روٹی کا سوال ہے بابا!
کورونا کے بعد دنیا ایک نئے تجربے سے گزر رہی ہے۔جی ہاں بغور تجزیہ کیا جائے توفی الواقع سب کچھ بدل چکا ہے غریب، غریب تر اور امیر امیر ترین!سفید پوش طبقہ قریباً ختم ہوا چاہتا ہے درمیانہ طبقہ؟دیکھنے میں تو ہے،مگر ایسے، جیسے نہیں! ان دنوں سب سے بڑا مسئلہ روٹی ہے اردو کے کسی شاعر نے سب سے چھوٹی نظم لکھی تھی،جس کا پہلا مصرع ”پیسے“ اور دوسرا ”کیسے“ہے آج کل اس کی نثری صورت گویا یوں ہو گئی روٹی؟لیکن کیسے؟ اس دوران پاکستان کا اقتصادی نقشہ کچھ زیادہ ہی ابتر ہوا معاشرے میں ذرہ بھر بھی تواز ن باقی نہیں رہ گیا خدا نہ کرے کہ روٹی کی تلاش میں اپنے عوام کی قسمت کھوٹی ہو جائے اف اوپر سے مہنگائی یہی نہیں کہ بھوک سے لوگ عشق کی روایات بھولتے جاتے ہیں،بلکہ ایمان کی اقدار کا تحفظ بھی بہت محال ہو چکا ہے اکثر کاروبار ٹھپ ہو گئے بلاخوف و تردید کہا جا سکتا ہے مہنگائی کا طوفان سر سے بھی گزر گیا ہوا ہے نئی دنیا میں آن لائن بزنس کو البتہ بڑھاوا ملا ہے امریکن ملٹی نیشنل آن لائن بزنس ایمزون کمپنی نے تقریباًآٹھ ماہ ہوئے ہیں پاکستان میں منسٹری آف کامرس انڈسٹری سے معاہدہ کیا ہوا ہے ا ن کا کوریئر سروس کمپنی سے بھی معاملہ طے پا گیا تھا اکثر لوگ اب اپنے کاروبار کی حیثیت و صلاحیت سے محروم ٹھہرے ہیں، چونکہ سرکاری و نجی ملازمتوں کا سلسلہ بڑی حد تک بند ہو چکا ہے، لہٰذا اس ماحول میں اگر ایمزون کا آغاز ہو جا تا تو حالات واقعات کسی حد تک سدھر سکتے تھے لاکھوں افراد کو باعزت روزگار بہم پہنچتا ارباب اختیار و اقتدار کا اس بارے میں عملی اقدام اٹھانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ متعدد نوسر باز اور فراڈیے ایمزون کمپنی کے نام پر میدان میں موجود ہیں اور سادہ لوح لوگوں کو اپنی بہیمانہ لوٹ کھسوٹ کا نشانہ بنا رہے ہیں جانے کتنوں کومالی حبس کا شکار کیا جا رہا ہے منی لانڈرنگ،ٹیکس چوری، جعلی پاسپورٹ کا مکروہ دھندا عروج پر ہے اس کے سبب نیب اور ایف آئی اے کا فوری حرکت میں آنا ناگزیر ہے نہیں تو جلد ہی ایک بہت بڑا مالی فراڈ /سیکنڈل منظر عام پر آیا چاہتا ہے ظاہر ہے کوئی ایسی صورت وزیراعظم عمرا ن خان کی حکومت کے لئے ایک جھٹکا ہو گی اور عالمی سطح پر شرمندگی و بدنامی کا سامان!حال ہی میں مصدقہ رپورٹ کے مطابق ایمزون کمپنی کے بانی جیف بیزوس دنیا کے امیر ترین شخص بن گئے، جن کی دولت کا تخمینہ 185.5بلین ڈالرز ہے، اس کے ساتھ دولت مند افراد کی فہرست میں اول آئے ہیں کہا یہ جاتا ہے کہ کسی سرمایہ دار کے ساتھ جڑ جانا بھی ایک طرح کا سرمایہ ہے گوبل ویلیج میں ای کامرس سے آنکھیں چرانا محض تضیع اوقات ہے آخر ہم ایسا کیوں اور کب تک کرتے رہیں گے؟واقعات کا تقاضہ ہے کہ کاروباری حلقوں کو اندھے کنویں سے نکال باہر کیا جا ئے اور عام افراد کو ”خاص“ چہروں کی دستبرد سے محفوظ رکھا جائے با شعور کاروباری شعبے میں یہ احساس نہایت تیز رفتاری کے ساتھ جاگزیں ہو رہا ہے کہ اس پس منظر میں مزید تاخیر تباہ کن ہو گی سیاسی اختلاف اپنی جگہ،حقیقت لیکن یہ ہے کہ اگر وزیر اعظم عمران خان بے لوث محب وطن ہیں پھر عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس کام میں اتنی دیر کیوں؟ڈھونڈا جانا چاہئے کہ اس اہم مالی معاملے کو لٹکانے اور اٹکانے کا ذمہ دار کون ہے،اور کیوں؟واقعی،کورونا کے بعد دنیا ایک نئے تجربے سے گزر رہی ہے جی ہاں!سب کچھ بدل چکا ہے وقت کی دیوار پر سب سے بڑا سوال ”روٹی“ہی کا لکھا ہے اس کا جواب کیسے میں پوشیدہ ہے کوئی تو ہو،جو قوم کو کچھ بتلائے، سمجھائے اور راہ دکھائے اب نہیں تو کب؟آپ نہیں تو کون؟؟