گالیاں بکنے والے سیاستدان اور حضرت پیر کرم شاہ الازہریؒ کا فلسفہ
مجھے اپنی صحافتی زندگی میں بہت سی اہم شخصیات سے ملنے کا موقع ملا ہے ۔میں اسکو اپنی سعادت سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی وہ اہم ترین مذہبی اورغیر مذہبی شخصیات جنہیں آج ہم اپنے مشاہیر کا درجہ دیتے ہیں ،ان میں سے بہت سی شخصیات سے مجھے ملاقاتوں کاشرف نصیب ہوا اور ان کی محفل میں بیٹھ کر ان سے بات چیت کرکے ان سے علمی وفکری فیض بھی حاصل کرنے کا موقع ملا ۔میں آپ سے گاہے گاہے یہاں ان شخصیات کے یادگاری واقعات بیان کروں گاتاکہ ان کردار ساز شخصیات کی قائدانہ خوبیوں سے آپ کو بھی آگاہی حاصل ہو ،
آج مجھے ایک ایسے وقت کہ جب وطن عزیز میں گالم گلوچ کی سیاست کا رواج اپنے عروج پر ہے مجھے ضیا الامت حضرت پیر سید کرم شاہ الازہری ؒ بہت یاد آرہے ہیں ۔ضیا الامت حضرت پیر سید کرم شاہ الازہری ؒ وہی شخصیت ہیں جو پاکستان کی پہلی وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس بھی رہے ،جامعۃ الازہر سے تعلیم حاصل کرنے والے وہ واحد بریلوی مسلک کی نابغہ روزگار شخصیت تھے جنہوں نے پیری اور فقیری کو عین شریعت کے مطابق اختیار کرنے کے لئے اہل سلوک کو تربیت دی اور بھیرہ شریف میں جامعہ محمدیہ غوثیہ کی بنیاد رکھی اور اسکی پنجاب کے کئی شہروں میں بھی شاخیں کھولیں اور بچوں اور بڑوں کو دینی تعلیم کے جدید اور تحقیقی اسلوب سے روشناس کرایا ۔
مجھے آج ضیا الامت حضرت پیر سید کرم شاہ الازہری ؒ کیوں یاد آرہے ہیں ؟
ٹی وی اور سوشل میڈیا پر جسطرح سے ہمارے قانون ساز اسمبلیوں میں بیٹھے سیاستدان سر عام ایک دوسرے کو کتا بلا ،بدمعاش اور ہر طرح کی گندی گالیوں سے پکاررہے ہیں ،ایسے لوگوں کے بارے میں ایک بارمیں نے ضیا الامت حضرت پیر سید کرم شاہ الازہری کو اہل سیاست کے کردار پر بات کرتے سنا تھا ۔آپؒ نے کہا تھا کہ سیاست عبادت ہے اور پاکستان اللہ اور نبی ﷺ کا اس خطے کے عوام کے لئے خاص تحفہ ہے ،جو سیاستدان پاکستان سے محبت کرتا ہے وہ کردار اور گفتار میں انتہائی پاکیزہ ہوگا ،گندے لوگ گالی دیتے ہیں اور سیاست دان اگر گالیاں دیں تو جان لیں وہ پاکستان سے محبت نہیں کرتے ۔
میں جب میٹرک میں تھا تو ان دنوں پیر صاحب سے غائبانہ طور پر متعارف ہواتھااور میری خواہش تھی کہ میں بھیرہ شریف میں انکی جامعہ میں تعلیم حاصل کروں ۔اس سلسلے میں جامعہ کا دورہ بھی کیا ۔میرے عزیز دوست جامعہ میں پڑھتے تھے اور وہ پیر صاحب کی شخصیت سے بے حد متاثر تھے ۔مجھے خطوط لکھتے اور پیر صاحب سے اپنی ملاقاتوں کا احوال لکھتے ۔وہ بتایا کرتے تھے کہ پیر صاحب خاص طور پر کردار سازی پر توجہ دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ آنے والے وقت میں تمہیں ہی راہبر بننا ہے اس لئے حق و صداقت کے میدان میں جب کھڑے ہو جاؤ تواپنے زبان و بیاں پر قابو رکھنا ۔اسکی وہ خود بھی بہترین مثال تھے کہ طالب علموں کو نہایت ادب سے مخاطب کرتے تھے ۔
میری تمناتھی کبھی پیر صاحب سے ملاقات ہواور نیاز مندی حاصل کروں ۔انیس سو اکانوے میں جب میں ادارہ نوائے وقت کے ساتھ منسلک ہوا تولاہور میں پیر صاحب سے ملاقات ہوئی ،ان سے خاص طور اپنے لئے دعا بھی کرائی اور ان کی گفتگو بھی سنی۔ گالیاں بکنے والے سیاستدانوں کو دیکھ کر مجھے ضیا الامت حضرت پیر سید کرم شاہ الازہری کا وہی جملہ ،اور فہم و فراست سے بھری باتیں یاد آگئی ہیں جو اس محفل میں ہوئی تھیں ۔آج میں بھی پوری قوم کی طرح میں بھی یہ سوال اٹھانے پر مجبور ہواہوں کہ کیا گالیاں بکنے والے لیڈر صادق اور امین ہوسکتے ہیں،کیا یہ کرداراور گفتار کے غازی ہیں ۔کیا ان کو پاکستان اور اپنی قوم سے محبت ہوسکتی ہے ؟ یہ تو قوم اور ملک کا بیڑہ غرق کرنے والے وہ بدخصلت لوگ ہیں جو ایک اسلامی جمہوریہ مملکت کا تشخص برباد کررہے ہیں ۔خدا سے دعا ہے کہ اس ملک اور قوم کو ایسے فضول سیاستدانوں سے محفوظ فرمائے جو اسلام کو بھی بدنام کررہے ہیں ۔اور اللہ پھر سے اس قوم میں کوئی ضیا الامت پیدا فرمائے جو اسلامی تعلیمات کی مدد سے اہل سیاست کی کردار سازی کرسکے ۔
۔
یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے