یہ نان فائلر کون ہیں؟
آئی ایم ایف کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے پاکستان کے لئے سات ارب ڈالر کے امدادی پیکج کا معاہدہ منظور کر لیا اور اب یہ قرضہ مل جائے گا۔ قارئین! معذرت کہ میں پہلے امداد لکھ گیا در اصل یہ قرضہ ہے جسے بڑے ممالک امداد قرار دیتے ہیں اور آئی ایم ایف نے انتہائی سخت شرائط منوا کر احسان کیا ہے، یہ قرضہ سود پر لیا گیا جسے اسلام میں حرام قرار دیا گیا،بہرحال یہاں اور دنیا بھر میں ابھی استحصالی ممالک کا رائج مالی نظام ہی جاری ہے اور اس کی بنیاد ہی سود ہے، وزیر اعظم محمد شہباز شریف جو خود بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے نیویارک میں ہیں، ان کی موجودگی کے دوران آئی ایم ایف کا اجلاس ہوا اور اعلامیہ کے مطابق قرضے کی منظوری دی گئی اور ساتھ ہی اطمینان کا اظہار کیا کہ پاکستان کی معیشت بہتر ہوئی اور سٹاف لیول معاہدے کے بعد پاکستان نے شرائط پوری کی ہیں، اور بہتر اقدامات کے نتیجے میں جی ڈی پی 2.4 فیصد آ گئی ہے تاہم اب بھی مشکل وقت تو ہے۔
وزیر اعظم محمد شہباز شریف کئی بار اقرار کر چکے کہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے باعث عوام پر بوجھ بڑھا ہے۔ ان کا یہ فرمانا بالکل درست ہے اگرچہ انہوں نے خود اور ان کے وزیر اطلاعات نے عوام کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے کہ مہنگائی کم ہوئی، افراط زر کی شرح بھی نیچے آ گئی ا ور اب عوام کو ریلیف ملنے کے امکانات ہیں،ان کے مطابق معیشت سنبھل گئی اور اب ترقی کی طرف قدم اٹھیں گے اور دعا کی کہ یہ پروگرام آخری ہو۔
وفاقی حکومت کی طرف سے جو اقدامات اب تک ہوئے ان میں متاثرہ تنخواہ دار طبقہ پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ہے اور ایف بی آر کو ایسی کھلی چھٹی مل گئی ہے کہ یہ بورڈ25کروڑ عوام کی زندگی اجیرن بنانے کو پھر رہا ہے پہلے تو فائیلر اور نان فائیلر کا سلسلہ چلایا جا رہا تھا جو عام آدمی تو دور کی بات خود وفاقی وزیر خزانہ اورنگ زیب کی سمجھ سے باہر تھا۔ ایف بی آر نے اب ایسا فیصلہ کیا ہے کہ وزیر خزانہ سمجھ جائیں گے، وفاقی بورڈ آف ریونیو کے مطابق اب فائیلر اور نان فائیلر کی تخصیص ختم کر دی گئی ہے اور نان فائیلر کے لئے مزید سختیاں شروع کی جا رہی ہیں۔ جو نان فائیلر ہوں گے وہ ملک سے باہر نہیں جا سکیں گے اور نہ ہی کوئی جائیداد خرید سکیں گے۔ تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ نان فائیلر سے ان کی مراد کیا ہے اگر تو مطلب یہ ہے کہ جو سالانہ آمدن کے گوشوارے داخل نہیں کراتے تو عقل مند کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جو لوگ آمدنی کے حوالے سے انکم ٹیکس کی ادائیگی کے اہل نہیں ان کی آمدن اتنی ہے ہی نہیں کہ وہ انکم ٹیکس کے لئے اہل ہوں تو یہ لوگ کیسے ریٹرن فائل کریں اور کیوں کریں جو انتظامات بتائے گئے ان کے مطابق پھر یہ کہا جا رہا ہے کہ موبائل کی سم بند کر دی جائے گی۔ بجلی کے کنکشن کاٹ دیئے جائیں گے اور ان کا جینا حرام کر دیا جائے گا۔
