اسحٰق ڈار صاحب سے 10 سوال
وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحٰق ڈار صاحب آج کل بہت غصے میں ہیں.
کوئی ان سے سوال کرے تو چڑھ دوڑتے ہیں. اہلکاروں کو کہتے ہیں کہ اسے سبق سکھاؤ اور رعونت بھرے لہجے میں یہ بھی استفسار فرماتے ہیں کہ "کیا چاہتے ہو تم"؟
سوال صرف اتنا سا تھا کہ آپ کی حکومت آئی ایم ایف سے معاہدہ کیوں نہیں کر پارہی؟
ڈار صاحب فرمانے لگے کہ "جب تک تم جیسے لوگ ہیں نا سسٹم میں ایسا ہی ہوگا"
ابھی کچھ ماہ پہلے تک جناب ڈار صاحب کے ساتھ پاکستان میں جو ہورہا تھا یہ اس سے بھاگ کر لندن بیٹھے ہوئے تھے لیکن پاکستان میں حکومت ملتے ہی وزیر بن کر واپس لوٹ آئے.
جب یہ لندن میں قیام پذیر تھے تو وہاں سڑک پر پیدل کہیں جارہے تھے تو کسی نے ان سے بدتمیزی شروع کردی، ڈار صاحب آگے بڑھے اپنے سینے پر ہاتھا رکھا اور انتہائی عاجزانہ طریقے سے گویا ہوئے" میں آپکی کیا خدمت کرسکتا ہوں"؟
لندن میں یہ بالکل عام آدمی کی طرح زندگی بھی گزار لیتے ہیں اور وہاں گالیاں نکالنے والوں کو بھی خدمت کی پیشکش کرتے ہیں.
پاکستان میں عہدے سنبھالتے ہی ان کے اندر رعونت بھر جاتی ہے. یہ جن کے ٹکڑوں پر ٹھاٹھ، باٹھ، پروٹوکول اور شاہانہ نخروں کا انتظام کرتے ہیں انہی پر چڑھ دوڑتے ہیں.
ڈار صاحب آپکی وزارت کے فیصلوں اور پالیسیوں سے اس قوم کے شب و روز کا ہر پہلو جڑا ہوا ہے کیا یہ آپ سے سوال بھی نہیں کرسکتے؟
سوال کرنے والا ایک رپورٹر تھا جس کا کام ہی یہ ہے اگر وہ رپورٹر نا بھی ہوتا تب بھی پاکستان کا آئین پاکستان کے ہر شہری کو آرٹیکل 19 اے کے تحت معلومات کا حق دیتا ہے وہ جب چاہے آپ سے سوال کر سکتا ہے.
آپ Right to access information act 2017 کے تحت پابند ہیں کہ آپ ہر پاکستانی شہری کے سوال کا جواب دیں.
ڈار صاحب آپ سوالات سے جتنا مرضی بھاگیں جواب تو آپ کو دینا پڑیں گے وگرنہ یہ عوام الیکشن میں آپکی جماعت کو جواب دیدے گے.
میرے بطور پاکستانی شہری آپ سے 10 سوالات ہیں.
پہلا سوال: آپ نے آئی ایم ایف سے پیسے نہ ملنے کی وجہ تو شاہد قریشی کو قرار دے دیا لیکن یہ بھی بتا دیں کہ جب آئی ایم ایف والے آپکو پیسے دینے کے لیے آنے لگتے ہیں تو کیا شاہد قریشی جیسے لوگ ان کی گاڑی سے ہوا نکال دیتے ہیں؟
دوسرا سوال : جو لوگ مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ آکر خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں کیا ان کا ذمہ دار بھی میڈیا ہے؟
تیسرا سوال: اس سال وفاق کی ممکنہ آمدن 75036 ارب روپے ہے جس میں سے 7303 ارب روپے قرضے کی اقساط چلی جائیں گی باقی کل ملا کر ہمارے پاس 233 ارب روپے کی رقم بچے گی جبکہ بجٹ آپ نے 14460 ارب روپے کا دے دیا ہے. اس 7000 ارب روپے کے خسارے کا ذمہ دار کون سا صحافی ہے؟
چوتھا سوال: ملک میں مہنگائی کی شرح 27 فیصد پر پہنچ چکی ہے. جب یہ شرح 12 فیصد تھی تو آپکی حکومت اس کو عوام کی دشمنی سے تعبیر کرتی تھی.
