حافظ نذر احمد: قرآن کا خاموش مبلغ (1)

حافظ نذر احمد: قرآن کا خاموش مبلغ (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app




برس بھر ہونے کو آیا، حافظ نذر احمد بھی راہیءملک بقا ہوئے۔ وہاں چلے گئے، جہاں جاتے تو سب ہیں، لیکن وہاں جانے کے بعد واپس کوئی نہیں آتا کہ آکر بتائے .... ”وہ کہاں گیا تھا؟ وہاں کیا دیکھا“؟
تقریباً نصف صدی پہلے کی بات ہے، برصغیر پاک و ہند کی عظیم روحانی شخصیت مولانا عبدالقادر رائے پوری لاہور تشریف لائے ہوئے تھے۔ ان کا قیام پرانے ریڈیو سٹیشن لاہور کے بالمقابل حاجی عبدالمتین صاحب کی کوٹھی میں تھا، جہاں پورے پاک و ہند سے ان کے متعلقین و متوسلین صبح سے لے کر شام تک موجود رہتے اور تہجد اور فجر کے وقت ذکر الٰہی کی مجلس، اورادو و ظائف، عظیم سماں کی کیفیت برپا رہتی۔ میرے والد مرحوم قاری محمد ظریفؒ کی تربیت کا خاص اثر تھا، جس نے میرے دل میں علماءکی محبت اور علماءکی صحبت سے فیض اٹھانے کا شوق بھر دیا تھا۔ مَیں حضرت رائے پوری کی خدمت میں حاضری ہی کے لئے لاہور آیا تھا۔ مغرب کے بعد کا وقت تھا۔ سٹیشن سے تانگے پر سوار ہوا، میرے ساتھ والی سیٹ پر حافظ نذر احمد پہلے سے تشریف فرما تھے۔ مَیں انہیں جانتا تو تھا، پہچانتا نہیں تھا اور وہ مجھے نہ تو جانتے تھے، نہ ہی پہچانتے تھے۔ مَیں نے ان کے ساتھ صالح بزرگ ہی کی حیثیت سے علیک سلیک کی۔ انہوں نے بڑی محبت دی۔ وہ بزرگ تھے، مَیں شعور کی ابتدائی عمر میں تھا۔ انہوں نے محبت سے نام وغیرہ پوچھا، بولے کہاں جانا ہے؟ مَیں نے عرض کی ”ریڈیو پاکستان“۔ حیرت سے بولے: ”اس وقت وہاں کیا کام ہے“؟ مَیں نے عرض کی: ”ریڈیو پاکستان کی عمارت کے سامنے مولانا عبدالقادر رائے پوریؒ قیام پذیر ہیں، مجھے ان کی خدمت میں جانا ہے“۔ بولے: ”کہاں رہتے ہو“؟ مَیں نے عرض کی: ”لائل پور“۔ تعجب سے پوچھا: ”لائل پور سے اسی مقصد کے لئے آئے ہو“؟ عرض کیا: ”جی“۔ میرے اسی جواب نے ان کے دل میں میری قربت کو بڑھا دیا، بہت خوش ہوئے۔ اچھی صحبت اور سلوک و طریقت کے حوالے سے کچھ اچھی باتیں کیں۔ دورانِ گفتگو میرے استاد پروفیسر افتخار چشتی کا تذکرہ بھی آیا تو میرے دل میں ان کی عزت اور بھی بڑھی اور ان کے دل میں میرے لئے محبت مزید بڑھی۔
حافظ نذر احمدؒ کا شمار ایسے خوش قسمت انسانوں میں ہوتا ہے، جن کو اللہ تعالیٰ حسنات میں اضافے کی غرض سے عمر طویل عطا کرتا ہے۔ ایسے لوگ اپنی طوالت عمری سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں اور ہر بڑھتے لمحے میں فاستبقواالخیرات کے قرآنی حکم پر عمل کرتے ہیں اور اسی طرح ان کی حسنات غالب اور سئیات محو ہوتی رہتی ہیں۔ اس طرح ان کی زندگی کا ہر گزرتا لمحہ ان کے لئے سرمایہ¿ آخرت کی نوید لاتا ہے.... آپ کی پیدائش 1919ءمیں ہوئی، جبکہ انتقال 2011ءمیں ہوا۔ آپ کے والد ماجد کا نام الحاج ضمیر احمد شیخ تھا، جو نگینہ کے رہنے والے تھے۔ نگینہ ہندوستان کے ضلع بجنور کا ایک قصبہ ہے، جو دینی مزاج کے حامل مسلمانوں کا علاقہ تھا۔ اس طرح آپ قرآن السعدین تھے۔ اسباب و وجوہات تو پردئہ اخفا میں ہیں، تاہم جب حافظ صاحب کی عمر 16 برس کے قریب ہوئی تو آپ نگینہ چھوڑ کر لاہور چلے آئے۔ یہ واقعہ 1935ءکا ہے، جبکہ پاکستان کی تشکیل 1947ءیعنی آپ کی ہجرت لاہور سے بارہ برس بعد عمل میں آئی۔ لاہور میں آپ نے گڑھی شاہو کے قریب محلہ محمد نگر میں سکونت اختیار کرلی۔ آخری وقت تک اسی گھر میں رہے۔ یہ چھوٹا سا گھر تھا، جو، اَب بھی ہے۔ آپ کی سلبی اولاد نے اسی گھر میں جنم لیا۔
حافظ صاحب کے تعلقات ملک کے بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ تھے، جن میں حکومت کے چوٹی کے عہدیداران بھی شامل ہیں۔ ہم نے آئی جی سے لے کر وزیر اعلیٰ تک کو ان کے سامنے سراپا عجز دیکھا اور حافظ نذر احمد کو سراپا متوکل اور باوقار پایا۔ نہ لالچ، نہ خواہش، بس خلوص و محبت اور البغض للّٰہ والحب للّٰہ کا مجسم پیکر۔ شہر کے پوش علاقے سمن آباد سے لے کر ماڈل ٹاو¿ن، گلبرگ تک سب آپ کے سامنے آباد ہوئے۔ آپ چاہتے تو اپنے ایک اشارے پر پوش کالونیوں میں بڑے سے بڑا قطع زمین حاصل کر سکتے تھے، لیکن قلندر جز دوحرفے لاالہ کچھ بھی نہیں رکھتا۔ آپ پون صدی محمد نگر کے چھوٹے سے پرانے گھر میں مکین رہے، حتیٰ کہ 3 ستمبر 2011ءآ گیا اور آپ کا جنازہ بھی محمد نگر کی اسی تنگ و تاریک گلی سے اٹھا، جس میں صغیر و کبیر سب شامل تھے۔ کسی کے لئے کوئی امتیاز نہ تھا۔ جنازہ اٹھاتے ہی اللہ نے بارانِ رحمت نازل کر دی۔ موسم خوشگوار ہو گیا، اللہ کی طرف سے یہ علامت، رحمت، بخشش و مغفرت اور توبہ کی تھی۔
برصغیر کے پرانے رواج اور طریقے کے مطابق تعلیم کا آغاز کلام الٰہی قرآن مجید سے ہوا۔ آپ کے ماموں حافظ نیاز احمد کا شمار علاقے کے جید اساتذئہ قرآن میں ہوتا تھا۔ آپ نے انہی سے قرآن مجید ناظرہ پڑھا، پھر حفظ کیا۔ ابتدائی کتب عربی، فارسی مدرسہ عربیہ قاسمیہ نگینہ میں پڑھیں۔ آپ کے استاد حافظ نیاز احمد نے کلام اللہ کے ساتھ محبت، عشق کی حد تک بھر دی تھی۔ یہ شوق اتنا بڑھا کہ علم تجوید و قرا¿ت کے حصول کی خاطر قاری محمد سلیمان دیوبندی کی خدمت میں لے گیا۔ قاری محمد سلیمان دیوبندی کا شمار برصغیر کے چوٹی کے اساتذہ قرا¿ت میں ہوتا ہے۔ حافظ صاحب کو علم تجوید و قرا¿ت کے ساتھ بڑا شغف تھا۔ اس حوالے سے ہر کوشش کو خوب پذیرائی بخشتے۔ راقم نے علم تجوید و قرا¿ت کے حوالے سے 1991ءمیں ماہنامہ التجوید جاری کیا تو بہت خوشی کا اظہار فرمایا۔ بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی۔ اظہار کے لئے الفاظ قاصر ہیں۔
