میں بے حد دلچسپی لیتا رہا ہے اور آپ کے والد اور چچا کو تو نامور شعراء کے کلام بھی یاد ہیں اور وہ عموماً جلسوں میں پڑھتے بھی رہتے ہیں۔ اسے ادیبوں شاعروں کا قبیلہ کہتے ہیں جو ہر برے اور اچھے وقتوں میں ملک و قوم کی خدمات سرانجام دیتے آرہے ہیں۔ 

پاک ٹی ہاؤس جو ادیبوں اور شاعروں کا مسکن رہا ہے کا افتتاح بھی آپ کے والدگرامی نوازشریف نے کیا، حمزہ شہباز بھی اُس محفل میں موجود تھے اس کے لیے الحمرا آرٹس کونسل کے چیئرمین عطاالحق قاسمی نے بھی اپنا حصہ ڈالا اور نوازشریف کو لے کر آئے، اُن کی خدمات بھی بھلائی نہیں جاسکتیں۔ آپ سے التماس ہے کہ آپ ادیبوں شاعروں کے مسائل پر بھی توجہ دیں۔ اُن کے لیے رائٹرز کالونی قائم کی جائے۔ وسائل نہ رکھنے والے مصنّفین کی کتابیں شائع کروانے کے لیے خصوصی فنڈز قائم کیے جائیں۔ لاہور میں رائٹرز گیسٹ ہاؤس تعمیر کریں جس میں بیرونِ لاہور سے آنے والے ادیب شاعر قیام کرسکیں۔ رائٹرز کے لیے اسمبلی میں مخصوص نشست کے لیے قانون سازی کریں۔ پنجاب بھر کے رائٹرز کی تین روزہ بڑی کانفرنس ہر سال منعقد کریں۔ پنجاب حکومت کی طرف سے غریب رائٹرز کے لیے خصوصی ماہانہ وظائف کا نظام بنائیں۔ ہر سکول میں لائبریری کے قیام کو لازمی قرار دیں۔ آخری بات توجہ طلب ہے کہ آپ کی ایڈوائزری کمیٹی میں شاعروں اور ادیبوں کو بھی شامل کیا جائے جو آپ کو ان معاملات پر ایڈوائز بھی دے سکیں اور آپ کے کلچر اور آرٹ کے معاملات میں آپ کو گائیڈ کرسکیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ آپ کو کامیاب و کامران کرے۔ آمین 

مزید :

رائے -کالم -