گاڑیوں پر آن لائن ہونے والے فراڈ (2)
ایک اور فراڈ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا ہو رہا ہے۔ لوگ کسی سے نان کسٹم پیڈ اوریجنل گاڑی خرید کر اسی طرح کی گاڑی ٹیمپرڈ کر کے تیار کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ خریدی گئی گاڑی کے اصل کاغذ لگا کے بائیومیٹرک کروائیں گے اور گاڑی آگے بیچ دیں گے۔ جب وہ گاڑی دو تین ہاتھ بک جاتی ہے تو اچانک ایک دن آپ کو فون آ جاتا ہے کہ یہ گاڑی ٹمپرڈ ہے‘ لہٰذا آپ کے خلاف ایف آئی آر درج ہو گی‘ ورنہ آپ ہمارے اتنے پیسے واپس کریں۔ آپ سوچتے ہیں کہ یار یہ گاڑی تو میں نے نئی اور اپلائیڈ فار لی تھی۔ یہ ٹمپرڈ کیسے ہو گئی؟ جب گاڑی آپ کے سامنے آئے گی آپ کے علم میں آئے گا کہ یہ سیم کلر کی ٹمپرڈ گاڑی ہے۔ پھر آپ کو پتا چلے گا کہ آپ کے ساتھ فراڈ ہو چکا ہے۔
اسی طرح لوگ گاڑیوں کے جمعہ بازار یا اتوار بازار سے گاڑیاں خریدتے ہیں اور جب وہ خراب نکلتی ہیں تو پھر سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پوسٹ لگا رہے ہوتے ہیں یا ویڈیو میں رو رہے ہوتے ہیں کہ فراڈ ہو گیا ہے۔ جو گاڑی خریدی تھی وہ چوری‘ ڈکیتی میں ملوث تھی۔ اگر چوری کی نہ بھی نکلے تو بعد میں پتا چلتا ہے کہ ساری کی ساری گاڑی ایکسیڈنٹڈ تھی جبکہ جو دکھایا گیا تھا وہ ایک دم چکا چوند کر دینے والا مال تھا۔ اصل میں ہوتا اس طرح سے ہے جو Reputed شورومز ہیں وہ تو اپنی ساکھ کو کبھی خراب نہیں کرتے‘ لیکن کچھ لوگ جو نئے نئے اس کام میں آتے ہیں ان کی خواہش ہوتی ہے کہ فوری طور پر امیر بن جائیں لہٰذا وہ کوئی ایکسیڈنٹڈ گاڑی یا ایئر بیگ کھلی ہوئی گاڑی لیتے ہیں اور گاڑی کو ریپیئر کر کے گھر رکھتے ہیں اور ایڈ لگا دیتے ہیں یا کسی ایپ پر اپ لوڈ کر دیتے ہیں کہ جینوئن گاڑی برائے فروخت ہے۔ جب کوئی خریدار جاتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ گاڑی بالکل جینوئن ہے لیکن بعد میں پتا چلتا ہے کہ اس کا تو ایکسیڈنٹ ہوا تھا اور ری پیئر کرائی گئی ہے۔ آپ انہیں واپس کرنے جائیں تو پتا چلتا ہے کہ انہوں نے تو مکان کرائے پر لے رکھا تھا اور وہ اب وہاں سے جا چکے ہیں۔
پھر فراڈیے یہ ایڈ لگا لیتے ہیں کہ گھر کی چلی ہوئی گاڑی برائے فروخت ہے۔ ایسی گاڑی بالکل بھی گھر کی چلی ہوئی نہیں ہوتی بلکہ ایسے ایڈ لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے لگائے جاتے ہیں۔ ایسی گاڑیاں اکثر ایکسیڈنٹڈ ہوتی ہیں اور اوورہالنگ کے بعد ان کو پینٹ کیا گیا ہوتا ہے اور جھوٹ بولا جاتا ہے کہ گاڑی بالکل جینوئن ہے۔ یہ ایک کامن جھوٹ ہے جو اپنا سودا یعنی گاڑی بیچنے کے لیے بولا جاتا ہے۔ جو آپ کو دو نمبر گاڑی بیچ رہا ہے وہ آپ کو موقع نہیں دیتا کہ آپ کچھ سوچ سکیں یا معاملات کا گہرائی تک جائزہ لے سکیں۔ وہ آپ سے کہتا ہے کہ میں نے ابھی پیسے لینے ہیں اور صبح میں نے باہر چلے جانا ہے یا مجھے ابھی پیمنٹ دے دیں کیونکہ چھوٹے بھائی کا داخلہ کروایا ہے تو مجھے اس کے لیے 50 لاکھ روپے چاہئیں۔ ہم بھی لالچ پہ آ جاتے ہیں کہ اتنے لاکھ کا فائدہ ہو رہا ہے تو فٹافٹ اس کو بے وقوف بنا لو اس کو بیسیکلی ہم اپنے آپ کو بے وقوف بنا رہے ہوتے ہیں۔
