شہہ رگ سے بھی قریب ہے ۔۔کشمیر

شہہ رگ سے بھی قریب ہے ۔۔کشمیر
شہہ رگ سے بھی قریب ہے ۔۔کشمیر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وادی کشمیر پہاڑوں کے دامن میں کئی دریاؤں سے زرخیز ہونے والی سرزمین ۔ یہ اپنے قدرتی حسن کے باعث زمین پر جنت تصور کی جاتی ہے۔ دنیا کے خطرناک ترین علاقائی تنازعات میں سے کشمیر کا مسئلہ سب سے بڑا ہے  جس نے دو جوہری توانائیوں بھارت اور پاکستان کو آمنے سامنے لا کھڑ اکیا ہے۔ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان میں تنازعے کی اہم ترین وجہ ہے اور ان دونوں ممالک  کشمیر پر تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ لیکن نتیجہ بے سود۔۔۔
سولہ مارچ 1846ء کو پنجابی سکھوں سے جب گلاب سنگھ نے غداری کی اور انھیں شکست کا سامنہ کرنا پڑا تو  تاوان کے طور پر وادی کشمیر گلگت وغیرہ سمیت کئی علاقے انگریزوں  کو دینے پڑے۔ ایسے میں غدار مہاراجا گلاب سنگھ جس کا انگریز سے گٹھ جوڑ تھا کشمیر حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا انگریز نے گلاب سنگھ کی وفاداری کے بدلے 75لاکھ نانک شاھی میں کشمیریوں کو اس کے ہاتھ بیچ دیا اور معائدہ امرتسر کے تحت جدید ریاست جموں کشمیر کی بنیاد رکھی 
آزاد کشمیر کا 13،350 مربع کلومیٹر (5134 مربع میل) پر پھیلا ہوا ہے جہاں کی عوام محاصرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور کسی قسم کی سہولیات زندگی میسر نہیں صحت، تعلیم اور روزگار کے مواقع نا پید ہیں لوگ بیرون ملک جا کر محنت مزدوری کرتے ہیں جس طرح مقبوضہ کشمیر میں برائے نام اسمبلی موجود ہے اسی طرح ایک برائے نام اسمبلی آزادکشمیر میں   بھی  موجود ہے۔آزاد کشمیر كى 98 فيصد آبادی اور شمالی علاقہ جات کی سو فیصد آبادی مسلمان ہے 
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھارتی ذرائع کے مطابق 80 فیصد آبادی مسلمان ہے (2001ء)۔ بقیہ آبادی بدھ، ہندو، سکھ، مرزايت اور دیگرمزاھب پر مشتمل ہے۔
9 اگست 1955میں رائے شماری محاذ قائم کیا گیا جس نے شیخ عبداللہ کی رہائی اور اقوام ِ متحدہ کی زیر نگرانی کشمیر میں رائے شماری کا مطالبہ کیا۔26 جنوری 1957میں ریاستی اسمبلی نے جموں و کشمیر کا آئین نافذ کیا جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی یونین کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔20 اکتوبر تا 20 نومبر 1962میں لداخ میں بھارت اور چین کے مابین ایک سرحدی تنازعے نے جنگ کی شکل اختیار کر لی جس کے نتیجے میں لداخ کے ایک بڑے علاقے پر چین قابض ہو گیا۔
مارچ 1965میں بھارتی پارلیمنٹ نے ایک بل پاس کیا جس کے تحت کشمیر کو بھارت کو صوبہ قرار دیتے ہوئے بھارت کو وہاں گورنر تعینات کرنے، کشمیر میں حکومت کو برطرف کرنے اور اسے آئین سازی سے روکنے کے اختیار حاصل ہو گئے 
1974میں شیخ عبداللہ کو رہا کر کے اسے بطور وزیر اعلی ٰ بحال کر دیا گیا ۔جبکہ اس کے نائب وزیر اعلیٰ نے بھارت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کر دیئے جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر بھارت کاآئینی حصہ ہو گا اس طرح وہ 1953 میں اپنے خود مختاری کے دعوے سے پھر گئے ۔1982میں شیخ عبداللہ انتقال کر گئے جس کے بعد ان کے بیٹے فاروق عبداللہ نے قیادت سنبھال لی ۔
جون 1984 میں  بھارت کے تعینات کردہ گورنر اور ہندو قوم پرست رہنما جگموہن نے فاروق عبداللہ کو معطل کر کے نیشنل کانفرنس کے غلام محمد شاہ کو وزیراعلیٰ نامزد کر دیا جس سے کشمیر میں مظاہرے پھوٹ پڑے جس پر غلام محمد شاہ نے کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا ۔1990میں بغاوت جاری رہی ۔پاکستان سے بڑی تعداد میں مجاہدین وادی میں داخل ہو گئے ۔ جنوری 1990میں جگموہن سنگھ کو گورنر تعینات کرنے کے اگلے روز بھارتی پیرا ملٹری ریزرو پولیس فورس نے گوکدل میں نہتے مظاہرین جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے ان پر گولی چلا دی ا س قتل عام کے خلاف پورے کشمیر میں پر تشدد مظاہرے پھوٹ پڑے ۔ مارچ 1990میں سری نگر میں اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ کے دفتر کے سامنے پانچ لاکھ سے زائد کشمیریوں نے مارچ کیا جس پر بھارتی فوج نے مظاہرین پر دو مقامات پر فائرنگ کر دی  جس کے نتیجے میں ذکورا کراسنگ میں 26 اور تنگ پورہ بائی پاس پر 21 شہری مارے گئے ۔