جناب ڈار صاحب 12 فیصد مہنگائی قوم سے دشمنی تو کیا 27 فیصد مہنگائی قوم سے دوستی ہوتی ہے؟
پانچواں سوال: اس وقت ملکی ترقی کی شرح 0.5 فیصد ہے ڈار صاحب اس کی فرد جرم کس صحافی پر تحریر کرنی ہے؟
چھٹا سوال: قبلہ اسحٰق ڈار صاحب اس وقت ملک میں لاکھوں اور کروڑوں کمانے والوں کو ملا کر بھی فی کس سالانہ آمدن 1568 ڈالر ہے جس سے روزانہ ہر شہری گھر کا کچن بھی نہیں چلا سکتا.
حضور یہ کس گستاخ صحافی کی شرارت ہے؟
ساتواں سوال: کھانے پینے والی اشیاء کی قیمتوں میں مہنگائی کی شرح 48 فیصد ہے. ڈار صاحب قوم کو یوں بھوکا مارنے کی سازش بھی کسی صحافی کی ہے یا یہ اشیائے خور و نوش ہی واقف نہیں کہ پاکستان کے ناظم امور مالیات جناب قبلہ ڈار صاحب ہیں؟
آٹھواں سوال: غربت کی شرح 37.2 فیصد پر پہنچ چکی ہے. یہ تو یقیناً ان غریبوں کا قصور ہوگا نا جو آپکے بچوں کی طرح دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنا جانتے ہی نہیں؟
نواں سوال: زرمبادلہ کے ذخائر آدھی دنیا سے بھیک مانگ کر بھی محض 9ارب 33 کروڑ ڈالر ہیں جو ہمسایہ ملک بھارت کے 584 ارب ڈالر کے مقابلے میں مذاق بھی نہیں ہیں.
جناب اسحٰق ڈار صاحب اس پر شرمندہ ہونا ہے کہ شادیانے بجانے ہیں؟
دسواں سوال: ڈار صاحب آپ جس ملک کے مہمان وزیر خزانہ ہیں اس میں 16 فیصد لوگ گریجویشن کے بعد بھی نوکریوں سے محروم ہیں اور سالانہ 8 لاکھ نوجوان باہر جارہے ہیں.
ڈار صاحب اس کی قصوروار یونیورسٹیاں، ڈگریاں، پروفیسر یا خود یہ نوجوان ہیں؟
ڈار صاحب آپ کو فیس ادا نہ کرپانے کی وجہ سے کبھی اپنے بچے سکول سے ہٹانے نہیں پڑے ہونگے. بجلی کا بل ادا نہ کرپانے کی وجہ سے میٹر کٹنے کا کبھی خوف بھی نہیں آیا ہوگا. کبھی آپ کے گھر راشن نہ ہونے کی وجہ سے رات کو فاقہ بھی نہیں ہواہوگا.
ان بھوکے ننگے لوگوں کے کیا مسائل ہیں اس سے آپ کبھی آشنا نہیں ہوسکتے اور نا کبھی محسوس کرسکتے ہیں.
آپ درجنوں اہلکاروں کا پروٹوکول،مراعات، لگژری گاڑیاں، شاہانہ طرز زندگی اور اقتدار کے مزے لوٹیں ویسے بھی حکومت جانے کے بعد آپ نے اگلی پرواز سے لندن پہنچ جانا ہے...
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