”گوشی،سرگوشی، خاموشی اورنموشی“

”گوشی،سرگوشی، خاموشی اورنموشی“
”گوشی،سرگوشی، خاموشی اورنموشی“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


چند دن پہلے ہونے والی ایک سماجی تقریب میں ایک ادارے کے تمام ملازمین موجود تھے۔ تمام لوگ خاموشی سے سربراہ ادارہ کی تقریر کا انتظار کر رہے تھے۔ ہال میں مکمل سناٹاتھا۔ ایک محترم نے گوشی سے سرگوشی کی اور اس کے بعد ہال میں موجود تمام لوگوں کی خاموشی بولنے لگی۔ غرانے لگی۔ چنگھاڑنے لگی۔اتنا شور ہواکہ مجھے نموشی ہونے لگی۔ جن لوگوں کی خاموشی شور کر رہی تھی وہ شدید غصے میں بھی تھے۔ گوشی، سرگوشی سن کر ذرا سا مسکرائی۔ محترم کے چہرے پر بھی چمک آئی، مگرباقی تمام لوگوں کے دل اورچہرے بجھ کے رہ گئے۔ لمحوں میں صدیوں کی داستان کہہ گئے۔مدتوں ادارہ کے بند کمروں میں گوشی کے کردارپر کھلے عام باتیں ہوتی رہیں۔ سرگوشی کرنے والے صاحب بھی ناپسندیدہ افراد کی فہرست میں سرفہرست رہے۔مجھے بے اختیار گورنمنٹ کالج جھنگ کے اُردو کے ایک پروفیسر کی یاد آئی۔ وہ ہماری معاشرتی عادات کا نہایت بے رحمی سے تجزیہ کرتے تھے۔ اتنے ظالم تھے کہ اکثر سچ بول جاتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر کسی محلے کی کسی خوبصورت لڑکی کی شادی محلے ہی کے کسی جوان سے ہو جائے تو ہمارے ہاں سولہ سال سے اسی سال تک کے تمام مرد حضرات اس کو اپنی ذاتی حق تلفی سمجھتے ہیں۔ بات بات پر دہائی دینے لگ جاتے ہیں کہ اس ملک میں ”میرٹ“  تو ہے ہی نہیں۔قابلیت کی کوئی قدر نہیں۔ ہمارے لوگوں کاکوئی حال نہیں۔جب انہیں ہمارے جیسے نابغہ روزگارکاہی کوئی خیال نہیں۔کسی زمانے میں ہمارے ملک کے ایک بڑے شہرمیں مردوزن کی مخلوط دوڑ کے مقابلے منعقد ہوئے۔ ہمارے گاؤں کے ایک بزرگ کو شدید افسو س ہوا۔ وہ تمام عمر شدید صدمے کی کیفیت میں رہے۔سدا لوگوں کوبتاتے رہے کہ ”ہمارے ہاں بے حیائی بہت بڑھ گئی ہے“۔ اُن کی زوجہ محترمہ بھی اُن کی بات سے مکمل اتفاق کرتی تھیں۔ ہر بار خلوت 


میں اُن کی قیمتی رائے میں صرف اتنا اضافہ کرتی تھیں ”آپ کو بے حیائی کے پھیلاؤ کااتنا افسوس نہیں جتنا اپنی عمر کے بڑھاؤ کا ہے۔ اصل دکھ تو آپ کو اس بات کا ہے کہ آپ کی جوانی میں بے حیائی اتنی محدود کیوں تھی۔اب اگر بڑھنی تھی توذرا پہلے ہی بڑھ جاتی۔آپ جیسے کتنے بزرگوں کابھلا ہو جاتا“۔ایک تقریب کے اختتام پرایک خاتون نے ایک صاحب کو بلایااور کہنے لگیں ”مجھے پتہ ہے کہ میں خوبصورت ہوں۔ لوگ مجھے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔مجھے لوگوں کی نظریں برداشت کرنے کی عادت ہے۔آج مگر آپ نے اس ضمن میں ایک نیا ورلڈ ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ آپ نے ثابت کردیا ہے کہ پہلی نظر ہی آخری ہونی چاہئے۔آج تو تقریب کا دورانیہ چند گھنٹے کا تھا اگر اگلی ملاقات کسی ایسی جگہ پر ہوئی جہاں میراقیام چند دنوں کے لئے ہوا تو آپ کواپنا ریکارڈ بہتر کرنے کا موقع ضرور ملے گا،مگر اُس سے پہلے میرابھائی بھی آپ سے ملے گا۔ وہ بھی آپ کو صرف ایک دفعہ ہی ملے گا“۔ لوگ بتاتے ہیں اس تقریب کے بعد اُن صاحب کو جیسے کسی کی نظر لگ گئی ہو اور وہ پھر کبھی کسی تقریب میں نظر نہ آئے۔ ویسے توخاتون کے بھائی کا نام بھی لوگ ”نذر“  ہی بتاتے تھے۔ایک مشاعرے میں ایک بزرگ شاعر ایک اُبھرتی ہوئی شاعرہ سے نظریں ہٹانابھول گئے۔ شاعرہ مگر اُن کوآج تک بھول نہیں سکیں، جب بھی ملیں شاعر صاحب سے یہی گلہ کرتی نظرآئیں ”ہمارے شاعرغالب سے چنددن بعد کیوں پیدا ہوئے۔صرف چند دن کی دوری نے اُن کو ایک عظیم شعر کہنے سے محروم کر دیا۔
گو ہاتھ کو جبنش نہیں، آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے


