ایک اور خطرے کی گھنٹی بج گئی
ساغر صدیقی نے درست کہا تھا کہ
بے رنگ شفق سی ڈھلتی ہے بے نور سویرے ہوتے ہیں
شاعر کا تصوّر بھوکا ہے سلطان یہاں بھی اندھے ہیں
آج عوام پریشان ہیں،سلطان پریشان نہیں ۔۔۔اور کتنی مہنگائی ۔۔۔اور کتنی بھوک۔۔۔اور کتنی بے روزگاری ۔۔اور کتنی تنگدستی۔۔اور کتنی خودکشیاں ۔۔۔اور کتنی غربت ۔۔۔اور کتنے ٹیکس ۔۔۔اور کتنابِلوں میں اضافہ۔۔۔اور کتنے وعدے ۔ ۔ ۔ کب ختم ہو گا کروڑوں مفلوک الحال عوام کا انتظار ۔۔۔کب بدلیں گے عام آدمی کے دن ۔۔۔ووٹ کو عزت دو نہ دو ، کم سے کم ووٹر کو عزت تو دو ۔۔۔انسانیت کو عزت تو دو ۔۔۔دو وقت کی روٹی تو کھانے کو دو ۔۔۔۔
احمد فراز نے کہا تھا کہ
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
واقعی قیامت کا دکھ ہے ، بھوک ہے کہ ٹلنے کا نام ہی نہیں لے رہی ،اور ظالم بھی ہیں کہ ٹلنے کا نام ہی نہیں لے رہے ۔۔۔اب تک تو یہی سنتے آئے ہیں کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے۔۔۔ شاید ہم ماں کو ناراض کر بیٹھے ہیں ۔۔۔ماں چپ ہے ، یا منہ موڑے بیٹھی ہے ۔۔۔شاید اسی لیے بھوک سے بلکتے ، پیاس سے سسکتے ، تعلیم ، صحت اور روزگار کو ترستے بچوں پر کسی کو رحم نہیں آرہا ۔۔۔اجتماعی خودکشیاں کرنیوالوں پر کوئی ترس نہیں کھارہا ۔۔۔اپنے ہی دیس میں اپنوں ہی کے ہاتھوں لٹنے والے دکھائی نہیں دے رہے ۔۔۔لڑائیاں ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں بلکہ ہر گزرتے دن کیساتھ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہیں ۔۔۔گھروں کے اندردیکھو یا باہر ۔۔۔ہر طرف مختلف شکلوں میں لڑائی ہی لڑائی ہے۔۔۔ آٹا ، چینی ، دال ، گوشت ، سبزی ، پھل ، دوائی ،پیٹرول اور بچوں کی فیسوں تک پر لڑائی ہو رہی ہے ۔
جبکہ سیاسی نمائندوں کا حال ہے کہ کوئی اپنے ساتھیوں ، اتحادیوں یا لشکر کو چھ چھ کھانے کھلا رہا ہے تو کوئی اپنے پارٹی اجلاسوں میں اے سی چلاتا ہے نہ کسی کو کھانے کو پوچھتا ہے اور اس کے ساتھی دبے لفظوں ”رحم “کی درخواستیں کرتے ہیں ۔۔۔
مطلب سب آپس میں ”اچھا اچھا “یا ”اعتماد اعتماد “ کھیل رہے ہیں ۔۔۔عوام کے پاس جانے کا”اعتماد“ کسی میں نہیں ، یہ سیاسی و معاشی کسمپرسی کا بدترین عالم نہیں تو اور کیا ہے ۔۔۔؟
استحصالی نظام بہت بری طرح بے نقاب ہوا ہے۔۔۔اور اگر کوئی ماننے کو تیار نہیں تو کم سے کم یہ ضرور مانے گا کہ بند گلی میں داخل ہو چکا ہے اور دہانے پر وہ لوگ کھڑے ہیں جن کے ہاتھ اور پیٹ خالی ہیں لیکن وہ اب کسی کو راستہ دینے کو تیار نہیں ۔۔۔یہ نہتے بدلہ لینا چاہتے ہیں ۔۔۔اپنی بھوک کا ۔۔۔اپنی محرومیوں کا ۔۔۔اپنے بچوں سے چھینی گئی سہولتوں کا ۔۔۔اپنی بے سروسامانی کا ۔۔۔سسکتی زندگی کا ۔۔۔
