انصاف اور حقائق تو خود بولتے ہیں!
سپریم کورٹ آف پاکستان کے نئے چیف جسٹس،مسٹر جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا، تقریب حلف برداری ایوان صدر میں ہوئی۔ اس میں وزیراعظم کے علاوہ وفاقی وزراء، صوبائی گورنر، صوبائی وزراء اعلیٰ، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج صاحبان، وکلاء اور دیگر معززین نے بھی شرکت کی۔ تقریب میں سپریم کورٹ کے تین وہ جج حضرات بھی موجود تھے جنہوں نے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے الوداعی فل کورٹ ریفرنس میں شرکت نہیں کی تھی، البتہ سینئر موسٹ جج مسٹر جسٹس منصور شاہ عمرہ کی ادائیگی کے لئے حجاز مقدس میں ہیں، اس لئے وہ موجود نہیں تھے اگر ہوتے تو امکانی طور پروہ بھی شرکت کرتے کہ الوداعی ریفرنس کابائیکاٹ کرنے والوں میں سے تین فاضل جج شریک تھے،اس سے یہ توقع کرنا چاہیے کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی پر اب ان میں سے کسی کو اعتراض نہیں اور سب باہمی تعاون سے اپنے فرائض سرانجام دیں گے نہ صرف چیف جسٹس محترم بلکہ یہ فاصلہ جج بھی ان فاصلوں کو ختم کر دیں گے جو سابقہ دور میں پیدا ہو گئے تھے، بہتر ہوتا کہ محترم حامد خان کو بھی مدعو کیاجاتا اور وہ بھی شرکت کرتے۔ لاہورمیں ہونے کی وجہ سے میں موقع کی کوریج یا جانکاری سے محروم ہوں۔ صرف ٹی وی لائیو سٹریمنگ ہی کا سہارا ہے اور یہ عرضداشت تحریر کررہا ہوں۔ جن فاضل ججوں نے شرکت نہیں کی انہوں نے اپنا تاثر خود بنا لیا اس پر کچھ کہنا میں تو مناسب نہیں سمجھتا۔
میں ایک سے زیادہ بار دوسرے دوستوں کی طرح معاشرے کی تقسیم کے حوالے سے دکھ کا اظہار کرتا رہا ہوں اور اسی تقسیم نے اوپر سے نیچے تک ہر شعبہ زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ میں اس حوالے سے کوئی الزام تراشی کئے بغیر صرف یہ عرض کروں گا کہ سب لوگ اس سے بخوبی واقف ہیں کہ یہ سلسلہ کب اور کیسے شروع ہوا اور اب یہ کس انتہا پر ہے، حالات کی نوعیت یہ ہے کہ سینئر موسٹ فاضل جج منصور علی شاہ نے فل کورٹ ریفرنس میں نہ صرف شرکت نہ کی بلکہ ایک تحریری خط کے ذریعے اس غیر حاضری کو ضمیر کی آواز کہا اور یہ بھی یاد دلایا کہ انہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے الوداعی ریفرنس میں بھی اسی بناء پر شرکت نہیں کی تھی۔
فاضل جج مسٹر جسٹس منصور علی شاہ کا یہ خط کوئی محکمانہ مراسلت نہیں رہی بلکہ یہ شائع بھی ہو گیا ہوا ہے، اب یہ خط اور الفاظ اخلاقی طور پر پبلک پراپرٹی ہیں اور ان پر بات کی جا سکتی ہے میں یہ عرض کرنے پر مجبور ہوں کہ جو روایت موجودہ دور میں سپریم کورٹ کے قابل احترام فاضل جج حضرات نے بنائی وہ ماضی میں نہیں تھی کہ کبھی بھی اعلیٰ عدلیہ کے اراکین اس طرح اپنے موقف کا اظہار شائع نہیں ہونے دیتے تھے، ہم صحافیوں کو خبرکی تلاش کے حوالے سے عدلیہ کی تقرریوں اور ان سے پیداشدہ صورت حال جاننے کی کوشش کرناپڑتی تھی۔ علاوہ ازیں ماضی میں بھی عدلیہ میں اختلاف ہوتا اور خبر کی صورت بنتی لیکن اس کی تردید کر دی جاتی تھی، مگر اب تو خود متعلقہ حضرات بتاتے ہی نہیں، عوامی اجتماعات میں خطاب کرتے ہوئے بھی ایسی باتیں کر دیتے ہیں کہ شہ سرخیوں کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔
سیناریٹی کی بناء پر اس عہدہ جلیلہ سے محروم رہنے والے فاضل سینئر جج سید منصور علی شاہ کا رنج غیر معمولی نہیں اور ایسی ہی باتیں تحریک انصاف کے بیرسٹر گوہر خان اور حامد خان نے بھی کی ہیں، یہ حضرات سپریم کورٹ کی حالیہ نامزدگی کا ذکر تو کرتے اور اسے الجہاد ٹرسٹ کیس کے حوالے سے غلط قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ تقرری باقاعدہ طور پر پارلیمنٹ سے منظورکی جانے والی 26ویں ترمیم کی روح سے ہوئی ہے اور باقاعدہ ایک پروسیس مکمل کیا گیا، تحریک انصاف نے پارلیمانی کمیٹی کے لئے نام دے کر بھی اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا حالانکہ اگر وہ شریک