قانون کی بالادستی، کہ خوشی سے مر نہ جاتے؟

   قانون کی بالادستی، کہ خوشی سے مر نہ جاتے؟
   قانون کی بالادستی، کہ خوشی سے مر نہ جاتے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہم پاکستانیوں کی یہ خوش قسمتی ہے کہ جب بھی کوئی نئے چیف جسٹس آتے ہیں یہ ضرور یقین دلاتے ہیں، ملک میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنائیں گے، جس طرح دانت کے درد کی گولی کھانے سے دو چار دن اچھے گذر جاتے ہیں،اسی طرح ملک کے نئے چیف جسٹس کی زبان سے یہ بات سن کر چار دن تو خوب اطمینان سے گذرتے ہیں اور اُمید پیدا ہو جاتی ہے اب ہر طرف قانون کے ڈنکے بجیں گے اور خلقِ دا کو انصاف ملے گا، سو ہم آج اس سرشاری کے عالم میں ہیں، کیونکہ نئے چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی نے یقین دلایا ہے کہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائیں گے۔کیسا زبردست ملک ہے جہاں ہم خود تسلیم کرتے ہیں قانون کی حکمرانی نہیں،اُسے یقینی بنانے کی کوشش کی جائے گی۔مجھے یاد ہے جب ثاقب نثار نے چیف جسٹس کا منصب سنبھالا تھا، میں نے اُس وقت بھی اُن کے ایسے بیان پر کالم لکھتے ہوئے ست بسم اللہ کہا تھا، پھر عمر عطاء بندیال، قاضی فائز عیسیٰ نے ایسا ہی کہا تھا تو جھولیاں اُٹھا کر انہیں دُعا دی تھی اور اب چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے یہی فرمایا ہے تو انہیں بھی یہی کہنے کو جی چاہ رہا ہے،بسم اللہ کریں سرکار قوم آپ کے ساتھ ہے،اُن کے پاس تین سال کی مدت ہے، تین سال میں بہت کچھ کیا جا سکتا ہے، ہو سکتا ہے، اس لئے امید رکھنی چاہئے قانون کی بالادستی کے لئے وہ کچھ کر جائیں گے،مگر کیا یہ اتنا آسان معاملہ ہے۔انہوں نے قاضی فائز عیسیٰ کے الوداعی ریفرنس میں خطاب کرتے ہوئے ملک کے پسماندہ علاقوں میں عدالتیں بنانے کا اعلان کیا ہے،یہ بہت اچھی بات  ہے اور اس سے ایسے علاقوں کے لوگ قانون کی چھتری تلے آ سکیں گے۔تحفظ محسوس کریں گے، مگر صاحبو! مسئلہ تو یہ ہے جہاں عدالتیں بھی پہلے موجود ہیں،وہاں کون سا لوگوں کو انصاف مل رہا ہے۔ لوئر کورٹس کے معاملات کو بہتر بنائے بغیر انصاف کیسے فراہم کیا جا سکتا ہے۔بات صرف سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمات کی ہوتی ہے، حالانکہ لاکھوں مقدمات تو ماتحت عدالتوں میں پڑے ہیں اور قدم قدم پر انصاف کی راہ میں رکاوٹیں بھی وہیں حائل ہوتی ہیں۔اس نظامِ عدل کے ہوتے ہوئے قانون کی بالادستی ایک خواب ہی رہے گی۔جسٹس(ر) ثاقب نثار کے دور میں جوڈیشنل اصلاحات نافذ کی گئی تھیں جن کا مقصد مقدمات کی جلد سماعت اور جلد فیصلوں کو یقینی بنانا تھا،اس مقصد کے لئے جج صاحبان کو ٹائم فریم بھی دیا گیا تھا اور اختیارات بھی کہ وہ شیڈول کے مطابق مقدمات نمٹائیں، کچھ دن تو یہ سلسلہ  چلا پھر بار ایسوسی ایشن میدان میں آ گئیں،جنہوں نے اس ٹائم فریم کو مسترد کر دیا۔ ججوں اور وکلاء کے درمیان جھگڑے ہونے لگے، کئی ججوں کو وکلاء نے تشددکا نشانہ بھی بنایا،بجائے اس کے کہ اِن بڑھتے واقعات پر سخت ایکشن لیا جاتا،ججوں کو ہی ٹرانسفر کرنے کی پالیسی اختیا کی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جوڈیشل پالیسی دم توڑ گئی۔ اب پھر وہی نظام رائج ہے جس میں جج کی بجائے وکلاء کی بالادستی ہے،کوئی جج تاریخ نہ دے، بات نہ مانے، کوئی آرڈر پاس کر دے تو اُس کے خلاف احتجاج کی کال آ جاتی ہے جب تک سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کی طرح ماتحت عدلیہ کو بھی وہی تحفظ نہیں دیا جاتا جو بڑی عدالتوں کے ججوں کو حاصل ہے اُس وقت تک ججوں کی بالادستی قائم نہیں ہو سکتی، قانون کی بالاد ستی تو دور کی بات ہے۔