حافظ نیاز احمد کا دیا ہوا یہی شوق تھا جس کی وجہ سے حافظ نیاز احمد نے آغاز میں آپ کے دل میں قرآن کی جوت جگا دی تھی۔ حافظ صاحب لاہور منتقل ہوئے تو یہی جاگی جوت آپ کو حضرت مولانا احمد علیؒ کی خدمت میں لے گئی۔ آپ مولانا کے حلقہ درس قرآن میں شریک ہوئے اور علوم قرآن کے مستور باطنی علوم سے آگاہی حاصل کی۔ اس سفر میں آپ کے استاد جناب علامہ علاو¿الدین صدیقی بھی تھے۔ اس طرح علامہ صاحب بیک وقت آپ کے ہم درس، ہم استاد بھی رہے۔ علامہ علاو¿الدین صدیقی صاحب خطبہ جمعہ مسجد شاہ چراغ میں ارشاد فرماتے تھے۔ حافظ صاحب چونکہ علامہ صاحب کے شاگرد بھی تھے، اس لئے جب کبھی کسی وجہ سے جمعہ میں تشریف نہ لاسکتے تو علامہ صاحب خطبہ جمعہ شاہ چراغ کی ذمہ داری حافظ نذر احمد کے سپرد کرکے جاتے تھے۔
حافظ نذر احمد محرک تھے اور متحرک بھی۔ ان کی متحرک مجموعی زندگی دوسروں کو متحرک کرنے کی تحریک دے جاتی کہ ان کو دیکھ کر قومی و فلاحی کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ نوجوان تحریک پکڑتے تھے اور فعال زندگی گزارنے کا داعیہ ان کو عملی میدان میں لاکھڑا کرتا۔ بہت سے لوگوں میں انہوں نے قلم پکڑنے کی اُمنگ پیدا کی۔ بہت سوں کو قلم کاری سکھائی۔ تھکے ہوئے قلمکاروں کی نوک پلک کو درست کیا، جس سے ان کے جوہر مزید سے مزید تر ہوتے چلے گئے اور انہوں نے مستقبل میں قلمکاری میں نام پیدا کیا۔ ان کی مجموعی زندگی کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ حافظ نذر احمد ایک آدمی نہیں تھے، بلکہ پوری اکادمی تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے قائم کردہ ادارے کا نام مسلم اکادمی رکھا، حالانکہ یہ اکادمی نہیں تھی، اس اکادمی کے پیچھے صرف ایک آدمی تھا، اس کا نام نذر احمد تھا۔ وہ اکیلا ہی اکادمی کا کام کرتا تھا۔
حافظ نذر احمد نے سن شعور میں قدم رکھا تو یہ برصغیر کا بڑا متلاطم دور تھا۔ صرف برصغیر ہی نہیں، بلکہ عالمی سطح پر یہ دور انتہائی مدوجزر کے حالات سے گزر رہا تھا۔ پہلی عالمی جنگ آپ کے سامنے تو نہیں، لیکن پیدائش سے چند ہی برس قبل ہوئی تھی، اس کے اثرات باقی تھے۔ اس جنگ کے تذکرے ابھی جوان تھے، آپ نے اپنے بڑوں سے اس کے واقعات کو سنا، ذہن متاثر ہوا، پھر دوسری جنگ عظیم تو اپنے سن شعور میں بچشم خود دیکھی اور یورپی استعمار کی چیرہ دستیوں کا خود مشاہدہ کیا۔ جب ہندوستان میں تحریک آزادی چل رہی تھی تو آپ نے اس کو دیکھا ہی نہیں، بلکہ ہر لحاظ سے اپنا حصہ بھی ڈالا۔ تشکیل پاکستان کے چند ہی برس بعد رد قادیانیت کی تحریک چلی۔ اس کے روح رواں برصغیر پاک و ہند کے عظیم لیڈر تحریک آزادی¿ ہند کے بڑے رہنما سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ تھے۔ حافظ نذر احمد نے اس تحریک کو بھی بہت قریب سے دیکھا۔ ان تمام تحریکوں کے قریبی مطالعے اور اکابرین سے قرب کی نسبت نے حافظ نذر احمد میں قومی اور ملی جذبات کو بہت جلا بخشی اور طبیعت میں قوم و ملک کے لئے کچھ کر گزرنے کا داعیہ بدرجہ اتم پیدا ہوا۔ آپ کے خیالات اور قومی خدمت کے جذبے کو زیادہ تقویت علامہ علاو¿ الدین صدیقی کے قرب سے حاصل ہوئی، کیونکہ علامہ صاحب آپ کے استاد تھے اور مسلم لیگ کے بڑے حامی بھی تھے۔ انہوں نے سیاست میں عملی حصہ بھی لیا تھا۔   (جاری ہے)  ٭

مزید :

کالم -