ربّ نے میرے بیٹے کو قصائی بننے سے بچا لیا،ایک ڈاکٹرکی کتھا آپ بھی سنیں

میں اپنے بیٹے کے ساتھ انٹری ٹیسٹ کے سلسلے میں پچھلے دنوں لاہور میں تھا۔سوشل میڈیا پہ قصائی کے خطاب سے سرفراز ہوئے ابھی کچھ ہی وقت گذرا تھا اس لئے اس مسند پہ براجمان ہونے کا اعزاز ابھی میرے لئے نیا تھا اور میں بھی اس امتیازی حیثیت کو بھولا نہیں تھا کہ میں نے امتحانی مرکز سے بچوں کا ایک ریلا نکلتے دیکھا اور ان میں میں اپنے صہیب کو بھی ڈھونڈنے لگا۔ ماں باپ کے پاؤں کے سلیپرز اور آنکھوں کی نمی میں محسوس کر سکتا تھا۔ان کے پیچھے والدین کی دی گئی قربانی کا مجھے ادراک تھا۔ ان کے لبوں پہ مچلتی دعائیں مجھے سن رہی تھیں۔ ان کے بچوں نے کیسے اپنا بچپن اور لڑکپن اس تیاری میں تج دیا تھا مجھے احساس تھا۔آج ماں باپ کو قربانی اور بچوں کو ان کی محنت کا ثمر ملنے کو تھا لیکن اس کے باوجود میں تھا کہ اپنے ماضی قریب کے جذبات میں سے نکل نہ سکا تھا۔کیا یہ میلہ مستقبل کے قصائیوں کے لئے سجا ہوا ہے۔ کیا ماں باپ اپنے ایثار اور بچے محنت کے بعد قصائی کا خطاب بھی پانے کے لئے بے قرار ہیں۔
میں جو طالب علمی کے دور میں اپنے ضلع بھر میں فرسٹ آیا تھا اور لوگوں کو فخر سے بتا رہا تھا کہ میں ڈاکٹر بنوں گا پر آج جب زندگی کے اس موڑ پہ جب خود کو ایک قصائی بنا پاتا ہوں تو دل تھام کے رہ جاتا ہوں۔ میرے ساتھی جن کا میرٹ نہ آیا تھا وہ مغموم تھے اور مجھے رشک سے دیکھتے مبارک باد دے رہے تھے۔ پھر وقت گذرا میرے دوست اپنے بہتر مستقبل کے لئے دوسری راہیں چننے لگے۔ کسی نے مقابلے کا امتحان دیا اور آج اعلی سرکاری عہدے پہ براجمان ہوا۔ کوئی فوج میں گیا تو ترقی کرتا صوبیدار یا کرنل کے عہدے پہ متمکن ہے۔ کوئی وکیل تو کوئی جج بنا۔ کسی کے حصے مکینک بننا آیا تو کوئی تاجر و دکاندار بنا اور میں صرف قصائی۔
قصائی اور مسیحائی ایک پیشہ ہے جس میں سے میں اپنی اور بچوں کی روزی بھی کماتا ہوں۔ قصائی تو جس کو ذبح کرتا ہے وہ اس کی دکان کے سامنے کھال کے بغیر لٹکا ہی نظر آتا ہے لیکن میرے ہاتھ سے تو بہت سارے خدا کے بندے اس کی مہربانی سے شفا بھی پاتے ہیں اور اپنوں کے ساتھ مسکراتے گھروں کو لوٹتے ہیں۔ میری کسی سے ذاتی دشمنی نہیں۔ زندگی موت میرے ہاتھ نہیں۔ میں نے آج تک کوئی ڈاکٹر نہیں دیکھا جس کے دل کو مریض کے مرنے سے طمانیت ہو اور دل سے سوگوار نہ ہو۔ میں نے اپنے مریض کی سیریس صورتحال میں کبھی خوشیاں نہیں منائیں۔ میں نے عید کے دن بھی کام کیا ہے۔ قصائی کی بکر عید پہ کچھ دن چٹھی ہوتی ہے میری نہیں۔ کل ہی کی بات ہے لاہور آنے سے پہلے میں گاڑی کو صحیح کروانے کے سلسلے میں مکینک کے پاس تھا کافی دیر سر کھپانے کے بعد اس نے چائے منگوائی اور بیٹھ کے آرام سے باتیں کرنے لگا اس کا موضوع سخن تھا کہ بعض اوقات نقص کا پتہ نہیں چلتا اور انجن ہی بدلنا پڑتا ہے۔ انسانی دماغ ہے۔ ایک حد تک سوچ سکتا ہے۔ اب جیسے کسی بیگناہ کو اٹھارہ سال بعد رہائی ملتی ہے کہ جرم سمجھتے اور وکلا کی بحث میں سالوں گذر جاتے ہیں اور وہ پابندِ سلاسل پھانسی کے پھندے پہ جھولنے کے بعد انصاف پاتا ہے۔ اسی طرح وہ مکینک بھی بے بس تھا۔ میں اپنی زندگی کے بارے میں سوچنے لگ گیا کہ میرے پاس تو کبھی ایک منٹ سے بھی بہت ہی کم وقت ہوتا ہے اور مجھے فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اب اگر درست ہو گیا تو دل خوش اگر غلط ہو گیا تو افسوس کے ساتھ کلینک بھی ٹوٹے گا۔ مار بھی کھاؤں گا اور سڑک پہ پڑی میت مجھے نوکری سے بھی نکلوا دے گی۔ کاش میرے پاس بھی نیا انجن یا نیا پرزہ بدلنے کی بر وقت سہولت ہوتی مجھے تو اس پرانی چیز سے ہی کام لینا تھا۔ مجھے وہ دن بھی یاد آ رہے تھے جب طالب علمی کے بیس بیس گھنٹے پڑھنے کے بعد میں نے عملی زندگی میں قدم رکھا۔ میں نے تعلیم تو انسانی علاج کرنے کی پائی تھی لیکن میرا احتساب نہ ملتے بستر۔ نہ ملتی دوائی اور اسٹریچر پہ ہو رہا تھا۔ میرے لئے کوئی سروس اسٹرکچر نہیں تھا ۔میری نوکری بھی ایسی تھی کہ کوئی بھی آئے مجھے برطرف کر جائے ۔ میرے لئے کھولے گئے ہسپتال میں گائے بھینس اور چوہدری جی کی پنچائیت لگتی تھی اور وہاں بھی نوکری کے لئے سفارش کی ضرورت ہوتی تھی ۔
میری سرکاری نوکری ڈھونڈتے ایک دن میرا باپ بھی رویا تھا کہ مجھے پڑھا لکھا کے کس کس کے ڈیرے پہ جانا پڑ رہا ہے ۔ایک دفعہ تو میں پنجاب کے ایک بڑے ہسپتال میں صاحب کے چپڑاسی کی ماں کی دوائی لکھنے کے بعد مہیا نہ کر سکا اور معطل کر دیا گیا۔ دل برداشتہ ہوا راہِ فرار اختیار کی اور غیر ملک سدھارا۔ عزت سے خوب کمایا۔ غلطی پہ احتساب بھی ہوا پر نہ مار پیٹ ہوئی ۔ نہ ٹائر جلے اور نہ ہی ہسپتال ٹوٹا۔ گیارہ سال کے بعد اعلی ترین ڈگری کے بعد اچھی روزی روٹی کے وسائل جمع کرنے کے بعد وطن لوٹا تو کسی کو میری ڈگری سے کوئی سروکار نہ تھا وہ تو بھاؤتاؤطے کرتا مجھے بتاتا ہے کہ میں بہت مہنگا ہوں۔ مجھ سے کئی غریب مفت علاج کروا کے اپنی اپنی گاڑیوں میں جاتے ہیں ، زمینوں کے مالک زکٰوۃ سے علاج کرواتے ہیں ، میں ہر شہری سے مہنگی سبزی ، پھل ، جوتا ، کپڑا خریدتا ہوں ، مجھے دیکھتے ہی مارکیٹ کے بھاؤ بڑھ جاتے ہیں۔ میں قصائی ہوں۔ میرا مقابلہ عطائی سے بھی ہے اور دائی سے بھی جس کے لئے کوئی ضابطہء اخلاق نہیں ، کوئی جاننا نہیں چاہتا کہ اگر آپریشن درست ادویات اور صفائی ستھرائی سے کیا جائے تو خرچ کیا آتا ہے ، ان حالات میں میرے پاس دو ہی راستے تھے کہ یا تو صفائیاں دیتے وقت گذاروں یا پریکٹس بہت ہی کم کر دوں۔ میں نے موخر الذکر کو چنا ۔میں سوچوں کے اسی گرداب میں پھنسا ہوا تھا کہ مجھے بیٹے کی آواز سنائی دی۔ وہ بہت رنجیدہ تھا کہ اس کا پرچہ اچھا نہیں ہوا۔ میں باپ کے ناطے اس کے ساتھ ہمدردی کی باتیں کر رہا تھا لیکن دل میں خدا کی قسم خوش تھا کہ ربّ نے میرے بیٹے کو قصائی بننے سے بچا لیا ۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