ایسے فراڈوں سے بچنے کے لیے آپ کو اپنی سینس استعمال کرنی چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ کوئی بندہ ایک اچھی اور کم چلی ہوئی گاڑی سستی کیوں بیچ رہا ہے۔ سب سے اچھی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی گاڑی آن لائن خریدنے کے بجائے کسی اچھے اور مستند شوروم سے خریدیں کیونکہ شوروم والے اپنی بیچی گئی گاڑی کے ہر حوالے سے ذمہ دار ہوتے ہیں کہ گاڑی لگی ہوئی نہیں ہے اور اس کے کاغذات جینوئن ہیں‘ فیک نہیں ہیں۔ اگر شوروم سے نہیں خریدتے تو پھر بھی کسی شوروم والے سے گاڑی کی اچھی طرح اسیسمنٹ کرا لیں۔ دوسرے نمبر پر سی ائی اے کی ایک برانچ آپ کو ایکسیس پرووائڈ کرتی ہے کہ آپ کسی بھی گاڑی کے بارے میں معلومات حاصل کر لیں اور تھانے میں جا کر گاڑی چیک کروا لیں۔ یہ سروس فری آف کاسٹ ہے یعنی اس پر آپ کا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں آئے گا۔ اس سے آپ کو پتا چل جائے گا کہ گاڑی ٹمپرڈ تو نہیں ہے یا اس کے کاغذات جو پیش کیے گئے ہیں‘ وہ فیک تو نہیں ہیں۔
لوگ گاڑیاں جعلی کاغذات بنا کے بیچتے ہیں‘ لوگوں کے ساتھ فراڈ ہوتے ہیں۔ اس لیے گاڑی ہمیشہ مستند شوروموں سے لینی چاہیے کیونکہ شوروموں کی گاڑیاں گارنٹی والی ہوتی ہیں۔ ویسے بھی شوروم والے فراڈ نہیں کرتے کیونکہ ایسا کرنے سے ان کے کاروبار کی ساکھ خراب ہوتی ہے۔ ان کی گاڑیاں ٹھیک ہوتی ہیں اور کاغذات میں کوئی ہیرا پھیری نہیں کی گئی ہوتی۔ آن لائن فراڈ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ گاڑی خریدنے اور بیچنے کے سارے مالی لین دین کے معاملات بینک کے اندر اور بینک اوقات میں کریں۔ گاڑی لینے کی ضرورت ہو تو پہلی ترجیح کسی جاننے والے کو دیں۔ یہ جاننے والا اگر کسی اچھی ساکھ والے شوروم کا مالک ہو تو اور بھی اچھا ہے۔ آن لائن اشتہاروں سے مرعوب ہو کر خرید و فروخت کریں گے تو یاد رکھیں کوئی آپ کو بچانے والا نہ ہو گا کیونکہ متعلقہ ویب سائٹ کسی فراڈ کی ایک فیصد ذمہ داری بھی قبول نہیں کرتی۔ بہتر یہ ہے کہ شوروم کے کسی ایجنٹ کو درمیان میں ڈال کر گاڑی کی خرید و فروخت کریں تاکہ کسی انسان یا ادارے کا چہرہ تو سامنے ہو۔ شوروم کے بیس تیس ہزار کمیشن بچانے کے چکر میں پوری گاڑی مت گنوائیں‘ احتیاط کریں۔ صحیح معلومات، مناسب احتیاط اور عقل مندی کا مظاہرہ کر کے آپ اپنی محنت کی کمائی رقم کو لٹنے سے بچا سکتے ہیں۔