1993میں بھارتی بارڈر سیکورٹی پولیس نے عسکریت پسندوں کے ایک حملے کا بدلہ لینے کے لیے سوپور میں 55 شہریوں کو ہلاک کر دیا۔2001میں کشمیر اسمبلی سری نگر پر حملے کے نتیجے میں 38 افراد ہلاک ، کئی  خواتین کی عزت پامال کر کے ان کو شہید کر دیا گیا ۔2010میں17 سالہ ظفیل احمدمٹو جو سکول سے گھر آ رہا تھا اس وقت ہلاک ہو گیا جب آنسو گیس کا ایک شیل اس کے قریب آ کر سر پر مارا گیا ۔اس کے نتیجے میں بھی مظاہرے پھوٹ پڑے جس سے نمٹنے کے کئے کرفیو لگا کر سینکڑوں کشمیریوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ اگست 2011میں وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ان 1200 نوجوانوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جو کہ گزشتہ سال حکومت کے خلاف مظاہروں میں سیکورٹی فورسز پر پتھر پھینکنے میں ملوث تھے ۔

بھارت کے ریاستی ہیومن رائٹس کمیشن نے لائن آف کنٹرول کے قریب ایسی اجتماعی قبروں کی نشاندہی کی جہاں 2000 کے قریب نامعلوم لوگ دفنائے گئے تھے خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں وہ کارکن بھی شامل تھے جنہیں بھارتی فوجوں نے گرفتار کر رکھا تھا یا جنہیں غائب کر دیا گیا تھا۔1989 سے اب تک ایک لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جا چکے تھے ۔ جولائی 2016میں حزب المجاہدین کے سرکردہ کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں کشمیر میں کرفیو لگا دیا گیا۔ اگست 2016میں وادی میں جاری 50 روزہ کرفیو میں نرمی کی گئی ۔ ان کی ہلاکت کے بعد وادی میں مظاہروں اور تشدد کی لہر کے نتیجے میں 68 شہری ہلاک اور تقریباً 9000 لوگ زخمی ہوئے۔

کشمیر کی وادی کتنے ہی معصوم نوجوانوں کے خون سے تر ہے لیکن ابھی تک پیاسی ہے ناجانے کتنے برہان وانی اپنی جا ن کا نظرانہ دے کر بھی  مقبوضہ کشمیر کو آزاد نہیں کروا سکی ۔تاریخ ہر روز خود کو دہراتی ہے لیکن حاصل کچھ بھی نہیں۔۔

۔

نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -