کیا گورنری پشتون قوم کا حق نہیں ہے؟

بلوچستان کی سیاست کافی نشیب وفراز سے گزرتی چلی جارہی ہے اور ابھی وہ کسی خاص مقام پر نہیں ٹھہری ہے جس سمت اس کا سفر جاری ہے۔ یہ ایک تاریخی تلخ حقیقت ہے کہ موجودہ صوبے میں پشتون اور بلوچ دو بڑی قومیں آباد ہیں اور دونوں تاریخی طور پر اپنی اپنی آبائی سرزمین پر رہائش پذیر ہیں۔ 1947ء سے قبل بھی دونوں قومیں تاریخی طور پر اپنی جگہ موجود تھیں۔ گندھامک معاہدہ اور ڈیورنڈ لائن کے بعد اس کا جغرافیہ تبدیل ہوگیا۔ برطانوی راج میں بلوچ ریاستیں انگریز کی باجگزار بن گئی تھیں اوربرٹش بلوچستان کے نام سے پشتون اور بعض بلوچ علاقے اس کا حصہ بنادیئے گئے یہ تقسیم غیر فطری تھی۔ پاکستان بننے سے قبل بلوچ ریاستیں نیم خودمختار ریاستیں تھیں پھر برطانیہ نے اس خودمختاری کو بھی ختم کردیا۔خان میر احمدیار خان برطانیہ کی اتنی بڑی قوت سے نہیں لڑسکتا تھا اس لئے کچھ حصہ برطانیہ کے حوالے کردیا اور برطانیہ نے خان قلات کو اعزازی کیپٹن کا عہدہ بھی دے دیا۔ باقی بلوچ سرداروں نوابوں کو بشمول پشتون کے برطانیہ کے شاہی جرگہ کا ممبر بنادیا اور ان کے لئے معمولی اعزازیہ بھی متعین کردیا گیا اور یہ سب معتبر بخوشی اعزازیہ ہر ماہ وصول کرتے تھے پاکستان بننے کے کچھ عرصہ بعد بلوچ ریاستوں کی حیثیت ختم کردی گئی اور وہ سب قلات ڈویژن کے ایک کمشنر کے ماتحت کردیئے گئے اور باقی حصے کو کوئٹہ ڈویژن کے تحت کردیا گیا۔ یہ سلسلہ تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ موجودرہا۔ 1969ء میں جنرل یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضہ کرکے ملک کا دورہ شروع کیا۔ وہ کچھ نئے صوبے بنانا چاہتے تھے عوام سے ملاقاتیں کی گئیں۔ تمام طبقات سے یہ سلسلہ جاری رہا اور بالاخر مارشل لاء آرڈر کے ذریعے ون یونٹ کو ختم کردیا گیا اور انتخابات کے لئے (ون مین ون ووٹ) کا فارمولہ طے ہوگیا۔
1969ء سے پہلے پاکستان کے نقشے پر بلوچستان کے نام سے کوئی صوبہ وجود نہیں رکھتا تھا۔ قلات‘ خاران‘ مکران اور لسبیلہ کی ریاستیں موجود تھیں اور خان قلات کو ان پر بالادستی حاصل تھی ایک لحاظ سے بلوچ کنفیڈریشن تھی اور پشتون علاقے پوری تاریخ میں ان ریاستوں کا نہ حصہ تھے اور نہ اس کے ماتحت تھے۔ جب ون یونٹ کو ختم کیا جارہا تھا تو خان عبدالصمد خان کا موقف تھا کہ جو صوبہ تشکیل دیا جارہا ہے وہ تاریخی اور جغرافیائی طور پر غلط بنایا جارہا ہے ان کا موقف تھا کہ ہم کبھی نہ تو بلوچ ریاستوں کے ماتحت تھے اور نہ ان کے باجگزار تھے اس لئے ہماری علیحدہ حیثیت کا تعین کیا جائے اور ہمیں صوبہ سرحد(اس وقت یہی نام تھا) کے ساتھ ملادیا جائے۔ اس موقف میں خان شہید اکیلے شخص تھے۔ نیپ کی تمام پشتون اور بلوچ قیادت اس موقف کی حامی نہ تھی اس لئے خان شہید کی آواز نقار خانے میں طوطی کی سی تھی۔ اس وقت تک خان شہید نیپ میں تھے اور عمر کا ایک طویل خوبصورت حصہ نیپ میں ہوتے ہوئے جیل کی نذر کیا۔ مارشل لاء کے بطن سے وجود میں آنے والے صوبے نے ولی خان اور خان عبدالصمد خان کی راہیں جدا کردیں اور دونوں مختلف سمتوں میں سیاسی سفر کرنے لگے۔اس وقت ولی خان، خان شہید کے موقف کو تسلیم کرلیتے تو آج کا بلوچستان مختلف شکل میں موجود ہو تا اور وہ کشمکش جو آج ان کے درمیان ہے موجود نہ ہوتی۔
خان ولی خان کے بعد جب دستور میں تبدیلی کا مرحلہ آیا تو اسفند یار ولی نے جنوبی پشتونخوا کے پشتونوں کے تاریخی موقف کوایک بار پھر نظرانداز کردیا اور ترمیم کے ذریعے صوبہ سرحد کو ایک طویل عرصہ کی کشمکش اور نفرت کے بعد صوبہ خیبرپختونخوا تسلیم کرلیا نام رکھنے میں 60 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا یعنی ایک قوم جس کی زبان تہذیب تمدن تاریخ روایات رسم ورواج مختلف تھی اور نسل مختلف تھی اس کو پنجاب کی اسٹیبلشمنٹ نام دینے کو تیار نہ تھی آج بالکل ویسا ہی نقشہ بلوچستان میں نظر آرہا ہے ۔آج جنوبی پشتونخوا کا نعرہ کچھ لوگوں کے نزدیک طنز کا باعث بن گیا ہے اور پشتون گورنر کا وجود ان کے لئے مشکل کا باعث بن گیا ہے اور انتخابات میں پشتونخوا اور نیشنل پارٹی کی جیت ان کے لئے حیرت کا سبب بن گئی ہے۔ نیشنل پارٹی نے بی این پی کو انتخابات میں ہری جھنڈی دکھادی اختر مینگل ایک طویل عرصے سے عرب ریاست میں موجود تھے اور نیشنل پارٹی میدان میں تھی تو نتیجہ صاف ظاہر تھا کہ کیا نکلتا۔ میدان خالی ہوتو کیا کیا جاسکتا ہے۔ اب وہ بھی پریشان ہیں اور دونوں کو طعنہ دے رہے ہیں اور جب وہ وزیراعلیٰ تھے تو ان کی قربت اور محبت نوازشریف کے ساتھ تو بہت زیادہ تھی اور ایٹمی دھماکہ میں ان کے ساتھ پہاڑ کے دامن میں تصویریں بنائی تھیں۔ قوم پرستوں کو ذہن میں ایک بات ہمیشہ رکھنا ہوگی کہ وفاق میں جس بھی پارٹی کی حکومت ہو اس کو اس کے سائے میں چلنا ہوگا اس کے سوا دوسرا کوئی راستہ موجود ہی نہیں ہے۔
نیشنل پارٹی اور پشتونخوا پارٹی کا ملاپ صوبہ کے لئے ہر پہلو سے خوشگوار ہے اور اس کے نتائج مثبت نکلے ہیں وہ نفرت اور کشمکش جوا نتخابات اور دیگر مواقع پر پشتون بلوچ کے درمیان پیدا ہوتی رہتی تھی وہ کافی حد تک ختم ہوگئی اور گورنر ہاؤس کے خوبصورت سبزہ زار پر بلوچ قوم پرست جوان رہنما پشتون گورنر سے حلف لے رہے تھے اور ان کے اوپر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا رہا تھا پشتون بلوچ قوموں کا یہ اتحاد بہت سے طبقوں کو ناگوار گزرا ہوگا اس اتحاد کے کئی مثبت نتائج نکلیں گے ورنہ اسٹیبلشمنٹ ان کے تضادات کو ابھارکر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرتی رہی ہے اب وہ ختم ہوگیا ہے تو جناب اختر مینگل ان مسئلوں کو ہوادے رہے تھے جو کسی حد تک ختم ہوگئے۔
موجودہ صوبہ میں پشتون قوم ایک قوت کے ساتھ بلوچوں کے ساتھ برادری اور برابری کے رشتوں میں بندھی ہوئی ہے، اس کے لئے گورنر بننا ان کی اخلاقی تاریخی حیثیت سے مقام رکھتا ہے اور گورنر ہاؤس میں خان شہید کا فرزند گورنر کے عہدہ پر جلوہ فگن ہے تو یہ سب کے لئے باعث اعزاز ہے اس پر طنز کرنا ایک غیر سیاسی عمل ہے۔
قارئین محترم:۔ جناب اختر مینگل کا یہ کہنا کہ نواز شریف حکومت سے گورنر اور وزارتوں کے انبارلگانے کے بعد جنوبی پشتونخوا کے حصول کا ٹھیلہ زرغون روڈ پر کسی کونے میں کھڑا ہے اور فرماتے ہیں کہ میں ایک سوال کرتا ہوں۔ احتجاجی جلسوں ریلیوں میں جس جنوبی پشتونخوا کی حصول کی بات کی جاتی تھی آج وہ نعرہ کہاں ہے‘‘
ان کی یہ تقریر کسی سنجیدہ سیاست دان کی نہیں لگتی بلوچستان پہلے ہی بے شمار مسائل کا شکار ہے وہ چاہتے ہیں کہ جو ہم آہنگی پشتون بلوچ سیاست میں پیدا ہوئی ہے ان کے لئے مشکلات کا سبب بن گئی ہے وہ ان نفرتوں اور کشمکش کو دوبارہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ جہاں تک جنوبی پشتونخوا کی بات ہے تو جب ایک قوم فیصلہ کرے گی تو پھر اس کو کون روک سکتاہے اپنی جغرافیائی اور تاریخی حدود میں اپنے وجود کو جنم دینا ایک قوم کا حق ہے اس کو کون روک سکتا ہے یا روک سکے گا۔ لیکن جب تک پشتون بلوچ موجودہ حدود میں رہیں گے تو گورنری ان کا حق ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ایک اور پہلو پر بھی فیصلہ ہونا چاہیے کہ پشتون وزیراعلی ہو تو بلوچ گورنر ہو۔صرف گورنری تک پشتون قوم کیوں محدود ہو پشتون وزیراعلیٰ کیوں نہیں؟
جس طرح صوبہ سرحد کو نام حاصل کرنے میں 60 سال سے زیادہ کا عرصہ لگا جنوبی پشتونخوا کے وجود کے آنے میں شاید زیادہ دیر نہ لگے اوراس پر پریشان اور ناراض ہونے کی بات کیوں جبکہ دونوں قوموں کے زعماء تسلیم کرتے ہیں کہ پشتون اور بلوچ دونوں اپنی سرزمین پر آباد ہیں تو اپنی سرزمین کو اپنی مرضی کا نام حاصل کرنے میں پریشانی کیوں؟