کتابوں کی دنیا

      کتابوں کی دنیا
      کتابوں کی دنیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  آپ کے گھر کی لائبریری میں کتابیں موجود ہوں اور آپ کسی وقت بھی کوئی کتاب نکال کے پڑھ سکتے ہوں تو اس سے بڑی راحت اور کوئی نہیں۔ جب سے کالم میں کتابوں کی دنیا کا سلسلہ شروع کیا ہے مجھے اپنی لائبریری سے مختلف موضوعات پر کتابیں ڈھونڈنے میں ایک لطف سا محسوس ہوتا ہے۔ کتاب کبھی نئی یا پرانی نہیں حوتی، وہ بس ایک کتاب ہوتی ہے جس میں لکھنے والے نے اپنی سوچ و فکر سے ایک دبستان خیال ترتیب دیا ہوتا ہے۔ آج میں نے کتابوں کی دنیا کے لئے تین کتابیں منتخب کی ہیں۔ ان میں پہلی کتاب ”عمران اقبال کے منتخب افسانے“ ہے، جسے پروفیسر ڈاکٹر نجیب جمال نے مرتب کیا ہے۔ دوسری کتاب لاہور میں مقیم سینئر شاعر زاہد سعید زاہد کا شعری مجموعہ ”میرے ہر خواب میں زندہ رہنا“ ہے، جبکہ تیسری کتاب نوجوان شاعر ظہور چوہان کی غزلوں پر مشتمل مجموعہ ”روشنی دونوں طرف“ ہے۔ تینوں کتابیں اردو ادب کے پھیلتے فکری دامن اور وسعت خیال و نظر کی نمائندگی کرتی ہیں۔

عمران اقبال کا تعلق بہاولپور سے ہے تاہم وہ ایک عرصے سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ نقاد اور افسانہ نگار ہیں، افسانہ نگاری ان کا خاص میدان ہے۔ ممتاز و معروف نقاد پروفیسر ڈاکٹر نجیب جمال نے ”عمران اقبال کے منتخب افسانے“ کے عنوان سے یہ کتاب ترتیب دی ہے۔ ڈاکٹر نجیب جمال ادبی حلقوں میں ایک بالغ نظر اور منفرد نقاد کے طور پر جانے جاتے ہیں، اس لئے ان کی مرتب کردہ اس کتاب اور اس میں شامل افسانوں کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس انتخاب میں 14 افسانے موجود ہیں۔ افسانے کی ضف مختلف مدارج سے گزرتی ہوئی آج زندگی کے بہت قریب ہو چکی ہے۔ ویسے تو کہا جاتا ہے، افسانے اور حقیقت میں بہت فرق ہوتا ہے تاہم آج کا افسانہ حقیقت کے بہت قریب ہے بلکہ تلخ حقیقت نگاری کا منبع بن چکا ہے۔ عمران خان ایک ایسے ہی افسانہ نگار ہیں جنہوں نے نہ صرف موضوعات کے چناؤ میں بہت انفرادیت دکھائی ہے بلکہ کہانی کے تمام پہلوؤں کو بھی اپنی گرفت سے نکلنے نہیں دیا۔ ڈاکٹر نجیب جمال نے اس کتاب کے آغاز میں عمران خان کی افسانہ نگاری کا بڑی گہرائی اور جامعیت سے جائزہ لیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ”آج جب میں عمران اقبال کے افسانوں کا انتخاب کررہا ہوں اور اس کی کہانیوں پر از سر نو ایک نظر ڈال رہا ہوں تو یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس نے اپنی بصیرت کے مشاہدے اور تجربے کو ہم آمیز کرکے جو کہانیاں لکھی ہیں، ان میں وہ خارج سے باطن کی تہہ میں اترتا ہے اور انہی خواص سے وہ انسانی لاشعور کی تہ در تہ لطافتوں اور کثافتوں کی خبر لاتا ہے“۔ عمران اقبال کے ان منتخب افسانوں میں ایک ایسی زندگی اپنے پورے سیاق و سباق اور کرب و افلاس کے ساتھ ملتی ہے جو درحقیقت ہمارے اردگرد بکھری ہوئی ہے۔ زمینی موضوعات کو اپنے تخیل کی کھٹائی میں ڈال کے عمران اقبال نے انہیں زندۂ جاوید کر دیا ہے۔ ممتاز نقاد ڈاکٹر نوازکاوش ان کے افسانوں پر رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں ”افسانے کی دنیا میں عمران اقبال ایک معتبر حوالہ ہیں کہانی کے بنیادی خدوخال ان کے ہاں فطری اور حقیقتوں سے قریب تر ہیں“۔ میں نے اس کتاب میں شامل افسانے پڑھے تو کہانی کی نسبت، کردار نگاری اور بیانیے کی وجہ سے ان کے سحر میں مبتلا ہو گیا۔

زاہد سعید زاہد ایک درویش منش انسان اور سینئر شاعر ہیں۔ لاہور میں مقیم ہیں، ان کی اہلیہ فرحت زاہد بھی ایک باکمال شاعرہ ہیں، یوں یہ دونوں لاہور کی ادبی محفلوں کی جان ہیں۔ زاہد سعید زاہد کا شعری مجموعہ ”میرے ہر خواب میں زندہ رہنا“ ان کی نظموں اور غزلوں پر مشتمل ہے۔ ان کی شاعری میں جہاں گداز پن موجو دہے وہیں احساس کی چبھن اور تلخیاں بھی نظر آتی ہیں۔

زمیں نے چین سے رہنے کہاں دیا اس کو

جو اپنے واسطے خود آسماں نہیں ہوتا

یہ اور بات کہ میں آئینہ نہیں، زاہد

وگرنہ ہاتھ میں پتھر کہاں نہیں ہوتا

معروف شاعر شاہد شیدائی ان کی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں۔”زاہد سعید درویشی قبیلے سے تعلق رکھتے ہوئے قلندرانہ لہجے میں بات کرتے ہیں، انہیں اپنے خوابوں کے بک جانے پر خدشہ ہے کہ اب کہیں ن کی آنکھوں کا سودا بھی نہ ہو جائے“۔ زاہد سعید زاہد کی غزل اپنے اندر جہاں تغزل کے تمام لوازمات رکھتی ہیں، وہیں اس میں حقیقت نگاری کی سنگلاخی بھی موجود ہے۔ چھوٹی بحروں میں ان کی غزلیں قاری کے لطف کو دوآتشہ کر دیتی ہیں۔ غزل کی روایت میں اپنی پہچان کرانا آسان کام نہیں،یہ سمندر میں اپنے وجود کو منوانے کے مترادف ہے تاہم زاہد سعید نے اپنے لب و لہجے سے اپنی انفرادیت کو منوایا ہے۔ معروف شاعر نذیر قیصر نے ان کی شاعری پر رائے دیتے ہوئے لکھا ہے ”زاہد سعید کی شاعری ان کی شخصیت کی طرح ذاتی تجربات و مشاہدات سے آراستہ ہے۔ مگر انہوں نے اپنی شاعری میں دکھ درد ہی بیان نہیں کئے بلکہ فطرت اور معاشرے سے مکالمے کی جرات بھی کی ہے“۔ زاہد سعید زاہد کی غزل میں جذبوں کی فراوانی اور فکر کی بے کرانی ملتی ہے۔

ظہور چوہان ایک جوان فکر شاعر ہیں۔ ان کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے، تاہم اپنی شاعری کے حوالے سے وہ پورے ملک میں پہچانے جاتے ہیں۔ ان کے چار شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں“ روشنی دونوں طرف“ ان کا چوتھا شعری مجموعہ ہے۔ یہ مجموعہ غزلیات پر مشتمل ہے۔ ظہور چوہان نے اپنی غزلوں کا خمیر زندگی کی بکھری ہوئی سچائیوں سے اٹھایا ہے۔ محبت غزل کا اساسی موضوع ہے اگرچہ غزل کے موضوعات میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حد درجہ وسعت آ گئی ہے تاہم اس کے باوجود غزل اور محبت کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔اس مجموعے کی غزلوں میں بھی محنت کے مختلف رنگ اور مختلف پہلو بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ معروف نقاد اور افسانہ نگار علی ظہور چوہان کی شاعری کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”غزلیہ روایت میں ظہور چوہان ان فنی وسیلوں سے کام لے رہے ہیں جو شعر کو رومانوی طرزِ اظہار یا نظریاتی یا سماجی حقیقت نگاری کے پرانے تصور سے ہٹ کر معنی آفرینی کو اجاگر کریں۔ وہ لفظ کے ٹھوس، لغوی معنویت سے شعر کو جس مہارت سے بچا لیتے ہیں وہ ہمیں ناصر کاظمی،احمد مشتاق اور منیر نیازی کی یاد دلاتے ہیں“۔ ظہور چوہان کا یہ مجموعہء غزل اشاعت کے بعد ادبی حلقوں سے بھرپور داد حاصل کر چکا ہے:

قفس کی حبس جو تازہ ہوا سمجھتا ہے

وہی اسیر مرا مدعا سمجھتا ہے

خدائے ارض و سما میری لاج رکھ لینا

یہاں تو ہر کوئی خود کو خدا سمجھتا ہے

مزید :

رائے -کالم -