شاہین، پرواز ہی بھول گئے!

   شاہین، پرواز ہی بھول گئے!
   شاہین، پرواز ہی بھول گئے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چیمپئن ٹرافی کرکٹ ٹورنامنٹ میں شاہینوں نے اپنے اعزاز کا دفاع کرنا تھا جو 2017ء میں بھارت کی ٹیم کو ہرا کر حاصل کیا تھا، لیکن افسوس کہ یہ نہ ہو سکا بلکہ ہماری ٹیم اب تک کھیلے جانے والے دونوں گروپ میچ ہار کر ٹورنامنٹ ہی سے باہر ہو گئی۔ اب اسے بنگلہ دیش کی ٹیم سے ایک میچ کھیلنا ہے جو فیشن ہی ہوگا کہ دونوں ٹیموں میں سے جو بھی جیتے وہ گھر کا معاملہ ہوگا کہ بنگلہ دیش کی ٹیم بھی دونوں میچ ہار کر ٹورنامنٹ سے باہر ہو چکی ہے۔ گروپ اے سے نیوزی لینڈ اور بھارت کی ٹیموں کا میچ ہونا ہے۔ یہ بھی راؤنڈ پورا کرنے کے لئے ہے البتہ یہ فیصلہ ہونا ہو گا کہ دونوں میں پہلی پوزیشن کس کی ہوگی کہ گروپ بی کی دوسرے نمبر والی ٹیم سے سیمی فائنل ہوگاجس کا فیصلہ جنوبی افریقہ اور انگلینڈ کی ٹیموں کے درمیان ہونے والے میچ سے واضح ہو پائے گا، حالات اور امکانات سے ظاہر ہے کہ گروپ بی سے جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا ہی سیمی فائنل میں ہوں گے کہ ان کے تین تین پوائنٹ ہو چکے۔ آج (بدھ) اگر انگلینڈ افغانستان سے جیت جائے تو اس کے دو پوائنٹ ہوں گے اور پھر قسمت کا فیصلہ اگلے میچ پر ہوگا کہ انگلینڈ کا جنوبی افریقہ سے میچ باقی ہے۔ بہرحال قوی امکان یہی ہے کہ جنوبی افریقہ نمبرون ہوگی اور وہ بھارت کے ساتھ سیمی فائنل کھیلے گی جو دبئی میں ہوگا جبکہ نیوزی لینڈ لاہور میں اپنا سیمی فائنل گروپ بی کی ٹیم سے کھیلے گی اور اگر بھارت سیمی فائنل جیت کر فائنل کے لئے کوالیفائی کرلیتا ہے تو فائنل بھی ہمارے میدانوں سے نکل کر دبئی چلا جائے گا اور ذرا سوچئے کہ یہ کتنی بڑی قیمت ہوگی جو شاہینوں نے بھارت سے شکست کھا کر دی ہے۔

آج (بدھ) لاہور میں انگلینڈ اور افغانستان کی ٹیموں کے درمیان میچ ہے جو انگلینڈ کے لئے کہیں اہم ہے کہ اسے آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست ہوئی اور اگر یہ میچ جیتے تو اسے دو پوائنٹ ملیں گے اور اگر ہار گیا تو پھر اللہ حافظ ٹورنامنٹ سے باہر، اگرچہ افغانستان ہار گیا تو اس کے لئے کوئی فرق نہیں کہ پہلے ہی ایک میچ ہارنے اور ایک نامکمل رہنے سے اس کے امکانات کم ہیں، جبکہ انگلینڈ جیت کر دو پوائنٹ حاصل کرلے تو جنوبی افریقہ سے میچ سیمی فائنل کے لئے فیصلہ کن ہوگا، انگلینڈ جیت کی صورت میں سیمی فائنل کے لئے کوالیفائی کرلے گا کہ اس کے چار پوائنٹ ہوں گے جنوبی افریقہ تین پوائنٹ کے ساتھ تیسری پوزیشن پر چلا جائے گا، بظاہر ایسا نظر نہیں آتا کہ جنوبی افریقہ کا سکواڈ بہت مضبوط ہے، بہرحال جلد ہی یہ بھی واضح ہو جائے گا۔

شاہینوں اور ان کے چناؤ کے ذمہ دار اور اساتذہ (ایک چیف بھی ہے) کے دعووؤں اور بڑھکوں کے باوجود نتیجہ ہمارے سامنے ہے، ان حضرات کو دائرہ تحفظ میں اطمینان ہوگا لیکن یہ احساس شاید نہ ہو کہ جس قوم نے ان سے امیدیں وابستہ کررکھی تھیں، ان کو کیسی کیسی مشکلات پیش آئیں اور تیاری کے لئے پی سی بی کا کتنا خرچ ہوگیا  (آڈٹ تو بہرحال ہونا چاہیے) عوامی تکلیف کی مثال دوں تو جب سے ٹیموں کی آمد شروع ہوئی، تب سے اب تک لاہور کے شہریوں نے (ہمارے سمیت) کتنی پریشانی اٹھائی اور احتجاج تک نہیں کیا کہ ٹیم سے امیدیں وابستہ کرلی گئی تھیں،ہماری دفتر آمد و رفت کے لئے دو راستے ہیں، آتے وقت وحدت روڈ سے براستہ فیروز پور روڈ آتے ہیں اور واپسی کینال روڈ سے مغرب کے بعد ہوتی ہے، گزشتہ روز (بدھ) میچ تھا، چنانچہ ٹیموں کی آمد دوپہر کو ہی ہوئی۔اس کے لئے سیکیورٹی مقاصد کے پیش نظر ٹریفک گیارہ بجے کے بعد بند کی گئی، اگرچہ  روٹ مال روڈ سے کینال بنک روڈ فیروزپور روڈ سے مرکزی راستے کے ذریعے سٹیڈیم آمد تھی، چنانچہ قذافی سٹیڈیم کے راستے والے فیروزپور روڈ کے حصے کو بھی عام ٹریفک کے لئے بند رکھا گیا، یوں آدھا لاہور متاثر ہوا، وحدت روڈ اور فیروزپور روڈ تو متاثر تھے ہی جیل روڈ (نہر کے دونوں اطراف بھی) ایک گھنٹے سے زیادہ بند رہیں اور یوں منجمد ٹریفک کی لمبی تر قطاریں لگ گئیں، کچھ رکاوٹ اور اس کے بعد عوامی نفسیات نے وہ گل کھلایا کہ گھنٹوں ٹریفک متاثر رہی، یہ تو صبح کے وقت تھا کہ میچ تھا، روزانہ ٹیموں کی پریکٹس کے لئے ہوٹل سے سٹیڈیم تک سڑکیں خالی کرالی جاتی ہیں اور یوں ہر روز ٹریفک جام کا ہی منظر نظر آتا ہے، سب خندہ پیشانی سے برداشت کیا جا رہا  تھا اور ہے کہ ایک بڑا ایونٹ 29سال کے بعد ہو رہا ہے تو اس کے لئے تکلیف برداشت کرلی جائے۔

اب ذرا ٹیم کی کارکردگی کے حوالے سے بات کی جائے تو ہماری ٹیم دبئی ہوٹل سے اکھڑی جب اس وقت پی سی بی کے چیئرمین چودھری ذکاء اشرف نے شکست کا ملبہ بابراعظم (تب کپتان تھے) پر ڈالا اور یہاں تک اکتفا نہ کیا بلکہ گروپنگ کا الزام لگا کر فکسنگ کا شبہ بھی ظاہر کر دیا اور یہ سب کسی اجلاس میں نہیں کھلے بندوں کیا گیا، جس کے بعد ایک ایسا سلسلہ چل نکلا کہ ٹیم میں اشتراک عمل ہی ختم ہو گیا، ہر بار کپتان کی اہلیت اور نااہلیت کا چرچا ہوا اور میوزیکل چیئر کا کھیل شروع کر دیا گیا، رضوان تک کتنی تبدیلیاں ہوئیں، شائقین کو سب یاد ہیں اور اتنی تبدیلیوں کے بعد سلیکشن کمیٹی اور کوچز کا انتخاب ہوا، اس کے معیار کیا تھے یہ کسی کو علم نہیں، بہرحال لاہور قلندر والے عاقب جاوید چیف کوچ بن گئے اور ان کی زیرسرپرستی جو تربیت ہوتی رہی اس کے نتائج سامنے ہیں۔ یہ حضرات ٹیم کو تو سنبھال نہیں سکے حکمت عملی یہ تھی سخت سپن وکٹیں بنا کر تین سپنر کھلائے اور سیریز جیتی تو بلے بلے کرا لی اور خود کی خود ہی تحسین بھی کی لیکن یہ بھول گئے کہ صدا ایسی وکٹوں پر نہیں کھیلنا، سینئر لوگ جانتے ہیں کہ آئی سی سی کے ایونٹس ہوں تو وکٹیں بھی آئی سی سی کے ماہرین کی نگرانی میں بنتی ہیں جو عموماً سپورٹنگ ہوتی ہیں کہ حاضرین کھیل سے محظوظ ہوں، یہ وکٹیں بھی دونوں ٹیموں کے لئے یکساں ہیں، ہم کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے کہ ہماری کوئی حکمت عملی ہی نہیں، حتیٰ کہ نیوزی لینڈ سے پہلا ہی میچ ہار جانے کے بعد انتظامیہ اور کپتان نے طیب طاہر کو ٹیم میں رکھا جس کی باڈی لینگویج ہی ثابت کررہی تھی کہ وہ وکٹ پر کھڑا نہیں ہو سکتا، کامران غلام اور شان باہر بیٹھے رہے، طیب اور خوشدل اندر رہے اس کے علاوہ باؤلروں کی حکمت عملی کہیں نظر نہیں آئی۔ وہ ایسے ایسے بال کراتے رہے کہ بیٹر کو بڑی شارٹ کھیلنا آسان ہوتی  اور پھر بھارت کے خلاف کھیلنے والا جذبہ بھی ہوتا تھا وہ کدھر چلا گیا؟بھارت کے ساتھ میچ میں نہ تو حکمت عملی نظر آئی نہ ہی نوجوانوں میں جذبہ تھا، توقع کے خلاف بھارتی کھلاڑی سنجیدگی کے مظہر اور پراعتماد تھے، اندازہ کوہلی کی سنچری سے لگائیں کہ اس بڑے کھلاڑی نے آخری بالوں میں جا کر یہ منزل حاصل کی، میرے خیال تو ٹاس جیت کر کھیلنا ہی غلط تھا، بہتر ہوتا کہ بھارت کو کھلا کر ہدف کم رکھنے کے لئے محنت کرلی جاتی تو شاید خوف کم ہوتا، بہرحال احتساب تو لازم ہے۔ بابراعظم کو اب کم از کم پانچ ماہ کی رخصت دیں کہ وہ شادی کرالے، ہنی مون منائے اور پھر واپس آئے ایسے ریکارڈ ہولڈر کو ضائع ہوتے دیکھا نہیں جا سکتا۔

مزید :

رائے -کالم -