ڈاکٹر عمر سیف ماہر ٹیکنالوجی کے بغیر اڑان پاکستان پروگرام کیسے کامیاب ہوگا؟

   ڈاکٹر عمر سیف ماہر ٹیکنالوجی کے بغیر اڑان پاکستان پروگرام کیسے کامیاب ...
   ڈاکٹر عمر سیف ماہر ٹیکنالوجی کے بغیر اڑان پاکستان پروگرام کیسے کامیاب ہوگا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ڈاکٹر عمر سیف عظیم اور سافٹ ویئر ٹیکنالوجی کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ماہر ہیں۔وہ لاہور میں پیدا ہوئے،  انہوں نے لاہور ایچی سن کالج سے 1998ء میں کمپیوٹر سائنسز میں بیچلر آف سائنس کی ڈگری حاصل کی۔ بعدازاں انہوں نے مزید حصول تعلیم کے لئے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) میں داخلہ لے لیا اور بہترین نتائج حاصل کرکے امریکہ کا رُخ کیا اور صرف 22سال کی عمر میں دنیا کی مشہور ترین امریکی یونیورسٹی آف کیمبرج سے ایم آئی ٹی سے کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔پھر آپ میساچوسٹس آف مینجمنٹ آف ٹیکنالوجی کے ادارے میں جا پہنچے۔جہاں انہوں اپنا پوسٹ ڈاک کیا۔ یاد رہے کہ اس عمر میں بیشتر نوجوان اپنی تعلیم ہی مکمل کرتے ہیں۔ بعد ازاں ڈاکٹر عمر سیف ایم آئی ٹی ہی میں پڑھانے لگے، جو پاکستانی کی حیثیت سے ان کے لئے اعزازتھا۔2005ء میں ڈاکٹر عمر سیف وطن واپس چلے آئے۔انہوں نے پُرکشش تنخواہ اور معزز عہدے والی ملازمت کو صرف اس لئے خیر با د کہہ دیاکہ وہ اپنے علم اور فنی مہارت سے وطن ِ عزیز کی خدمت کر سکیں۔ یہاں آنے کے بعد لمز (لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز) میں پڑھانا شروع کردیا۔جلد ہی انہیں احساس ہوا کہ پاکستانی طلبہ و طالبات بھی ایم آئی ٹی کے طالب علموں کی طرح ذہین اور فطین ہیں،بس انہیں اپنی صلاحیتیں دکھانے کے مواقع نہیں ملتے۔2011ء میں دنیائے ٹیکنالوجی کے مشہور ترین رسالے،ایم آئی ٹی ٹیکنالوجی ریویو نے ڈاکٹر عمر سیف کو دنیا کے 35بہترین نوجوان موجدوں میں شمار کیا، جبکہ ڈاکٹر عمر سیف پہلے پاکستانی ماہر ٹیکنالوجسٹ ہیں،جنہیں اس فہرست میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔یاد رہے کہ اسی فہرست میں گوگل اور فیس بک کے بانی،سرگئی برن اور مارک ذکربرگ شامل تھے۔ جب اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی نگاہ ڈاکٹر عمر سیف کی عالمی سطح پرشہرت پر پڑی تو انہوں نے ڈاکٹر عمر سیف کو پنجابا نفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کا سربراہ بنا دیا۔ انہوں نے اپنے دور میں پنجاب کے کئی سرکاری محکموں میں بذریعہ ا نفارمیشن ٹیکنالوجی انقلاب برپا کیا۔ سیلاب کے خطرے سے نمٹنے کے لئے ڈاکٹر عمر سیف کی قیادت میں بورڈ کے ماہرین نے ”فلڈ مانیٹرنگ  ڈیش بورڈ“ ایجاد کیا۔یہ ڈیشن بورڈ سیلاب سے متعلقہ تمام سرکاری محکموں کو لمحہ بہ لمحہ کی خبر سے آگاہ رکھتا تھا۔یوں صوبہ پنجاب میں سیلاب سے بچاؤ کے عملی اقدامات کرنا آسان مرحلہ بن چکا۔ ڈاکٹر عمر سیف کی قیادت میں اسی بورڈ نے پنجاب پولیس کو ایک ہزار بائیو میٹرک آلات فراہم کیے۔یہ آلات صوبہ بھر کے 709تھانوں میں تقسیم کیے گئے۔ان آلات میں نصب تھری جی انٹرنیٹ سبسکرائبر آئیڈینٹی موڈلز (SIMs) نادرا کے ڈیٹا بیس سے منسلک تھے۔جب بھی پولیس نے کسی مشکوک افراد کو گرفتار کیا تو ان جدید آلات کی مدد سے ضروری معلومات حاصل کی جا سکتی تھیں۔ڈاکٹر عمر سیف روایتی تھانہ کلچر ختم  کرنے کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی سے مدد لے رہے تھے۔پہلے مرحلے میں لاہور کے 25تھانوں میں سے گیارہ تھانے ”پولیس سٹیشن آفس ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم“ کے تحت کمپیوٹرائزڈ کیے جا چکے تھے۔اس سسٹم کے ذریعے کوئی بھی پاکستانی شہر آن لائن ہوکر رپٹ (ایف آئی آر) درج کروا سکتا تھا۔یوں پاکستانیوں کی محرر یا حوالدار کے خرچے اُٹھانے سے جان چھوٹ جانی تھی۔ڈاکٹر عمر سیف کی قیادت میں صوبہ پنجاب میں ای اسٹیمپنگ پروجیکٹ شروع کرنا بھی مقصود تھا۔ پہلے مرحلے میں لاہور کا کوئی بھی شہری انٹرنیٹ یا موبائل کے ذریعے جان سکتا تھا کہ کہیں وہ جعلی اسٹمپ پیپر تو استعمال نہیں کررہا؟اس منصوبے کو رفتہ رفتہ پورے پنجاب میں پھیلایا جانا تھا۔ڈاکٹر عمر سیف کی قیادت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ ڈینگی مچھروں کے خاتمے سے لیکر کرپشن کے خاتمے تک وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی بھرپور مدد کررہا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر عمر کی قیادت میں بورڈ ایسی انقلابی کمپیوٹر ایجادات سامنے لارہا تھا جنہوں نے سرکاری محکموں میں کام کا انداز یکسر بدل ڈالنا تھا۔پہلے جو کام ہونے میں کئی دن لگتے تھے، جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت وہ چند گھنٹوں میں انجام پانے لگے تھے۔ڈاکٹر عمر سیف نے ای میڈیسن کا طریقہ بھی بہت خوب ایجاد کیا تھا جس کے تحت دور درازعلاقوں میں رہنے والے افراد بڑے شہروں میں آکر علاج کے لئے دربدر ٹھوکریں کھانے،سپیشلسٹ ڈاکٹروں کو ہزاروں روپے بطور فیس دینے کی بجائے اپنے علاقے میں رہتے ہوئے اپنے مرض کی تشخیص وائر لیس لنک کے ذریعے شہر کے بڑے بڑے سپیشلسٹ ڈاکٹروں سے منسلک ہونا تھا۔ مزید برآں انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے ماہرین ایک ایسی جدید ترین مشین تیار کررہے تھے جس کے ساتھ وائرلیس لنک منسلک ہو گا اس مشین کی مالیت صرف ڈیڑھ لاکھ روپے تھی،اس مشین کو ایک معمولی پڑھا لکھا انسان بھی آسانی سے آپریٹ کر سکتا تھا۔ ابتدائی طور پر آنکھوں کا علاج شروع کیا جارہا تھا اس مشین کے سامنے بیٹھ کر کوئی بھی شخص پنجاب کے کسی بھی شہر /قصبے میں رہتے ہوئے ڈاکٹر وائرلیس لنک کے ذریعے ایکسرے اور رپورٹ دیکھ کر علاج کے بارے میں نہ صرف ہدایت دے سکتا بلکہ آپریشن کی تاریخ اور مقام سے بھی آگاہ کرنے کا پابند ہوتا۔ اس سسٹم کے تحت پنجاب کے دور دراز علاقوں کے لاکھوں افراد بڑے سرکاری ہسپتالوں میں موجود ہر شعبے کے سپیشلسٹ ڈاکٹروں سے اپنا علاج اور آپریشن کروا سکتا۔یہ طریقہ علاج پاکستان میں پہلی مرتبہ متعارف کرایا جانا تھا جس سے لاکھوں افراد کو روزگار اور کروڑوں کو بروقت اور معیاری علاج کی سہولت حاصل ہونی تھی۔انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی کا دوسرا کارنامہ ای لرننگ (آن لائن تعلیم) کا منصوبہ بھی تھا۔اس منصوبے کے تحت ابتدائی طور پر نویں اور دسویں جماعت کی سائنس اور حساب کی کتابوں کو ای لرننگ پر منتقل کیا جانا تھا۔ بعدازاں پانچویں سے بارہویں جماعت تک سلیبس کی تمام کتابوں کی ری ٹیکسٹ کرکے آن لائن کیا جانا تھا جبکہ سلیبس کے مطابق چار ہزار سے زائد ویڈیو لیکچرز بھی متعارف کروائے جانے تھے۔لیکچرر کا اردو ترجمہ کرکے انہیں عام سطح کے افراد کے قابل فہم بنایا جانا تھا اس کے علاوہ ترقی یافتہ ممالک سے بھی اعلیٰ کوالٹی کے حامل ماہرین کے تدریسی اور دیگر شعبہ زندگی کے موضوعات پرلیکچر ز بھی خریدے جانے تھے جن کا اردو ترجمہ کرکے طلبہ و طالبات کو سی ڈی یا ڈی وی ڈی کی شکل میں فراہم کیے جانے تھے۔حکومت پنجاب طلبہ و طالبات کو ٹیبلٹ بھی دینا چاہتی تھی اس ٹیبلٹ میں ہر کلاس کا نصاب ڈال کر طلبہ و طالبات کو فراہم کیا جانا تھا۔یاد رہے کہ اِس وقت پاکستان کے 24ملین افراد 17سے 23سال پر مشتمل ہیں جو غیر موافق تعلیمی نصاب اور تعلیمی اخراجات برداشت نہ کرنے کی بناء پر یونیورسٹی لیول تک بھی پہنچ نہیں پاتے اور ہمیشہ کے لئے معاشرے پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عمر سیف وزیراعلیٰ پنجاب کی ذاتی توجہ کی بدولت ایک ایسا جدید ترین کمپیوٹرائزڈ تعلیمی نظام متعارف کروانے کی جستجو میں مصروف تھے جس کی تکمیل سے نہ صرف طلبہ و طالبات کو دور دراز شہروں سے سفری صعوبتیں برداشت کرکے تعلیم حاصل کرنے سے نجات مل سکتی تھی بلکہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی حد سے بڑھتی ہوئی فیسوں اور تعلیمی اخراجات سے بھی چھٹکارا حاصل ہو جاتا۔یہ جدید ترین نظام تعلیم کا سسٹم اپنی تیاری کی تیزی سے منزلیں طے کررہا تھا کہ مرکز اور صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت ختم ہو گئی اور تحریک انصاف کے اٹکل پچو وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہو گئے اور انہوں نے سب سے پہلا کام ہی ڈاکٹر عمر سیف کو اپنے کام سے روک کر عہدے سے ہٹا دیا۔ اگر پاکستان یا  پنجاب سطح پر ڈاکٹر عمر سیف کو اڑان پاکستان پروگرام کا انچارج بنا دیا جائے تو پاکستان کی معیشت بہت جلدی اڑان بھرنے لگے گی۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -