پیپلزپارٹی کا المیہ اور صدر زرداری کی مجبوری!

  پیپلزپارٹی کا المیہ اور صدر زرداری کی مجبوری!
  پیپلزپارٹی کا المیہ اور صدر زرداری کی مجبوری!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 صدر آصف علی زرداری اصولی طور پر صدارتی حلف کے بعد غیر جماعتی ہو چکے لیکن ابھی تک یہ نہیں دیکھا گیا کہ انہوں نے پیپلزپارٹی (پارلیمنٹیرین) کی چیئرمین شپ چھوڑ دی ہو، تاہم غیر محسوس طور پر وہ سیاسی اور جماعتی سرگرمیوں سے ذرا دور رہے اور بلاول بھٹو کو یہ موقع ملتا رہا کہ وہ تھوڑا کھل کر بات کریں اور وہ کرتے بھی رہے بلکہ کررہے ہیں کہ آج کل وہ لندن میں ہیں، وہاں انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں خطاب بھی کئے اور بہت سی سچی اور کھری باتیں کیں۔ ادھر محترم آصف علی زرداری کو بھی پنجاب پارلیمانی پارٹی سے ملنے کا خیال آ گیا یا پھر گورنر پنجاب سلیم حیدر نے پنجاب میں پارٹی کی حیثیت کے حوالے سے بات کرکے ملاقات پر آمادہ کیا اور وہ دو روز کے لئے لاہور آئے تو گورنر ہاؤس میں پنجاب پارلیمانی پارٹی کے اراکین اور سینئر پارٹی رہنماؤں نے ان کے ساتھ الگ الگ گفتگو کی۔ یہ بات چیت گورنر کی موجودگی میں ہوئی اور اراکین اسمبلی نے اپنے دکھڑے روئے، ان میں زیادہ شکوہ ترقیاتی فنڈز اور سرکاری عمال کی طرف سے سرد مہری کا تھا، ان اراکین نے یہ شکوہ کیا کہ نہ صرف ان کے انتخابی حلقوں میں کام نہیں ہوتے بلکہ مسلم لیگ (ن) سے متعلق لوگ ان کے حلقوں میں بھی کام کروا رہے ہیں، دوسری طرف جنوبی پنجاب پیپلزپارٹی کے صدر اور سابق گورنر مخدوم احمد محمود نے صدر آصف علی زرداری کے اعزاز میں عشائیہ دیا مخدوم ہاؤس میں جماعتی رہنما جمع ہوئے اور یہاں ملکی سیاست پر بھی بات ہوئی۔

اب ان اجلاسوں کی جو  اندرونی کہانی میڈیا کے ذریعے سامنے آئی وہ یہ تھی کہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ پاور شیئرنگ کے حوالے سے جو تحریری معاہدہ ہوا، اس پر عمل نہیں ہو رہا، خود آصف علی زرداری نے بھی اعتراف کیا میڈیا کے مطابق آصف زردری نے اراکین اسمبلی کو تو صبر کی تلقین کی اور اپنے بارے میں کہا کہ وہ مجبور ہیں، بہرحال یہ حوصلہ ضرور دیا کہ اراکین ذرا صبرکریں اور بجٹ کا موقع آنے دیں۔ آصف علی زرداری نے اس کے ساتھ ہی پنجاب والوں سے کہا کہ وہ بلدیاتی انتخابات کی تیاری کریں جو اصولاً جلد ہونا چاہئیں۔

یہ تو وہ سب ہے جو میڈیا کے ذریعے میرے سمیت قارئین تک آ چکا، تاہم مخدوم احمد محمود کی رہائش پر چند بڑوں میں جو گفتگو ہوئی وہ بڑی معنی خیز تھی اس سے اندازہ ہوا کہ اکابرین مسلم لیگ (ن)  حکومت کے حالیہ رویے سے پریشان ہیں کہ حکومت کی طرف سے اب ان کے نخرے برداشت کرنے کا عمل تعطل کا شکار ہے۔ کہاں ناراضی پر وزیراعظم ملاقات کے لئے دعوت دیتے یا خود چلے آتے اور کہاں یہ صورت حال ہے کہ وزیراعظم نے بھی ایک کمیٹی بنا دی جس کے ذمہ پی پی کے تحفظات سن کر دور کرانا ہے تاہم پنجاب کے لئے جو کمیٹی بنائی گئی تھی اس کی کارکردگی سے خود گورنر مایوس ہیں کہ عمل کی طرف کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ دوسری طرف نوبت یہ ہے کہ صدر زرداری لاہور آئے تو ہوائی اڈے پر گورنر پنجاب اور حکام نے ان کا استقبال کیا، مسلم لیگ (ن) کی طرف سے وزیراعلیٰ تو کجا کوئی صوبائی وزیر بھی موجود نہیں تھا، ایسا احساس پایا جا رہا ہے کہ حالات حاضرہ میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جو تعاون پایا جا رہا ہے وہ ہر امر پر حاوی ہے اور آصف علی زرداری نے جو مجبوری بیان کی وہ بھی یہی ہے۔ دوسری طرف سنٹرل پنجاب میں سینئر نائب صدر کی وجہ سے جو سرگرمیاں تھیں وہ بھی ماند پڑچکی ہیں اور کارکنوں کی سطح سے اوپر تک بے تعلقی پائی جا رہی ہے۔ تنظیمی طور پر کوئی کام نہیں ہو رہا، اس سلسلے میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ خود اعلیٰ قیادت، آصف زردری، بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو تک بھی پنجاب میں تنظیمی امور کا جائزہ نہیں لیتے، اب تک تنظیم کے حوالے سے کوئی کام نظر نہیں آ رہا، بقول زرداری صاحب اگر بلدیاتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں توپیپلزپارٹی کم از کم سنٹرل پنجاب میں بالکل تیار نہیں ہے کہ یہاں تو پورا تنظیمی ڈھانچہ ہی موجود نہیں، سینئر اور پرانے جیالے بھی مایوس ہیں جو سرگرمی گزشتہ دنوں نظر ائی وہ بھی پیپلزسٹوڈنٹس فیڈریشن کی سطح پر انفرادی کوششوں سے ہوئی، سابق فیڈرل کونسل کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ موجودہ صورت حال میں پیپلزپارٹی پنجاب کوئی بڑا مظاہرہ یا جلسہ بھی کرنے کی اہل نہیں رہی او ریہ حقیقت چھپی تو نہیں رہ سکتی۔ اس کے علاوہ خود آصف علی زرداری کا ”تعاون“ ہے جو جماعت کو اس موڑ پر لے آیا ہے۔ ایک سابق اور پکے جیالے عہدیدار کا کہنا ہے کہ قیادت کو پنجاب کی فکر نہیں، ایک سے زیادہ بار کہا گیا کہ سینئر اور ناراض اراکین کو بھی بلایا جائے گا اور ان کے تحفظات سے آگاہی حاصل کرکے اصلاح کی جائے گی، لیکن یہ بیل بھی منڈھے نہیں چڑھی۔آصف علی زرداری بھی کوئی زیادہ تسلی دلا کر نہیں گئے۔

ان حالات میں غور کیا جائے تو پیپلزپارٹی اور حکومت کے درمیان ایسی سردمہری ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال کے حوالے سے بھی بہتر نہیں کہ سرکار کی طرف سے اپوزیشن کو جگہ نہیں دی جا رہی اور تحریک انصاف انفرادی رہنماؤں کا تعاون حاصل کرنے میں کامیاب نظر آ رہی ہے۔ مصطفی نواز کھوکھر کے بعد سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی متحرک ہو گئے اور اب سردار مہتاب عباسی بھی نظر آ گئے ہیں جو مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے خفا ہو کر بیٹھے تھے،وہ گزشتہ روز اپوزیشن کانفرنس میں نظر آئے۔

حالات سے بظاہر یہ احساس ہوتا ہے کہ معیشت کی بحالی کے حوالے سے حزب اقتدار کی کوششیں جو رنگ لا رہی ہیں اور جو مکمل ترین تعاون پایا جا رہا ہے اس کی طرف سے مسلم لیگ (ن) کو کوئی خطرہ نہیں اور وزیراعظم بھی مطمئن ہیں۔ ایک اندازہ یہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سینیٹ کے چیئرمین یوسف رضا گیلانی اجلاس کی صدارت نہیں کر رہے، ان کا احتجاج ہے کہ چودھری اعجاز کی حاضری کے لئے جو پروڈکشن آرڈر جاری ہوئے ان پر عمل نہیں ہوا اور انتظامیہ ان کو اجلاس میں نہیں لائی۔ یوسف رضا گیلانی کے مطابق ان کے پروڈکشن آرڈر پر عمل ہوگا تو وہ صدارت بھی کرلیں گے، ان کے اس احتجاج کی بھی پرواہ نہیں کی گئی اور کسی نے نہیں پوچھا، اب عرفان صدیقی سامنے آئے اور انہوں نے کہا ہے کہ وہ پیپلزپارٹی سے رابطہ کریں گے۔

بظاہر یہ صورت حال ناخوشگوار ہے، تاہم مسلم لیگ (ن) کے قائدین اور رہنما مطمئن ہیں کہ ”کیا کرے گا قاضی“۔ اب پیپلزپارٹی کے ایک انتہائی باخبر رہنما نے میرے ایک سوال کے جواب میں کہا تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو، ان کے مطابق مسلم لیگ(ن) کو اپنا رویہ بدلنا ہوگا ورنہ خود حکومت اور ملک کے لئے بہتر نہیں ہوگا۔

اس سلسلے میں ایک معتبر(جوبڑے قانون دان ہیں) کا کہنا ہے کہ پارٹی کی بہتری کے لئے کئی فیصلے ہوئے، عمل نہ ہوا، پی پی(پارلیمنٹیرین) اور پیپلزپارٹی کو آپس میں ضم کرکے ایک ہی جماعت رکھنے کا فیصلہ اور قانونی الجھنیں دور کرنے کے لئے ہدف بھی دیا گیا، ابھی تک اس حوالے سے مزید خبر نہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ آصف علی زرداری بدستور چیئرمین ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -