نواز شریف قید ِ تنہائی سے رہائی تک
جب اکتوبر2023ء میں نواز شریف پاکستان آئے تھے تو اُنہیں بالکل اندازہ نہیں تھا وہ از خود قید ِ تنہائی کاٹنے جا رہے ہیں۔بظاہر سب کچھ اُن کی حمایت میں تھا،حکومت اپنی، حالات اپنے، ہر چیز سازگار، شاید اسی لئے انہیں مینارِ پاکستان پر جلسے میں کبوتر اڑانے کا موقع بھی دیا گیا کہ وہ قوم کو پیغام دیں اب راوی چین ہی چین لکھتا ہے اور مستقبل ایک بار پھر نواز شریف کے ہاتھوں میں ہو گا،مگر سیاست میں تو بیانیہ بکتا ہے۔ نواز شریف واپس تو آ گئے، لیکن اُن سے بیانیہ چھین لیا گیا،جس بیانیے کے ساتھ وہ ملک سے باہر گئے تھے واپسی پر اُسے لندن میں چھوڑ آئے۔اب اُن کے پاس بچ بچا کر ایک یہ بیانیہ رہ گیا تھا کہ عمران خان نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے،اچھا بھلا ترقی کرتا پاکستان تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا،مگر اِس کے ساتھ وہ اپنی پہلی والی بات نہیں دہراتے تھے کہ عمران خان کو ایک سازش کے تحت لایا گیا۔وہ اپنے اِس مقبول بیانیے کو بھی لندن چھوڑ آئے جس نے اُنہیں بہت مقبولیت دی تھی۔میری مراد ووٹ کو عزت دو سے ہے۔اب زمینی حقائق یہ تھے کہ اُن کے بیانیے کا واحد ہدف عمران خان تھے، اُن کی پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن جاری تھا۔اس کی وجہ سے عوام کی ہمدردیاں تحریک انصاف کے ساتھ تھیں،ایسے میں نواز شریف نے اس میں حصہ ڈال کر گویا وہ تمام مخالفت بھی اپنے گلے ڈال لی جو اسٹیبلشمنٹ کے لئے موجود تھی۔اِس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ نواز شریف یہ وعدہ لے کر پاکستان آئے تھے کہ انہیں وزارتِ عظمیٰ دی جائے گی،اس کے کئی شواہد ملتے ہیں خود شہباز شریف جو اُس وقت وزیراعظم تھے،ہر جگہ یہ کہتے رہے ہمارے اگلے وزیراعظم نواز شریف ہیں۔معاملہ اس حد تک یقینی تھا کہ تمام اخبارات کا فرنٹ صفحہ خرید کر ”وزیراعظم نواز شریف،عوام کا فیصلہ“ کی ہیڈ لائن لگوائی گئی۔اب حیرت اِس بات پر ہے کیا نواز شریف کو اُس وقت سیاسی صورتحال نظر نہیں آ رہی تھی؟ کیا اُنہیں عوام کے موڈ کا اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ لاہور جیسے شہر میں وہ بڑا جلسہ نہیں کر پا رہے۔یہاں یہ سوال بھی اُبھرتا ہے کہ نواز شریف اِس بات پر راضی ہو گئے تھے کہ انتخابی نتائج کو پس ِ پشت ڈال کر انہیں ہر قیمت پر وزیراعظم بنا دیا جائے گا۔کیا اتنا بڑا لیڈر،جو تین بار ملک کا وزیراعظم بھی رہا ہو اور جس نے ہر بار اپنی حکومت کے خاتمے پر جرنیلوں اور ججوں کے لئے سخت موقف اپنایا ہو، اس قسم کی پیشکش قبول کر سکتا ہے؟ مسلم لیگ(ن) کے اندر اِس حوالے سے مکمل اتحاد تھا کہ وزیراعظم نواز شریف ہوں گے۔غالباً میاں صاحب یہی دیکھ کر مطمئن ہو کے بیٹھ گئے ہر چیز طے شدہ واقعات کے مطابق آگے بڑھے گی،وہ جاتی عمرہ میں بیٹھ کے وعدوں کی تکمیل کا انتظار کرنے لگے،وہ اُن ہواؤں کا رخ نہ دیکھ سکے جو مخالف سمت میں چل رہی تھیں،وہ اپنے اردگرد خوشامدیوں کے نعروں اور وزیراعظم کی گردان سن کر آٹھ فروری کے انتخابات کا انتظار کر رہے تھے۔حیرت یہی ہے کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ اُن کے پاس اب عوام کو گرمانے اور اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں۔اُن کے پاس دھواں دار تقاریر کا مواد ہی نہیں تھا،جبکہ دوسری طرف ریاستی مشینری کی احمقانہ حرکتیں تحریک انصاف کو عوامی مقبولیت کے بامِ عروج پر پہنچا رہی تھیں۔
اب لوگ سوال پوچھتے ہیں نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی کیا جلدی تھی، یہ خبریں تو بہت پہلے سے آ رہی تھیں وہ لندن جانا چاہتے ہیں،مگر انہیں اجازت نہیں مل رہی، اس پر حیرت بھی جنم لیتی تھی کہ بھائی وزیراعظم اور بیٹی وزیراعلیٰ پنجاب ہیں،پھر بھی انہیں جانے سے کون روک رہا ہے؟ یہ سوال بھی اکثر پوچھا جاتا رہا کہ اپنی حکومت کے باوجود میاں صاحب وطن میں کیوں نہیں رہنا چاہتے، حالانکہ وہ یہاں رہ کر حکومت کی رہنمائی کر سکتے ہیں اور اُن کا تجربہ کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔انہیں تنہائی سے نکالنے کے لئے ایک راستہ یہ بھی ڈھونڈا گیا کہ انہیں مسلم لیگ (ن) کا صدر بنا دیا جائے ،اس کے بعد بھی یوں لگتا ہے نواز شریف کا پاکستان میں دِل نہیں لگا۔وہ زیادہ تر منظر سے غائب رہے یا پھر کبھی پنجاب حکومت کے منصوبوں کی رہنمائی کے لئے وزیراعلیٰ مریم نواز کے ہمراہ اجلاسوں کی صدارت کرتے دکھائی دیئے۔یہ بات بھی نوٹ کی گئی کہ انہیں پنجاب تک محدود کر دیا گیا،حالانکہ اُن کی جماعت مرکز میں بھی وزارت عظمیٰ اور حکومت رکھتی تھی،مگر شہباز شریف کے ہمراہ انہوں نے کبھی اُس طرح کوئی میٹنگ نہیں کی،جس طرح پنجاب میں کرتے رہے۔یہ بات آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے کہ اس ایک سال کے دوران نواز شریف کس اضطراب سے گزرے ہوں گے اگر صورتحال یہ نہ ہوتی جو اِس وقت ہے اور وزارتِ عظمیٰ مسلم لیگ(ن) کے پاس ہے، تو شاید اس اضطراب میں وہ مایوسی یا شدت نہ ہوتی جو اس عرصے کے دوران نواز شریف کی باڈی لینگویج اور لاتعلقی سے نظر آئی۔آج کچھ لوگ کہہ رہے ہیں،جن میں رانا ثناء اللہ بھی شامل ہیں کہ جسٹس منصور علی شاہ کو خط نہیں لکھنا چاہئیں تھے اور اپنے غصے یا اضطراب پر قابو پانا چاہئے تھا۔اگر ایک جج کو جو چیف جسٹس بننے سے صرف چار دن دور تھا، چیف جسٹس نہ بنایا جائے تو یہ فطری ردعمل سامنے آتا ہے،اب سوچئے کہ نواز شریف کو وزیراعظم بنانے کا وعدہ کر کے بلا کر جب آخر وقت پر یہ شرط لگا دیں کہ وزارتِ عظمیٰ ملے گی تو مسلم لیگ (ن) کو ہی،مگر نواز شریف وزیراعظم نہیں بن سکتے، ایسے میں یہ فطری ردعمل تو جنم لے گا جو نواز شریف کی خاموشی اور لاتعلقی سے نظر آیا۔کہا یہ جا رہا تھا کہ نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت اس لئے نہیں مل رہی کہ وہ وہاں جا کر اپنا بیانیہ دہرا سکتے ہیں،جو موجودہ حالات میں اسٹیبلشمنٹ کو گوارا نہیں کہ پہلے ہی اُسے تحریک انصاف کی طرف سے ایک سخت بیانیے کا سامنا ہے۔
نواز شریف اب باہر جا چکے ہیں،اس وقت سوال یہ نہیں کہ انہوں نے اکتوبر23سے اکتوبر24 تک کا یہ سال کیسے گزارا۔اب سوال یہ ہے کہ نواز شریف پاکستانی سیاست کے لئے غیر متعلقہ ہو چکے ہیں؟ قرین قیاس تو یہی ہے کہ اب وہ طویل عرصے تک پاکستان نہیں آئیں گے،مگر صورتحال یہ ہے کہ اس بار اُن کی یہ جلاوطنی یا ہجرت کسی دباؤ کا شاخسانہ قرار نہیں دی جا سکتی۔وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ملک میں ایک نام نہاد جمہوری حکومت ہے، پس پردہ قوتیں کوئی اور ہیں،انہیں یہ سیٹ اپ اون کرنا پڑے گا کہ مرکز اور صوبے کی حکومتیں اُن کے گھر میں ہیں۔لگتا یہی ہے کہ وہ ذہنی دباؤ سے نجات کے لئے بیرون ملک گئے ہیں۔وہ عمران خان کی رہائی کا بیان بھی نہیں دے سکتے، حالانکہ اِس وقت ایسا کوئی بھی بیان نواز شریف کو سیاسی حوالے سے بہت فائدہ پہنچا سکتا ہے،نواز شریف کو یہ بیان بھی فائدہ پہنچا سکتا ہے کہ ڈاکٹر یاسمین راشد کو ان کی بیماری کے پیش نظر رہا کیا جائے۔شاید وہ ایسا کوئی کام نہ کریں کہ آزاد فضاؤں میں جا کر بھی کئی نادیدہ حصار اُن کے گرد موجود رہیں گے۔
٭٭٭٭٭