میرٹ پر یہ شعر صرف ہمارے شاعر کابنتاتھا۔بس چند دن کی تاخیر سے اُردو ادب کی تاریخ بدل گئی“۔ایک صاحب سچی محبت کرنے کے ماہر تھے۔ بڑے فخر سے بتاتے تھے کہ انہیں پہلی سچی محبت بچپن سے ہوئی تھی اوراب تک کی آخری ”پچپن“ میں۔بیوی اپنی کو، مگر خود سے بھی محبت کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔مشرقی شرم و حیا پر انسائیکلو پیڈیا تھے۔زوجہ کبھی اگر تھوڑا وقت مانگتی تھیں توممتا کے فضائل گنوانا شروع کر دیتے تھے۔ عملاً اس بات کے قائل تھے کہ شادی کے بعدعورت کو بچوں کے ساتھ دل لگاناچاہئے اورشوہر کوکسی اورکنواری عورت کے ساتھ تاکہ عقد ِ ثانی میں آسانی اوراولادِ لاثانی پیدا ہو سکے۔ایک صاحب کے چار بیٹے تھے۔تین کے مزاج نرالے تھے۔ عادات عجیب سی تھیں۔ ایک لڑائی جھگڑے کا ماہر تھا۔ دوسرا زبان کابہت تیز تھا۔ تیسرا خود غرض اورضدی تھا۔تینوں دل پھینک اوررنگین مزاج بھی تھے۔چوتھااورسب سے چھوٹا بیٹا دین دار تھا۔ لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرتاتھا۔ صوم صلو ۃ کاپابند تھا۔ باحیاتھا۔ ہمارے صاحب چھوٹے بیٹے سے شدیدنالاں رہتے تھے۔ اُس کو جتاتے رہتے تھے ”ہمارے ہاں باحیامرداوربے حیاعورت کاکوئی سکوپ نہیں۔”مرد بن مرد‘‘۔تیری شکل اور کام دیکھ کر دکھ ہوتا ہے“۔نوشی کے دوہم جماعت اُس کے 


عاشق بھی تھے۔ ہر وقت محبت جتاتے رہتے تھے۔ چاند تارے توڑ لانے کے لئے بے تاب تھے۔ نوشی اعلیٰ کردار کی قابل ترین لڑکی تھی۔اُس کو بھی ایک صاحب پسندآگئے۔نوشی نے اُن سے شادی کرلی۔وہ نہایت شکی مزاج ثابت ہوئے۔ دیگرعادات بھی قابل ِ اعتراض تھیں۔سگریٹ نوش بھی بلا کے تھے۔نوشی کا جینا دوبھر کر دیا۔ نوشی نے رشتہ برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر صاحب ذرا تبدیل نہ ہوئے۔ کسی ایک عادت پر بھی سمجھوتہ نہ کیا۔ تھک ہار کر نوشی کو طلاق لینا پڑی۔ سابق شوہر صاحب نے اپنی حرکات و سکنات کی بدولت صحت تباہ کرلی۔ پہروں بیٹھے سگریٹ کی ڈبی پرلکھی تحریر ”سگریٹ نوشی صحت کے لئے مضر ہے“کے پہلے لفظ کو ہاتھ سے چھپا کر باقی عبارت ترنم سے زیر لب گنگناتے رہتے تھے۔ایک صاحب ”ماسکو“ یونیورسٹی میں اُردو پڑھاتے تھے۔ سچے پاکستانی اور پکے مسلمان تھے۔ ایک ”رشین“ خاتون اُن کی سیرت پر مر مٹیں۔ اسلام قبول کرلیا۔ شادی کر لی۔ ضد کی کہ باقی زندگی شوہر کے آبائی وطن میں گزارنی ہے۔ ہما رے صاحب  جاگیر دار گھرانے کے فرد تھے۔ خاندان کے دیگر افراد رسم و رواج کے پابند تھے۔ روایات کے اسیر تھے۔ خاندان سے باہر شادی کا قطعاً رواج نہ تھا۔ اُردو سے محبت کرنے والے جوڑے کو اتنی اذیت سے گزرنا پڑاکہ جوڑ  جوڑ دکھنے لگا۔ اقبال کے عاشقوں کا غیروں میں اقبال بلند تھا۔ وطن آکر حالات پست ہوگئے۔ اتنی تکلیف ہوئی کہ دونوں کی بس ہوگئی۔ بے بس ہو کر ذہنی صحت کی بحالی کے ایک ادارے میں داخل ہوگئے۔ تمام گھر والے ان کو پاگل سمجھتے تھے۔ظلم یہ ہوا کہ یہ بھی خود کو پاگل سمجھنے لگے۔ 
یہ جسم و جاں تری ہی عطا سہی لیکن
ترے جہان میں جینا میرا ہنر بھی تھا

مزید :

رائے -کالم -