کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

آج سے چھ دہائیوں قبل پاکستان کے ”لبرل معاشرے“ کے عظیم شاعر فیض احمد فیض نے دورانِ قید ایک نظم کہی تھی جس کا ایک شعر یہ بھی تھا ”کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں“۔ گزشتہ روز سندھ ہائیکورٹ میں ایک رٹ لگائی گئی، جس کے بعد فیض احمد فیض اور اُن کا یہ شعر بہت ہی یاد آیا۔ فیض احمد فیض نے تو اپنے حالات ”پر“ یعنی حیدرآباد سازش کیس میں گرفتاری اور اُس وقت کے پاکستان کے حالات پر،یہ شعر کہا تھا۔ لیکن آج یہ شعر کسی پاکستانی نہیں، بلکہ چینی دوستوں کے حالات پر یاد آیا ہے۔جن کے بارے ہماری ہر حکومت کا دعوی ہوتا ہے کہ پاکستان اور چین کی دوستی سمندر سے گہری، ہمالیہ سے اونچی اور شہد سے میٹھی ہے، لیکن آج جو رٹ عدالت میں لگی ہے اس کے بعد توسارے دعوے جھوٹے لگتے ہیں۔ چینی بھائیوں کے بارے میں ہم دعوے بہت کرتے ہیں، لیکن آج ہمارے چینی بھائیوں کو جو ہمارے ہی وطن میں ہمارے ”بیروز گاروں“کو روزگار مہیا کرنے آئے ہیں عدالت عالیہ سندھ سے رجوع کرنا اور یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمیں سندھ پولیس سے بچایا جائے جو ہم سے ”رشوت اور بھتہ“مانگتی ہے، جس انداز سے یہ رٹ لکھی گئی ہے اس سے تو لگتا ہے جیسے یہ بھتہ بھی پولیس مانگ رہی ہے، کیونکہ رٹ میں کسی اور کا ذکر نہیں کیا گیا۔ بہرحال ہم اُمید رکھتے ہیں کہ یہ بھتہ کوئی اور مانگ رہا ہو گا۔ یہ پولیس نہیں ہو گی،لیکن سچ تو یہی ہے کہ چھ چینی سرمایہ کاروں نے عدالت عالیہ سندھ میں ایک رٹ دائر کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ہمیں پولیس ہراساں کر رہی ہے۔بھتہ مانگا جا رہا ہے۔ پاکستان پہنچنے پر کراچی ایئرپورٹ سے رہائش گاہ تک جانے کے لئے گاڑیاں فراہم کرنے کے لئے رشوت مانگی جاتی ہے (یعنی بلٹ پروف گاڑیوں کے لئے رشوت طلب کی جاتی ہے) اور اگر نہ دی جائے تو ائیرپورٹ پر بٹھائے رکھا جاتا ہے۔ رشوت دینے کے بعد ہی گاڑیاں ملتی ہیں۔ ایک دوسرا الزام یہ ہے کہ سکیورٹی کے نام پر گھر پر قید کر دیا جاتا ہے۔گھروں کو باہر سے تالے لگا دیئے جاتے ہیں اور نقل و حرکت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ یہاں کاروبار کرنے آئے ہیں، مگر کاروباری میٹنگز بھی نہیں کر سکتے۔ یہ وہ رٹ ہے، جس کے آخر میں پاکستان کے ”سب سے بڑے اخبار“ کے مطابق یہ لکھا ہے کہ کیا ہم واپس چین چلے جائیں یا کراچی کی بجائے لاہور چلے جائیں۔ عدالت عالیہ نے رٹ سماعت کے کئے منظور کر لی ہے اور آئی جی سندھ سے چار ہفتے میں جواب مانگا ہے۔ جواب میں فوری طور پر آئی جی صاحب کا بیان آگیا ہے کہ آج تک کسی چینی شہری کی بھتے اور رشوت کی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ چینی شہریوں کی سکیورٹی پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ان کے حوالے سے ”سکیورٹی خدشات“ ہیں۔ ان کی نقل و حرکت محدود ہوتی ہے۔ ہمیں کسی رٹ کی بھی کوئی اطلاع نہیں۔ چینی سرمایہ کار عدالت کیوں گئے اِس بارے چھان بین کر رہے ہیں۔ یعنی بغیر تحقیقات کئے آئی جی صاحب نے چینی سرمایہ کاروں کو جھوٹا قرار دے دیا۔ ہم جو روزانہ روانی میں جھوٹ بولنے کے عادی ہیں اپنے مخلص دوستوں (چینیوں)کو جھوٹا قرار دے رہے ہیں۔ یہ کوئی ”چھوٹا موٹا مسئلہ“نہیں ہے۔ایک طرف ہمارے محترم وزیراعظم شہباز شریف صاحب، نائب وزیراعظم(سابق وزیر خزانہ) جناب اسحاق ڈار، موجودہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور اب وزیر داخلہ محسن نقوی دنیا بھر میں یہ بات کر رہے ہیں کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرو۔ یہاں معاشی حالات بہت اچھے ہیں، یہاں سب اچھا ہے، یہاں دن بدن بہتری آ رہی ہے۔آپ سرمایہ کاری کریں آپ کو بہت اچھا رسپانس ملے گا۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے گزشتہ ہفتے یو ایس چیمبر آف کامرس کا دورہ کیا جہاں انہوں نے پاکستان میں کام کرنے والی امریکی کمپنیوں کے نمائندوں سے ملاقات کی اور ان سے وعدہ کیا کہ ان کے مسائل ترجیحی طور پر حل کیے جائیں گے۔ اگر پاکستان میں ”کوئی مسئلہ“ نہیں اور”سب اچھا“ہے تو یہ کون سے مسائل ہیں جنہیں حل کرنے کا وعدہ وزیر داخلہ نے کیا ہے۔ لازمی بات ہے وہ داخلی حالات سے سب سے زیادہ واقف ہیں۔ انہوں نے امریکی سرمایہ کاروں سے کہا کہ ہمارے معاشی اشاریے بہتر ہو رہے ہیں۔ معیشت ”ٹیک اف“کر رہی ہے۔ معاشی استحکام آ رہا ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کے پُرکشش مواقع ہیں آپ کان کنی اور آئی ٹی میں سرمایہ کاری کریں۔ ایک طرف ہم امریکیوں کو دعوت دے رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں مزید سرمایہ کاری کرو اور چینی شہری کہہ رہے ہیں کہ ہمیں سندھ پولیس سے بچا ؤیہ ہم سے رشوت مانگتے ہیں بھتہ مانگا جاتا ہے۔ گھروں میں قید کر دیا جاتا ہے۔ ہم کاروباری ملاقاتیں کیسے کریں۔ کیا یہ خبر کراچی میں امریکن قونصل خانے، اسلام آباد میں امریکن سفارت خانے کی نظر سے نہیں گزری ہو گی۔کیا ان کا پی آر ڈیپارٹمنٹ ایسی تمام خبروں کو واشنگٹن نہیں بھیجے گا۔ کیا ہمارے ہی ”معزز صحافی بھائی“ اس خبر کو حاشیہ لگا کر امریکیوں کو پیش نہیں کریں گے ۔ چینی تو پاکستان میں مسلسل اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔ کبھی شاہراہ ریشم، کبھی کراچی، کبھی اندرون بلوچستان، کبھی گوادر کی سڑکوں پر ان پر حملے ہو رہے ہیں۔ انہیں قتل کیا جا رہا ہے اور وہ اس کے باوجود پاکستان میں کام کر رہے ہیں۔ سرمایہ لے کر آ رہے ہیں۔ دوسری طرف کیا یہ ممکن ہے کہ کسی ایک امریکی پر پاکستان میں خدانخواستہ قاتلانہ حملہ ہو جائے اور اس کے بعد ”امریکی ہم سے محبت جاری رکھیں“۔ اپنے کسی شہری کے قتل کے بعد وہ دوسرے ملکوں سے ”کیا سلوک کرتے ہیں“کیا ہم بھول گئے ہیں۔انہیں اپنے شہریوں کی حفاظت کرنا آتی ہے اور حفاظت نہ کرنے والوں سے ”اچھا سلوک“ کرنا بھی آتا ہے۔لہٰذا وزیر داخلہ صاحب آپ امریکیوں کو سرمایہ کاری کی دعوت دیں، لیکن اس سے پہلے ذرا آئی جی سندھ سے بھی ”پوچھیں“کہ یہ کیا ہو رہا ہے آخر وہ آپ ہی کو جواب دہ ہیں، تو ان”سینئرز سے بھی پوچھئے کہ ان کے ”بچے“کیا کر رہے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے عہدوں پر بیٹھے ”یہ بچے“ یعنی (ایس ایچ او۔ ڈی ایس پی۔ ایس پی، ایس ایس پی)یعنی باوردی بچے کیا کر رہے ہیں۔ ان کی شکایتیں کیوں آتی ہیں۔ مانا کہ پاکستانی شہریوں کی کوئی اوقات نہیں۔ ان کے بارے میں تو فیض احمد فیض نے صحیح کہا کہ کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں، لیکن وزیر داخلہ صاحب یاد رکھیں چینی اور امریکی شہریوں کا حساب آپ نے اور آپ کی حکومت نے دینا ہے۔ حکومت پاکستان ان کو دعوت دے کے بلاتی ہے تو آپ ان کی حفاظت کے بھی ذمہ دار ہیں۔لہٰذا ہم عوام تو اللہ سے ہی منصفی چاہتے ہیں، لیکن امریکی اور چینی عوام پاکستانی باشندے نہیں۔ان کی حکومتیں بے بس نہیں ہیں۔ وہ آپ سے جواب دہی کر سکتی ہیں۔
٭٭٭٭٭