کوئی یہ بھی مانے یا نہ مانے لیکن حساب کتاب کا وقت شروع ہو چکا ہے ۔۔۔ احتساب ہونہ ہو”سیاسی حساب“ تو بے باک ہو رہا ہے اندرون و بیرون ملک احتجاجی صدائیں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں ،مقدس مقامات پر جانا ، نمازیں پڑھنا مشکل ہو چکا ۔۔۔سوشل میڈیاپہ تو کچھ نہیں رک رہا ، جھوٹ ،سچ ، پراپیگنڈہ ، حقیقت ، الزام، سازش سب کھلم کھلا جاری ہے نام لے کر بھی اور نام لیے بغیر بھی ۔۔۔سمجھ سکو تو سمجھ لو ۔۔۔یہ ”لڑائی “جنہوں نے پھیلائی ہے ختم بھی انہیں ہی کرنا ہو گی وگرنہ اپنے انجام کیلئے تیار رہیں کیونکہ لڑائی ان کے گھروں تک ضرور پہنچے گی، کئی گھروں تک تو پہنچ چکی ۔
ایک طرف ملک میں ”سیاسی تعفن“ نے مفلوک الحال عوام کا جینا دوبھر رکھا ہے دوسری جانب اقوام متحدہ نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے ،اقوام متحدہ کے گلوبل انفارمیشن ارلی وارننگ سسٹم کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس سال بھی شدید بارشوں اورسیلاب کا خطرہ ہے ۔ پاکستان شدید بارشوں کے خطرات کا سامنا کرنے والے 20 ممالک میں شامل ہے۔مختلف ملکوں میں جون میں شدید بارشوں اور سیلاب سے غذائی قلت کا خدشہ ہے۔گذشتہ سال 53 ممالک میں 22 کروڑ 20 لاکھ افرادکو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑا تھا پاکستان کے علاوہ افغانستان، ایران، تاجکستان، ترکمانستان، اور ترکیہ میں بھی شدید بارشوں کاخطرہ ہے۔
ابھی تو گذشتہ برس کے سیلاب کے ”زخم “ نہیں بھرے تھے کہ نئی آفت کی پیشگوئی کی جا رہی ہے ۔۔۔آفت ٹلی کب تھی کبھی گندم غائب ہو جاتی ہے تو کبھی آٹا ، کبھی چینی غائب ہو جاتی ہے تو کبھی دوائیاں، ذخیرہ اندوز، منافع خور کسی کے قابو میں نہیں ۔ عوام کیلئے بحران ہی بحران ہیں ۔
ملک میں مہنگائی کا 75 سالہ ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے، قوم کی کمرٹوٹ چکی لیکن سیاسی نمائندوں کو” لڑائی“ جبر اورفسطائیت سے فرصت نہیں۔ایک دوسرے کیخلاف ڈٹ کریا ڈھٹائی سے ٹوئٹ کیے جاتے ہیں۔اقتدار سے رخصت ہونیوالے طعنہ دے رہے ہیں کہ” ہمارے دور کے آخری ماہ میں مہنگائی کی شرح 12.7 تھی، اب شرح بڑھ کر35.4 ہو چکی ہے۔ سب سے زیادہ مہنگائی کھانے پینے کی اشیا ءمیں ہے، کھانے پینے کی اشیا ءمیں ایک سال کے دوران قیمتوں میں47فیصد اضافہ ہوا، آنے والوں نے ملک کو گہرے معاشی بحران میں دھکیل دیا “ ۔
اور اگر کوئی ان اعدادوشمار کو” سیاسی لڑائی“ قرار دے کر ماننے سے انکار کرتا ہے تو ادارہ شماریات کی رپورٹ ملاحظہ کیجیے۔ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق صرف مارچ کے دوران ماہانہ مہنگائی 35.4فیصد پر پہنچ گئی، فروری میں مہنگائی کی شرح 31.5 فیصد پر تھی ۔گزشتہ سال مارچ 2022میں مہنگائی کی شرح 12.7فیصد پر تھی۔ شہری علاقوں میں مہنگائی کی شرح 33فیصد رہی، مارچ میں دیہی علاقوں میں مہنگائی کی شرح 38.9 فیصد پر پہنچ گئی۔