میں ٹیکس اور زر کے معاملات میں کورا ہوں زیادہ نہیں جانتا، لیکن خود آئی ایم ایف اور ہمارے وزیراعظم سے وزیر خزانہ اور دوسرے حکومتی کل پرزے یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ایف بی آر ٹیکس کی وصولی میں ناکام رہتا ہے۔ حتیٰ کہ حکومت تک کی بہترین کوشش اور حالیہ اعلان کردہ تمام تر حربے اختیار کرنے کے باوجود ابھی تک تاجر بھائیوں کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جا سکا اور یہی وجہ ہے کہ اب مزید عجیب فیصلے سامنے آ رہے ہیں، اس ملک کی چالیس فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور یوں یہ 40 فیصد تو خود محتاج ہیں، یہ کیسے گوشوارے داخل کرائیں گے یہ تو ازلی نان فائیلر ہیں اور آپ کی تمام تر کوشش کے باوجود بھی فائیلر کی حیثیت میں نہیں آ سکتے تو کیا آپ (ایف بی آر) ان سے جینے کا بھی حق چھیننا چاہتا ہے ابھی ملک میں ایمرجنسی نہیں لگی اور نہ ہی آئین معطل کر کے آمریت مسلط کی گئی ہے آپ کس طرح بنیادی انسانی حقوق کے خلاف فیصلے کر سکتے ہیں اور اب تو ماشاء اللہ جوڈیشل ایکٹو ازم کا بھی دور ہے۔ بہتر ہوگا کہ ایف بی آر اپنی نالائقی مان لے کہ یہاں ٹیکس کا نظام اتنا پیچیدہ ہے کہ ٹیکس دہندہ اور عام پاکستانی کیا سمجھے گا خود ان بابوؤں کی سمجھ میں بھی نہیں آتا جن کی حکومت سے نجات کے لئے آصف علی زرداری ایوان صدر میں براجمان ہوئے ہیں۔ ویسے دعوؤں کا کیا وہ تو کئے ہی اس لئے جاتے ہیں کہ پورے نہ کئے جائیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ٹیکس کا نظام اتنا پیچیدہ ہے کہ اگر کوئی شہری خود دیانت داری سے ٹیکس دینا چاہے تو اس کے لئے یہ ممکن نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے ساتھی سجاد کرمانی (مرحوم) کہا کرتے تھے۔ ایف بی آر کے چکر میں نہ پھنسنا اگر ایک بار تم نے ٹیکس دیا، گوشوارے بھر کر دیانت داری دکھائی تو ساری زندگی پچھتاؤ گے اور اب شاید وہ وقت آنے والا ہے۔
یہ بہت بڑی حقیقت ہے اور اب تو آشکار بھی ہوتی جا رہی ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ پورا ٹیکس نہیں دیتی اور نہ دینا چاہتی ہے حالانکہ ہمارے ملک میں ایسے ایسے بڑے صنعتی اور تجارتی ادارے اور لوگ موجود ہیں جو اتنا زیادہ منافع کماتے ہیں کہ سپر ٹیکس والی کیٹیگری میں شمار ہوتے ہیں۔ان حضرات سے سپر آمدنی سے کچھ مزید لینے کی کوشش ناکام ہو گئی کہ بجٹ میں چار فیصد شرح بڑھائی اور پھر یہ تجویز دباؤ کے تحت واپسی لینا پڑی، کیا ایسی خبریں بار بار نہیں آئیں کہ ان حضرات نے دہرے رجسٹر بنا رکھے ہیں۔ ایک ذاتی اور ایک ریونیو بورڈ کے لئے کہ ٹیکس بچایا جا سکے اور پھر اشرافیہ ہی اوور انوائسنگ اور اندر انوائسنگ کا دھندا کرتی ہے اور یہ اشرافیہ ہی ہے جن کی دولت ملک سے باہر بھی پڑی ہے اور وہ اسی انوائسنگ نظام کے تحت بیرونی ممالک میں جمع کرتے ہیں۔ یہ حضرات وہ ہیں جو خود اپنے ملک کو چھوڑ کر دوبئی اور بنگلہ دیش میں صنعتیں لگا اور کاروبار کر رہے، یہ حضرات امریکہ اور برطانیہ سمیت یورپی ممالک میں بھی حرکت پذیر ہیں،اور اب تو گرمیاں گزارنے کے لئے سوئٹزر لینڈ جیسے ممالک میں جاتے ہیں، آج تک ان کے خلاف تو کوئی کارروائی نہیں ہوئی، حالانکہ دعوے بہت کئے گئے اور کئے جاتے ہیں، اب تو لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ نے عالمی ساہو کار (آئی ایم ایف) سے مزید قرضے پر خوشی تو منائی ہے لیکن قوم کو یہ بھی تو بتا دیں کہ اب تک جو قرضہ ملک پر واجب ہو چکا اس کی ادائیگی کیسے ہو گی؟ کہ ابھی تک تو آپ سود کی اقساط جمع کرانے کے لئے قرض لیتے ہیں۔
میں تو صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ اللہ کا نام لیں نظام کو درست کریں اور جس طرح تنخواہ دار طبقے سے ان کی تنخواہ کی ادائیگی سے قبل ٹیکس کی رقم کٹوا لیتے ہیں۔ ایسا ہی کوئی آسان اور بہتر طریقہ اپنائیں، ورنہ ہم جیسے تو انتظار کرتے اور مرتے رہیں گے مگر اشرافیہ عیش کرے گی۔