اس وقت معاشرے کی صورتحال یہ ہے کہ ہر طرف لاقانونیت کا راج ہے۔ قتل، ڈکیتی، راہزنی، فراڈ اور غریبوں کے ساتھ امراء کی زیادتیاں معمول بن چکی ہیں۔ سوشیالوجی کا اصول یہ کہتا ہے جب کسی معاشرے سے قانون کا خوف ختم ہو جاتا ہے تو جرائم اور لاقانونیت ڈیرے ڈال لیتے ہیں، بدقسمتی سے ہماری پولیس بھی اپنا کنٹرول کھو چکی ہے اُس کا سیاسی استعمال اتنا بڑھ گیا ہے اور اِس حوالے سے اُسے اتنی بے لگام چھٹی دے دی گئی ہے کہ اب پولیس والے عام لوگوں سے بھی یہی سلوک کرتے ہیں اور پکڑے جائیں تو سیاست کی آڑ لے کر چھوٹ جاتے ہیں۔میرے ایک پولیس افسر دوست نے بتایا ایسی شکایات اب عام ہو چکی ہیں،انہوں نے بتایا گزشتہ دو برسوں میں پولیس کا سیاسی استعمال اتنا بڑھ چکا ہے کہ اب اپنی افسری پر شرم آنے لگتی ہے۔ماضی میں سیاسی کارکن نہیں ملتا تھا تو اُس کی تلاش کے لئے تگ و دو کی جاتی تھی۔اب پولیس کو کہا جاتا ہے وہ اُس کے گھر میں جا گھسے اور ہر چیز کو توڑ پھوڑ دے،پھر بھی وہ نہ ملے تو اُس کے باپ، بھائی یا بیٹے کو اٹھا لائے۔جب ماتحت عملے کو آپ اس طرح کی کھلی چھوٹ دیں گے تو وہ اسے اپنا اختیار سمجھ کے اُن لوگوں کو بھی نشانہ بنائیں گے جن کا کسی سیاسی جماعت یا سیاست سے تعلق ہی نہیں، انہوں نے کہا آج کل آئے روز ایسی شکایات آتی ہیں اور سخت ایکشن اس لئے نہیں لیا جاتا کہ انہی پولیس والوں سے ہم نے کسی سیاسی جماعت کے خلاف یہی کام لینا ہوتا ہے۔ میں نے پوچھا کیا جرائم کی شرح بڑھنے کا ایک سبب یہ بھی ہے؟ انہوں نے کہا جب سے تحریک انصاف کے احتجاج کو ہر قیمت پر دبانے کی پالیسی اختیار کی گئی ہے،معمول کی پولیسنگ بُری طرح متاثر ہوئی ہے،کیونکہ نفری تو وہی ہے۔اُسے جرائم پیشہ افراد پر گرفت کے لئے لگا یا احتجاج روکنے پر کھڑا کر دو۔گویا ہماری سیاست بھی اس نہج پر پہنچ چکی ہے جہاں معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرنے کی بجائے ریاستی اداروں کے استعمال سے اہداف حاصل کرنے کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے،جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پورے انتظامی ڈھانچے میں ایسی کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں جو لاقانونیت کو فروغ دیتیں اور قانون کی بالادستی کو ایک خواب بنا دیتی ہیں۔

ملک میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ہے تو یہ کسی ایک ادارے میں بہتری لانے سے ممکن نہیں اس کے لئے عدلیہ، انتظامیہ، پولیس اور وکلاء کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ مثلاً ایک جج اگر بروقت فیصلہ کرنا چاہتا ہے تو پولیس اور وکلاء کے تعاون ہی سے کر سکتا ہے۔ایک فوجداری مقدمے میں پولیس کے چالان، پراسیکیوشن اور گواہوں کی حاضری ضروری ہوتی ہے۔آپ کسی بھی ضلع کے ڈی پی او کو عدالتوں کی طرف سے لکھی گئی چٹھیوں کی تفصیل معلوم کریں تو زیادہ تر اسی باعث ہوں گے کہ چالان پیش نہیں کیا گیا یا گواہوں اور شہادتوں کی تکمیل میں پولیس تساہل سے کام لے رہی ہے۔ایسے مقدمات میں گرفتار افراد بے گناہ ہوں تو انہیں بھی اسی نظام کی وجہ سے سزا بھگنی پڑتی ہے،جہاں تک بار ایسوسی ایشنوں کا تعلق ہے وہ کسی وکیل کے ساتھ پولیس یا کسی دوسرے محکمے حتیٰ کہ جج کی زیادتی پر  بھی فوراً ایکشن لیتی ہیں،مگر اس بات پر زور نہیں دیتیں کہ بروقت انصاف کو بھی یقینی بنایا جائے۔ثاقب نثار کی جوڈیشل پالیسی کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت بار ایسوسی ایشنوں ہی نے کی تھی،حالانکہ اس کی حمایت کی جانی چاہئے تھی۔ موجودہ نظام میں آپ کسی سول جج سے یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ جلد انصاف دینے کے لئے وکلاء کے تاخیری حربوں کے خلاف فیصلے دے گا،کیونکہ ٹکراؤ کی صورت میں اسے اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے سرزنش تو ملتی ہے،تحفظ نہیں ان حالات میں اگر نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی یہ عزم رکھتے ہیں کہ قانون کی بالادستی کو یقینی بنائیں گے تو اس کے لئے پوری قوم اُن کی حمایت کرے گی تاہم یہ وہ معاملہ ہے جس کے بارے میں شاعر نے کہا تھا۔”اک آگ کا دریا ہے اور تیر کے جانا ہے“۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -