مکمل فل کورٹ اور تمام درخواستوں کا فیصلہ ہی حل ہے!

   مکمل فل کورٹ اور تمام درخواستوں کا فیصلہ ہی حل ہے!
   مکمل فل کورٹ اور تمام درخواستوں کا فیصلہ ہی حل ہے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہم پرانے لوگ سوچتے ہی رہتے اور لوگ کہیں سے کہیں نکل جاتے ہیں، یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ ہم جیسے لوگ شاید اخلاقیات کے پابند ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور اندر سے بالکل بزدل ہیں،ایک بات تو شاید درست نہیں کہ ہم جیسے حضرات ڈھونگی ہیں کہ حقیقت میں ہم سب ایک ضابطہ اخلاق کے پابند ہیں،جو ہماری فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے تیار کیا اور فیڈریشن کے آئین والی کتاب کے آخری صفحہ پر مندرج ہے، تاہم دوسری بات یا الزام میں کسی حد تک صداقت تسلیم کر لیتا ہوں کہ بزدل ہو گئے۔ اگرچہ کہنے کو بہت کچھ ہے، مگر ہم نہیں کہتے اس کی ایک وجہ تو ضابطہ اخلاق ہی ہے تاہم دوسری ہمارا بڑھاپا ہے اب نہ  تو ہڈیوں میں وہ طاقت ہے کہ لاٹھی کھا سکیں اور نہ ہی اتنا دم خم کہ  جیل جا سکوں،کیونکہ ہمیں تو جیل میں ورزش مشین یا اے سی کی سہولت ملے گی نہیں اور آج کل سخت حبس ہے، پنکھا چلا کر بھی پسینہ آتا ہے تو جیل کی دیواروں کے اندر کیا حال ہو گا۔ یوں بھی اپنے پیشہ میں بھی بدترین قسم کی تقسیم سے مایوس ہو کر ٹریڈ یونین سرگرمیوں سے الگ ہو چکا ہوا ہوں،لیکن کیا کِیا جائے کہ مجھ جیسے کو بھی مجبور کیا جا رہا ہے۔

اِس وقت صورتحال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فاضل جج حضرات نے ازخود عوامی راستہ کھول دیا ہے کہ فاضل فل بنچ کے آٹھ رکنی گروپ نے تو وضاحت عدالت کے عام نظم و نسق سے ہٹ کر پبلک کر دی تھی کہ اس کے بعد متوقع فاضل چیف جسٹس منصور علی شاہ محترم نے حالیہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نام ایک خط کو مشتہر کرا کے جواب کا راستہ دیا تو ساتھ ہی عوامی بحث کو بھی دعوت دی اور اب تو چیف جسٹس، مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی جوابی خط میں بہت کچھ کہہ کر سوالات اور تحریر کے لئے مجبور کر دیا ہے۔عدالت عظمیٰ میں جتنے فاضل جج ہیں،ان میں سے قریباً سبھی بار ایٹ لاء تو ضرور ہیں اور یقینا ان سب نے اس ڈگری کے دوران زیر تعلیم رہتے ہوئے  پریوی کونسل  کے فیصلے بھی پڑھے ہوں گے۔ یوں بھی ہمارا عدالتی نظام تاحال وہی برطانوی طرز کا ہے جو ورثہ میں ملا تھا۔ ماسوا ترامیم کے تمام کے تمام ضوابط اور قوانین وہی ہیں،اس لئے اگر پریوی کونسل یاد آئے تو کوئی اچنبھا نہیں ہونا چاہئے۔حالیہ حالات اور اس سے پہلے کے کم از کم تین ادوار کو دیکھ کر جی تو مچلتا ہے کہ اپنے دوست برادر ڈاکٹر خالد رانجھا سے رجوع کروں،لیکن رُک جاتا ہوں کہ وہی پہلی بات کہ دم نہیں اور صحت بھی اجازت نہیں دیتی اور نہ ہی میرے پاس اخراجات کے لئے کچھ بچتا ہے کہ ہم گھر کے چار افراد ہیں،چاروں ہی محنت کرتے اور دو بچوں کے ساتھ مل کر رہتے ہیں اور حلال رزق سے گذارہ بڑی مشکل سے ہوتا ہے اب تو دو سال سے زیادہ ہو گئے جب جوتا خریدا اور دو جوڑے کپڑوں کے لئے،وہ بھی اِس لئے کہ سردیوں میں صاحبزادی اور نواسے، نواسیوں سے ملاقات کے لئے برطانیہ جانا پڑا تھا، ورنہ ہم کہاں؟ اور وہاں تو برخوردار عظمت نے مجھے کچھ خرچ کرنے ہی نہیں دیا تھا۔

خیر ذکر تھا، برطانوی طرزِ اور قوانین کی موجودگی میں پریوی کونسل کا کہ آج کل جو کچھ وہ بھی بڑی عدالت میں ہو رہا ہے اس کا تقاضا تو یہی ہے کہ جرائیت کر کے ”مس کنڈکٹ“ کے حوالے سے درخواست دائر کر کے فیصلہ کرایا جائے کہ اب تو بات کھل گئی کہ فاضل جج حضرات کے اپنے بقول(ایک دوسرے کے خلاف) جو کچھ ہوا وہ درست نہیں،اور اگر یہ حقیقت ہے تو پھر وہ درخواست بنتی ہے، جس کا ذکر کیا اور اس کے حوالے کے لئے پریوی کونسل کے تصدیق شدہ فیصلے موجود ہیں جو بطور نظیر پیش کیے جا سکتے ہیں۔یہ بھٹو والا کیس نہیں کہ جو فیصلہ دیا گیا وہ بھی نظیر کے طور پر قبول نہیں کیا گیا۔

میری گذارش تو یہی ہے کہ فاضل جج حضرات نے اپنے فیصلوں اور اپنے خطوط کے علاوہ طرزِ عمل سے تنقید کا دروازہ کھول دیا ہے۔یوں بھی یہ طے شدہ امر ہے کہ فیصلے کے بعد نیک نیتی سے تنقید کی جا سکتی ہے۔

آٹھ رکنی فاضل جج حضرات نے اپنے تفصیلی فیصلے میں جو بھی دلائل دیئے ان پر تو وکلاء حضرات بات کر رہے ہیں، مجھے تو صرف یہ عرض کرنا ہے کہ جب مخصوص نشستوں کا سلسلہ شروع ہوا اور الیکشن کمیشن کا اعتراض سامنے آیا،اُس وقت خود تحریک انصاف نے اپنے حمایت یافتہ منتخب اراکین کو سنی اتحاد کونسل کا رکن بننے کی ہدایت کی،اس جماعت کا اپنا کوئی ٹکٹ ہولڈر نہیں تھا اور نہ ہی کوئی منتخب رکن، حتیٰ کہ خود صاحبزادہ حامد رضا جو سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین ہیں،بھی اپنی جماعت کے ٹکٹ پر منتخب نہیں ہوئے، (یہ حامد رضا صاحب ہمارے دوست، صاحبزادہ فضل کریم کے صاحبزادے ہیں،جنہوں نے یہ کونسل سنیوں کے اتحاد کے لئے بنائی تھی) ان دِنوں میں نے اپنے ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ تحریک انصاف کی قیادت کا یہ فیصلہ درست نہیں کہ ان کی جماعت بطور سیاسی جماعت موجود ہے اور رجسٹریشن منسوخ نہیں کی گئی، صرف انتخابی نشان چھین کر سزا دی گئی،یوں جماعت موجود تھی۔ اگر تحریک انصاف والے براہِ راست اپنی اصل جماعت میں شامل ہوتے تو سپریم کورٹ کا فیصلہ بالکل واجب اور سیدھا ہوتا،لیکن بیرسٹر حضرات کی تعداد زیادہ تھی اس لئے زیادہ دور تک نہ سوچا اور سنی اتحاد کونسل کو ترجیح دی۔یوں دلائل کے لئے ازخود خلاء چھوڑ دیا اور پھر مخصوص نشستوں کا بھی دعویٰ نہ کیا اور یہ کلیم بھی سنی اتحاد کونسل کی طرف سے ہوا۔یوں تنازعہ طول پکڑ گیا، اگر ایسا نہ ہوتا اورتحریک انصاف میں شمولیت نہ مانی جاتی تو کیس اور بھی مضبوط ہوتا جو اکثریتی فیصلے سے ظاہر ہے کہ فاضل عدالت کی اکثریت نے الزام کے مطابق زبردستی تحریک انصاف کو حق دار قرار دے دیا اور یوں ایک بڑا تنازعہ اور بحران پیدا ہو گیا،جس کے بعد جس کا جو بس چلا اس نے کہا اور کرتا چلا جا رہا ہے۔اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ یہ بھی محاذ آرائی کا ایک حصہ بن گیا، بلکہ بدقسمتی سے فاضل جج صاحبان خود پر کنٹرول نہیں کر پا رہے،میں نہیں سمجھتا کہ قاضی فائز عیسیٰ کی کھلی مخالفت اور شاہ صاحب کی حمایت سے کیا فائدہ ہو رہا ہے،الٹا نقصان ہی ہو رہا ہے۔

جہاں تک بلاول بھٹو اور پیپلزپارٹی کا موقف ہے تو وہ بھی اسی صورت میں عمل پذیر ہو سکتا ہے کہ پارلیمان میں دو تہائی حضرات اس ترمیم(پارلیمانی عدالت) کے حق میں ہوں اس لئے دلیل میں تو کوئی حرج نہیں،لیکن اسے حرزِ جان بنانے کا فائدہ نہیں،نقصان ہے، اس سے بحران کم ہونے میں مدد نہیں ملے گی، مزید گہرا ہوتا جائے گا جو ہم جیسے ملک کے لئے مفید نہیں کہ ہم پہلے ہی معاشی گرداب میں اُدھار پر گذارہ کر رہے ہیں اور قربانی عوام دے رہے ہیں،ابھی تک اشرافیہ کی طرف سے دو چار کروڑ ڈالرز کی پیشکش نہیں ہوئی اور نہ ہی خود حکمران طبقے نے اپنی جیب سے کچھ دیا بلکہ لیا ہوا بھی واپس نہیں کیا،مزید جو بھی اقدامات ہو رہے ہیں وہ عوام پر بوجھ کے ہیں،پٹرولیم سستا کیا گیا تو بسوں،ویگنوں اور رکشاؤں تک کے کرائے کم نہیں ہوئے، چہ جائیکہ عام اشیاء سستی ہوتیں، لوٹ مار مسلسل جاری ہے۔

میری تجویز ہے کہ چیف جسٹس اب نظرثانی کی درخواستوں اور دیگر متعلقہ درخواستوں کو اکٹھا کر کے مکمل حاضر جج حضرات(معہ ایڈیشنل) پر مشتمل فل کورٹ بنا دیں اور فوری سماعت شروع کر کے سب متنازعہ نکات کا ایک ہی مرتبہ فیصلہ کرا لیں، کہ قوم کی جان چھوٹے۔

مزید :

رائے -کالم -