ہوتے تو ان کا اختلافی موقف تو ضابطہ تحریر میں آ جاتا، لیکن ان کی سیاست ہی ایسی ہے جو سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ حضرات کڑوا کڑواتھو اور میٹھا میٹھا ہپ کے فارمولے پرعمل کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کو حال ہی کی دو مثالیں یاد کرنا چاہیئیں کہ لاہور ہائیکورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس حضرت و خاتون کی تقرری بھی پینل ہی کے طور پر ہوئی اور یہ تقرری جوڈیشل کمیشن کے ذریعے ہوئی تھی، تین تین فاضل جج حضرات کے پینل میں سے ہی موجودہ چیف جسٹس خاتون و فاضل جج کا انتخاب اسی پینل سے ہوا تھا۔
فاضل سینئر موسٹ جج نے شائع ہو جانے والے خط میں سابق چیف جسٹس کے حوالے سے مزید بھی بہت سخت الفاظ استعمال کئے ان میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج حضرات کے اس خط کا بھی ذکر ہے جو چیف جسٹس کو لکھا گیا اور استدعا کی گئی کہ عدلیہ میں مداخلت کو روکا جائے اور الزام خفیہ ایجنسیوں پر لگایا گیا تھا، شکوہ یہ ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ نے اس خط پر کوئی کارروائی نہیں کی، یہ الزام اس فاضل چیف جسٹس پر ہے جنہوں نے فیض آباد دھرنے کا فیصلہ لکھااور انہوں نے ہی جنرل پرویز مشرف کے حق میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرکے جنرل موصوف کو آرٹیکل 6کا مرتکب (غداری) قرار دیا اور سزائے موت کاحکم بحال کر دیا، انہی فاضل جج صاحب کی قیادت میں ذوالفقار علی بھٹو کی سزاوالا صدارتی ریفرنس سن کر قرار دیا کہ ان (ذوالفقار علی بھٹو) کے ساتھ انصاف نہیں ہوا تھا، میں قاضی فائز عیسیٰ کا دفاع نہیں کرتا کہ وہ تو خود اعتراف کرتے ہیں کہ انسان ہونے کی وجہ سے ان سے غلطیوں کے ارتکاب کا امکان موجود ہے اور شاید ہوئی بھی ہوں، لیکن اس خط پر بات کرنا تو ضروری ہو گیا کہ جواب پبلک پراپرٹی ہے۔ فاضل سینئر موسٹ جج کا یہ شکوہ بجا نہیں کہ سابق چیف جسٹس نے جرائت نہ دکھائی اور خط پر کارروائی نہ کی، میرے خیال میں ممکنہ طور پر اس کی وجہ اور پس منظر وہی ہو سکتا ہے جس کے مطابق عدلیہ کی تقسیم واضح تھی اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے تحریک انصاف کو مسلسل ریلیف مل رہی تھی، حتیٰ کہ بانی اور اہم رہنماؤں کے خلاف ڈیڑھ سال سے زیادہ ہو جانے کے بعد بھی مقدمات کا فیصلہ نہ ہو سکا اور اب تک زیر التواء ہیں، پھر فاضل جج نے ہائیکورٹ کے ان فاضل جج حضرات کے ریمارکس اور رویے پر غور نہیں کیا، کیا یہ غلط ہے کہ جتنی بار حالیہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئی جی سمیت مختلف محکموں کے سربراہوں کو طلب کرکے بھری عدالت میں ان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ قانون کی کس کتاب کی رو سے درست ہے اور یہ خط بھی تو اسی حوالے سے لکھا گیا اور زیر بحث آیا، اب تو وزیراعظم محمد شہبازشریف نے 25اکتوبر اور 30اکتوبر کا ذکر کرکے کہانی بیان کی ہے اور پھر خود تحریک انصاف کے بانی اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کا موقف کہ 30اکتوبر سے پہلے حکومت ختم ہو جائے گی اور پھر فرزند راولپنڈی، لال حویلی والے شیخ رشید بھی تو آن ریکارڈ ہیں۔
اس حوالے سے اور بھی بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن میری تنظیم اور پیشے (صحافت) کا ضابطہ اخلاق مجھے روکتا ہے، اگرچہ کہانیاں تو بہت اور کئی حقائق پر مبنی ہیں، سب سے بڑا ثبوت درخواستوں، مقدمات کی سماعت کے دوران فاضل جج حضرات کی برہمی، سرزنش اور ریمارکس ہی ہیں جو نشر ہوتے اور چھپتے رہے ہیں، میں اپنی بات یہیں ختم کرتا ہوں اور ملتمس ہوں کہ فاضل سینئر موسٹ جج نے جن مبینہ برائیوں کا ذکر کیاوہ اب دور ہو جائیں گی۔ نئے چیف جسٹس ماحول کو بہتر بنائیں گے اور ان کے ساتھی بھی تعاون کریں گے کہ اب آئینی بنچ کے باہر فاضل جج حضرات پر عوامی مقدمات نمٹانے کی بھاری ذمہ داری ہے، جن کی تعداد لاکھوں تک پہنچنے والی ہے۔