ازدواجی حسن کے دشمن عناصر
ایک بادشاہ بہت انصاف پسند اور لوگوں کے دکھ درد بانٹنے والا تھا مگر جسمانی طور پر ایک ٹانگ سے لنگڑا اور ایک آنکھ سے کانا تھا۔ ایک دن بادشاہ نے اپنی مملکت کے ماہر مصوروں کو اپنی تصویر بنانے کے لیے محل میں بلوایا اور شرط رکھی کہ اس کے یہ جسمانی عیوب دکھائی نہ دیں۔سارے مصور حیران و پریشاں تھے کہ جو عیوب واضح ہیں ، ایک آنکھ سے کانا ہے ،ایک ٹانگ سے لنگڑا ہے تو کس طرح ان عیوب کو نظر انداز کر کے تصویر بنائیں۔ سب نے معذرت کی لیکن ان مصوروں میں سے ایک فطین مصور موجود تھا اور بادشاہ سلامت سے عرض کی کہ وہ تصویر بنائے گا اور عیوب بھی نظر نہیں آئیں گے۔
جب تصویر تیار ہوئی تو اپنی خوبصورتی میں ایک مثال اور ایک شاہکار تھی۔ تصویر میں بادشاہ کو شکار کرتے دکھایا گیا تھا جس میں اس کے ایک گھٹنے (لنگڑی ٹانگ) کوزمین پر ٹیک لگائے دکھایا گیا تھا اور ایک آنکھ (جس آنکھ سے کانا تھا) کو بند کیے شکار پر نشانہ باندھے دکھایا گیا تھا۔اس طرح بادشاہ سلامت کی بے عیب تصویر تیار ہو گئی تھی۔ کیوں نہ ہم بھی اپنے ذہن میں دوسروں کی بے عیب تصویریں تخلیق کریں۔ ہم میں سے کوئی بھی انسان کردار و عمل میں مکمل نہیں، خوبیوں کے ساتھ خامیاں موجود ہیں اور ان خامیوں کو درگزر کرکے ہی ہم زندگی کی چاشنی سے لطف اٹھاتے ہوئے زندگی گزارنے کا حق ادا کرتے ہیں اور اپنے اردگرد کے کرداروں میں اپنی واضح جگہ متعین کرتے ہیں۔
بات جب ازدواجی زندگی کی ہو تو بہت ساری باتوں پر سمجھوتہ کرتے ہوئے ان مسائل کو زندگی کا حصہ مان کر اپنی سوچ کو مضبوط بنانا چاہئے۔ ہمسفر میں موجود خامیوں کو عادت سمجھتے ہوئے برا نہیں منانا چاہئے بلکہ ان خامیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جن کی بدولت عیبوں پر پردہ پڑ سکے اور محبت میں اضافہ ممکن ہو لیکن معاشرے میں خوبیوں کی بجائے صرف خامیوں پر نظر رکھ کر ان کو اجاگر کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ازدواجی زندگی ایک اذیت بن کر رہ جاتی ہے ، یہی سب کچھ روزمرہ کے معاملات میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طلاق کے معاملہ میں یہ واضح ہے کہ ہم عیب کو دیکھتے ہیں، پردہ پوشی نہیں کرتے۔
پاکستان میں طلاق کی شرح آہستہ آہستہ بڑھتی جارہی ہے جو تشویشناک ہے۔ پنجاب کے اضلاع میں پچھلے پانچ سالوں میں شرح طلاق میں 35 فیصد اضافہ ہوا ہے اور متعلقہ اضلاع میں سب سے پہلے نمبر پر لاہور ہے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ مردوں کی نسبت عورتیں 25 فیصد زیادہ خلع کے لیے عدالت سے رجوع کرتی ہیں۔ اسلام میں تمام مسائل کا حل موجود ہے، پاکستان اسلامی ملک ہے لیکن طلاق کی شرح خطرناک حد تک کیوں بڑھ رہی ہے؟ اس میں شبہ نہیں کہ خواندگی کی شرح زیادہ ہے اور تعلیم شعور سے بہرہ ور کرتی ہے مگر قابل افسوس امر ہے کہ موجودہ نظام میں تعلیم کا مقصد صرف نوکری کا حصول رہ گیا ہے۔ منطق کو تو خیر باد کہہ دیا گیا۔ رواں معاشرتی نظام میں ڈگریوں کی طاقت نے عاجزی کی بجائے غرور کو جنم دیا ہے۔مرد نیک سیرت،خوبصورت ،پڑھی لکھی عورت اور امیر خاندان کا متلاشی ہے ، عورت بھی اپنے ہونے والے شوہر میں تخیلاتی صلاحیتیں ڈھونڈ رہی ہوتی ہے۔
اس غیر منطقی انداز میں خود پر غور وفکر کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ہیں۔ مطلوبہ خواہشات پوری نہ ہونے کی صورت میں بددلی کو جگہ ملتی ہے اور نتیجتاً طلاق کی طرف رجحان پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ دورکے ڈھول سہانے اور اپنی مرغی دال برابر سمجھتے ہوئے بے وفائی اپنا جوش دکھاتی ہے اور وفا جیسی انمول چیز کو روندتے ہوئے شیطان کی بات پر حاضر جناب بولتے ہوئے ہنستا بستا گھر ویران و سنسان ہو کر رہ جاتا ہے ۔ اس کے بعد پچھتانے کو کچھ باقی نہیں رہتا۔ ایک اور سنگین مسئلہ اپنے تعلقات کے حسین رنگ میں بھنگ ڈالنا ہے۔ رشتہ داری میں ہر ایک رشتے کی اپنی قدر اور جگہ ہوتی ہے لیکن اگر کوئی بھی رشتہ ازدواجی زندگی سے جیتنے لگ جائے تو میاں بیوی کا مضبوط رشتہ پانی میں نمک کی طرح گھل کر ختم ہو جاتا ہے۔
اس معاملے میں بہت زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ انا پرستی بھی اپنے پر پھیلائے پوری طاقت سے حملہ آور ہوتی ہے۔ جن کو ازدواجی رشتہ عزیزہو وہاں تو انا پرستی شکست سے دو چار ہو کر دوبارہ حملہ کی طاقت کھو دیتی ہے لیکن جہاں انا پرستی کے آگے کمزور اور بےبس ازدواجی بندھن ہو، وہ انا پرستی سے ہی مارکھا کر عدالت کا در کھٹکھٹاتا ہے جہاں الگ ہی ذلالت شروع ہو جاتی ہے۔ باقی معاشی و معاشرتی مسائل بھی اپنا اثر دکھاتے ہیں لیکن اگر میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہوں تو یہ مسائل اپنا اثر کھو دیتے ہیں۔ اس ضمن میں اسلام سے محبت وعقیدت رکھنے والا علما کرام، عزیز و اقربا، وڈیرے و قاضی بڑا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور میاں بیوی کے خوبصورت رشتے میں پیدا ہونے والی دراڑوں کو ختم کر سکتے ہیں۔
طلاق یافتہ انسان کی قدرومنزلت میں معاشرتی اعتبار سے کمی آ جاتی ہے اور لوگ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ آخر نوبت یہاں تک کیوں پہنچی اور پھر معاشرے کو اس کا جواب بھی چاہئے ہوتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اپنے خوبصورت رشتے میں اگر کبھی کوئی مسئلہ درپیش ہو تو پیوند خود لگا لیں۔ اس سے عزت و احترام میں اضافہ ہو گا۔ اپنے ہنستے بستے گھروں کو کسی کے لیے بھی خراب مت کریں، وگرنہ لوگ تو تماشہ دیکھنے کے لیے آپ کو تیار ملیں گے۔ پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی۔
۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