جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی ،خود انکی زبانی...قسط نمبر 17
اس حکومت نے 11 ارب روپے کی ریکوری کرکے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اس کو 32 ارب روپے ظاہر کیا۔ جبکہ ہماری حکومت نے 1998-99ء میں صرف حبیب بینک کے ذریعہ 10 ارب کی ریکوری کروائی۔ قوم حقائق جاننا چاہتی ہے۔ غیر مسلموں کی پالیسی پر عملدرآمد کرتے ہوئے این جی اوز کے وظیفہ خوار ملک کو دیوالیہ کرنے کے درپے ہیں۔ ملکی معیشت آکسیجن پر چل رہی ہے۔ ملک کو معاشی بحران کا سامنا ہے۔ صحافیوں کو ان کے اپنے ہی پریس کلب کے اندر پولیس گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے، خفیہ والے سادہ کپڑوں میں صحافیوں کے ساتھ غنڈہ گردی کررہے ہیں، لاہور پریس کلب کے اندر صحافیوں پر تشدد تاریخ کا بدترین واقعہ ہے، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے پریس کی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
صحافت کی آزادی پر بالواسطہ اور بلا واسطہ پابندی لگادی گئی ہے۔ حقیقت عوام کے سامنے نہیں آنے دی جارہی کیونکہ محب وطن جب بھی ملکی سالمیت کے لئے لکھتا ہے تو آمریت کے دور میں اس کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سقوط ڈھاکہ پر اتنا کچھ لکھا گیا کہ آخر کار وقت کے آمر کو سنسر شپ نافذ کرنا پڑی اور آج بھی در پردہ یہی طرز عمل اپنایا جارہا ہے۔ جلسے جلوسوں پر پابندی اس لئے لگائی گئی ہے کہ عوام کے نمائندے عوام کو اصل حقیقت سے روشناس نہ کراسکیں۔ عوامی نمائندوں کو جیلوں میں بند کرکے ان کا عوام سے رابطہ توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حال ہی میں ہمارے محترم چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے اپنے ایک اخباری بیان میں عدلیہ کو حکومت کا کمزور ستون کہا۔ میں جناب چیف جسٹس صاحب سے نہایت ادب سے گزارش کررہی ہوں کہ عدلیہ اس ملک کا سب سے مضبوط ستون ہے کیونکہ قوم اب تہیہ کرچکی ہے کہ عدلیہ! ملک بچاؤ قوم تمہارے ساتھ ہے۔ میرے نزدیک چیف جسٹس صاحب نے سچ ہی تو کہا ہے کہ جب بھی کوئی آمر کسی جمہوری حکومت پر شبخون مارتا ہے تو عدلیہ اس کے وار سے کبھی بچ نہیں سکتی۔
جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی ،خود انکی زبانی...قسط نمبر 16پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں تاریخ کے اس نازک موڑ پر اپنی عدلیہ سے نہایت ادب و احترام سے درخواست کر رہی ہوں کہ اس وقت ملکی سالمیت اور اسلام خطرے میں ہے۔ خدارا وہ مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے ہمیشہ کی طرح اپنے قومی فرض کو نبھائیں۔ اسلام اور پاکستان کو اگر کوئی طاقت بچاسکتی ہے تو وہ ہماری باوقار عدلیہ ہے۔ جسے وقت کے آمر کے سامنے کلمہ حق کہنے کی روایت زندہ کرنی ہوگی۔ قوم آج اس کی عظمت کو سلام پیش کرنے کے لئے تیار بیٹھی ہے۔
میں اپنی عدلیہ کی توجہ اخبارات کے حوالے سے اس طرف مبذول کرارہی ہوں کہ اسرائیلی کمانڈو کسی اور روپ میں مقبوضہ کشمیر میں پہنچ چکے ہیں۔ یہ ایسٹ انڈیا کمپنی والی پالیسی دہرائی جارہی ہے اور ہمارے ایوانوں میں بیٹھے خود ساختہ حکمرا ’’ہندوز دلی دور است‘‘ کی خوش فہمی میں خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
نہ صرف یہودی مقبوضہ کشمیر میں ناپاک ارادے لئے بیٹھے ہیں بلکہ ان کے وظیفہ خوار ہمارے ملک کے اندر خود ساختہ حکومت میں برابر کے شریک ہوکر ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے لئے خطرہ بن گئے ہیں۔ میں اس موقع پر افواج پاکستان کی عظمت کو سلام پیش کرتی ہوں اور یہ امید رکھتی ہوں کہ مشکل وقت میں ہم نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کریں گے، نہ صرف ہم نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کریں گے بلکہ افواج پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لئے بھی ہر بڑی قربانی دیں گے۔ صر ف ایک شخص کی وجہ سے آج 14کروڑ عوام تذبذب کا شکار ہوئے پڑے ہیں۔
بھارت نے آکاش میزائل کا تجربہ کرلیا ہے۔ اگر آج آئینی وزیراعظم ایک سازش کے تحت پابند سلاسل نہ ہوتا تو وہ دشمن کے اس تجربے کا منہ توڑ جواب شاہین اور غوری کی طرح بغیر وقت ضائع کئے دیتے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس شبخون کے نتیجہ میں بننے والی این جی اوز کی وظیفہ خوار حکومت نے گلے میں کشکول ڈال لیا ہے، اپنی آمریت کو طول دینے کے لئے گلی گلی بھیک مانگی جارہی ہے، بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کی سازش کی جارہی ہے جبکہ خارجہ پالیسی کے نام نہاد ماہرین حکومت کا موقف بیان کرتے ہوئے انڈیا کو شملہ معاہدہ، اعلان لاہور اور اعلان واشنگٹن کو سامنے رکھ کر مذاکرات کی دعوت دے رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے بھارت کی چاپلوسی اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے، اب مکے دکھا کر سستی شہرت حاصل کرنے والی حکومت بھارت سے مذاکرات کے لئے منت سماجت کررہی ہے۔ مگر ہمارا مکار دشمن بھارت یہ موقف اپنائے ہوئے ہے کہ اگر کشمیر پر بات ہوئی تو وہ کراچی کی بات کریں گے۔
حکمرانو! یاد رکھو کہ یہ نواز شریف کی ایمانی طاقت تھی جس نے بھارت کو ناصرف مسئلہ کشمیر پر بات کرنے پر مجبور کیا بلکہ واجپائی کو بس پر بٹھا کر مینار پاکستان کے سائے تلے کھڑا کرکے پاکستان بلکہ اس کی ایٹمی طاقت کو اپنے ازلی دشمن سے تسلیم کرایا۔ ہمارا دشمن یہ جانتا تھا کہ نواز شریف اپنے ملک اور اسلام سے مخلص ہے اور وہ اپنے اصولوں پر کبھی سودے بازی نہیں کرے گا۔ دفاع پاکستان کے معاملہ میں وہ دشمن سے ایک قدم آگے ہی رہے گا۔ اس کی قوت ایمانی اور جذبہ حب الوطنی نے بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ نواز شریف نے لیڈر آف دی اپوزیشن کی حیثیت سے نیلا بھٹ کے مقام پر کھڑے ہوکر انڈیا کو للکارا تھا۔ انہوں نے آزاد دھرتی میں کھڑے ہوکر مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے اعلان کردیا تھا۔ قوم اچھی طرح جانتی ہے کہ یہ وہی موقع تھا جب نواز شریف نے پاکستان کی ایٹمی قوت کا اعلان کردیا تھا، نہ صرف اعلان کیا تھا بلکہ ایٹمی پروگرام کو رول بیک ہونے سے بھی بچالیا تھا۔ میں بڑے وثوق کے ساتھ آج بھی یہ کہتی ہوں کہ مسئلہ کشمیر کا حل صرف اور صرف پابند سلاسل آئینی وزیراعظم کی قیادت میں ہی حل ہوگا۔
یہ لمحہ فکریہ ہے کہ جو لوگ اسلام دشمن سازشوں میں ملوث ہیں، وہ مقبوضہ کشمیر میں سیر کرنے نہیں آئے، وہ ایک شرمناک ایجنڈا لے کر وہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ سن لو یہودیو! ہماری افواج اور عوام آج بھی ایک دل کی طرح پاکستان کے اندر دھڑک رہے ہیں۔ ایک آمر کی آکسیجن پر چلنے والی حکومت تمہیں طے شدہ ایجنڈے کے تحت تمہارے ناپاک ارادوں میں بالواسطہ اور بلا واسطہ کامیابی نہیں دلاسکتی۔
ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کبھی پاک فوج کو بھل صفائی پر لگایا جارہا ہے۔ کبھی ٹیکس فارم تقسیم کرواکر عوام کے دلوں میں اس کی محبت کو کم کیا جارہا ہے۔ کیا ہماری قابل فخر اور باوقار فوج کا یہی کام ہے؟ میں مجلس تحفظ پاکستان کے فورم سے اعلان کرتی ہوں کہ میری پاک فوج اپنے اصل مقصد کی طرف توجہ دے اور جس جہاد فی سبیل اللہ کا اس نے اپنے اللہ سے وعدہ کیا ہوا ہے اور ملک کے آئین اور اس کی جغرافیائی سرحدوں کی قسم کھائی ہے، وہ اس کو نبھاتے ہوئے بارڈروں پر واپس چلی جائے۔ اپنی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کا مقدس فریضہ ادا کرے، وہ اپنے فرض کی طرف لوٹے، میں خود ساختہ حکومت کو خبردار کررہی ہوں کہ وہ جلد از جلد جمہوری حکومت کو بحال کرے تاکہ ملک کا دفاع مضبوط اور معیشت کو استحکام نصیب ہو۔ میں نے اور میری جماعت پاکستان مسلم لیگ نے بلکہ ہر مسلمان نے سالمیت وطن اور اس کی ترقی کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت میرے نیک ارادے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ ہم نے اس ملک کو ایٹمی طاقت بنا کر یہ ثابت کردیا ہے کہ اس کی سالمیت اور بقا مسلم لیگ کی سالمیت اور بقا سے براہ راست مشروط ہے۔ اس ملک میں جمہوریت پروان چڑھے گی، عوام اور اس کے نمائندے حکومت کریں گے، جمہوریت کو مستحکم کرکے آمریت کا ہمیشہ کے لئے راستہ روک دیا جائے گا اور کسی طالع آزما کو تاقیامت یہ حوصلہ نہیں ہوگا کہ وہ بندوق کی نوک پر آمریت کے خلاف اٹھنے والی آواز کو دبا سکے۔ کسی آمر کو جمہوریت اور آئین سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ہمارے کارواں کو روک کر نہ صرف خشک سالی والے علاقے کے متاثرین کے ساتھ زیادتی کی گئی بلکہ اپنے خلاف اٹھنے والے عوامی سیلاب کو روکنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ اگر یہ کارواں اپنے نیک مقصد کے لئے منزل مقصود پر پہنچ جاتا تو خود ساختہ حکومت کا یہ دعویٰ جھوٹا ثابت ہوجاتا کہ مسلم لیگ عوام میں مقبول نہیں ہے۔ میں آج تمام ذمہ دار اداروں سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ اپنا کردار ادا کریں اور عوام کے اس سیلاب کو جو اس حکومت کے خلاف اٹھ چکا ہے، آئندہ روکنے کی ناکام کوشش نہ کریں۔ 12 اکتوبر کے بعد خفیہ کے کچھ لوگوں سے مٹھائیاں تقسیم کرائی گئیں او ران کو ٹی وی پر مناسب کوریج دی گئی۔
کاروان تحفظ پاکستان کو روک کر اپنے خلاف اٹھنے والے عوامی سیلاب کو حکمران نہیں روک سکتے۔ لفظ تحفظ پاکستان پر زور دے رہی ہوں کیونکہ میری جدوجہد صرف اور صرف اپنے وطن کے خلاف ہونے والی ناپاک سازشوں کے آگے بند باندھنا ہے۔ میں بہت جلد حکومت کو ایک بار پھر بھرپور سرپرائز دوں گی۔ آج ملک بھر میں ہزاروں کے حساب سے لوگوں کی گرفتاریوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ حکومت کا وہ دعویٰ غلط تھا کہ نواز شریف کی محبت میں کوئی سڑکوں پر نہیں نکلا۔ اب عوامی سیلاب ان عاقبت نا اندیش حکمرانوں کو بہاکرلے جائے گا اور مورخ کو ایک بار ضرور لکھنا پڑے گا کہ عوام اپنے لیڈر کی محبت میں جیلوں کو توڑ کر آمریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ کاروان تحفظ پاکستان کے پروگرام میں یہ مقدس فریضہ بھی شامل تھا کہ وہ قائداعظم کی عظیم بہن اور پاکستان میں جمہوریت کی سب سے بڑے محسن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی برسی کے موقع پر 9 جولائی کو انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لئے مسلم لیگ ہاؤس راولپنڈی میں کارواں کے اگلی منزل پر روانہ ہونے سے پہلے ایک تقریب منعقد کرے۔ ہم اپنی عظیم ماں کے مشن پر چلتے ہوئے پاکستان کے تحفظ کا عہد کرنا چاہتے تھے لیکن وقت کے آمروں نے ہمارے کارواں کو لاہور میں روک کر اس خواہش کی تکمیل نہ ہونے دی۔ میں نے آج صبح مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی کرائی ہے اور ہماری یہ دعا اور عزم ہے کہ جس طرح ہماری اس عظیم ماں نے اس وقت، وقت کے آمر کا مقابلہ کیا تھا اور قضا کا تیر بن کر اس وقت کے حاکم کے آگے آگئی تھیں، میں بھی ان کی ایک ادنیٰ کارکن کی حیثیت سے ان کے مشن کو مکمل کروں گی تاکہ پاکستان میں اب جمہوریت پر کوئی شبخون نہ مارسکے۔
تقریر کے آخر میں مَیں پرویز مشرف کو یہ بتادینا چاہتی ہوں کہ تم نہ صرف ایک خود ساختہ حکمران ہو بلکہ ایک ناکام ریٹائرڈ جنرل ہو۔ بلکہ مزے کی بات تو یہ ہے کہ آٹھ جولائی کو تم نے یہ ثابت کردیا کہ تم ایک ناکام اور بزدل توپچی بھی ہو۔ یہ حکومت پاکستان کے لئے سکیورٹی رسک بن چکی ہے۔‘‘
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے ’’اے غافل مسلمانو‘‘
تمہاری داستان تک نہ رہے گی داستانوں میں
(خطاب: 16 جولائی 2000ء)
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)