اور اگر کسی کیلئے ادارہ شماریات کے اعدادو شمار ناکافی ہیں تو ایشیائی ترقیاتی بینک کی طرف چلتے ہیں جس نے مہنگائی کے حوالے سے عوام کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے آؤٹ لک رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں اس سال مہنگائی کے بڑھنے کی شرح دگنی سے زیادہ ہوگی۔ رواں مالی سال کے اختتام تک پاکستان کی معیشت سست روی کا شکار رہے گی معاشی شرح نمو کم رہے گی ، سیلاب کی وجہ سے پاکستان کی پیداوارمتاثرہوئی جومہنگائی بڑھنے کا سبب ہے۔ سیلاب کی وجہ سے پاکستان کوکرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور فارن ایکسچینج ذخائرمیں کمی کا سامناہے جبکہ پاکستان کی گروتھ میں 0.6 فیصد کمی بھی ہوئی ہے۔ مالی خسارہ 6.9فیصدتک پہنچ رہاہے جبکہ معاشی ترقی کی شرح 2فیصدتک ہوگی۔مہنگائی کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ سال پاکستان میں مہنگائی کی شرح 12.2فیصد تھی، اس سال مہنگائی کے بڑھنے کی شرح دگنی سے زیادہ 27.5 فیصد تک ہوگی۔ گذشتہ 20 سال میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر 10 بڑے ملکوں میں پاکستان بھی شامل ہے۔
آﺅٹ لک رپورٹ اور اقوام متحدہ نے خطرے کی گھنٹی نہیں گھنٹیاں بجا دی ہیں لیکن ایوانوں کے کان نہیں اور ایوانوں کے اندر بیٹھنے والوں کے کان اپنے مفاد کے سوا کچھ نہیں سنتے ۔۔۔ رہے بےچارے عوام تو ان میں مزید بوجھ برداشت کرنے کی سکت نہیں ، ہمت جواب دے چکی ، کئی گھرانے تو عید کی خوشیاں بھی نہیں منا سکے صرف 40 فیصد لوگ عید شاپنگ کر سکے۔ کاروباری اداروں کے مطابق 2023 کا عید سیل سیزن انتہائی مایوس کن رہا، عید سیل سیزن بدترین سیاسی بحران اوراعصاب شکن مہنگائی کی نذر ہو گیا۔ رواں سال فروخت کا تخمینہ 20 ارب روپے سے بھی کم رہا۔ 2023 کاروباری لحاظ سے 75برسوں میں بدترین سال رہا عید پر سٹاک کیا گیا نصف سے زیادہ مال فروخت نہ ہوسکا آخری عشرے میں گزشتہ سال کے پہلے عشر ے جتنی بھی خریداری نہیں ہوئی۔۔۔
ایک طرف عوام اس قدر بدحال ، نڈھال ہیں، مہنگائی کے ایک اور ریلے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے دوسری جانب سیاسی نمائندے ہیں کہ صرف اپنے مفادات کی خاطر لڑ رہے ہیں ، کسی نہ کسی مجبوری کے تحت ایک میز پر بیٹھے ہیں ، تو وہ بھی اپنی خاطر ۔۔۔ عوام کے مفاد ، تحفظ اور ترقی کیلئے مذاکرات کب ہونگے ۔۔۔ملک بحرانوں اورقرضوں کی دلدل سے کب نکلے گا ۔۔۔؟کسی کو کچھ نہیں معلوم ۔۔۔
سوشل میڈیا پر ایک دوست نے عوام کے مسائل اور تمام بحرانوں کے حل کیلئے ایک فارمولا بھیجا ”یہ ملک ہم سب کا ہے اور سب کیلئے ایک جیسا قانون ہونا چاہیے ، یا تو سب کو بجلی ، گیس ، پانی ، پیٹرول ، فون ، گاڑی ، تعلیم ، پلاٹ ، سیکیورٹی فری دیں یا کسی کو بھی نہ دیں ۔“ اس فارمولے پر عمل کرنے سے خطرے کی گھنٹیاں بجنا بند ہو جائیں گی۔۔۔۔”اس نظامِ زر کو برباد ہونا چاہیے“
آخر میں عوام کی حالت زار پر سلیم قیصر کا یہ شعر
کسی کے ضبط کا یوں امتحاں نہیں ہوا ہے
ہمیں بجھایا گیا اور دھواں نہیں ہوا ہے
نوٹ : ادارے کا مضمون نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں