کوئی شک، تو دور کر لیں!
ملک بھر میں قریباً مکمل شٹر ڈاؤن ہو گیا۔ اس حوالے سے کسی کو تعجب ہو تو ہو مجھے بالکل نہیں کہ ہمارے تاجر بھائی دین دار ہیں اور ان کے نزدیک ٹیکس کا نفاد”غیر اسلامی“ ہے، کہ وہ زکوٰۃ و خیرات کا عمل احکام دین سے بھی بڑھ کر کرتے ہیں،پھر ان سے ٹیکس کیوں لیا جائے؟ اس سلسلے میں ملک کا سب سے ”مظلوم“ طبقہ یہ تاجر بھائی ہی ہیں، آپ(حکومت) غیر ملکی دباؤ کے تحت ان کو ٹیکس نیٹ میں لا کر ان کے منافع میں حصہ دار بننا چاہتے ہیں،ایسا ہو نہیں سکتا،اس لئے اس ہڑتال کے حوالے سے جو توقعات وابستہ کر لی گئی تھیں،ان کے پورا نہ ہونے پر بھی دِلی افسوس کا اظہار کرتا ہوں،اب تو ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ حقیقی پریشان یہی حضرات ہیں،حالانکہ آج تک ان تاجر بھائیوں نے اپنے پلے سے تو کچھ نہیں دیا یہ تو ہم جیسے گاہکوں کی کھال اُدھیڑ کر ہی کچھ دیتے ہیں،حتیٰ جنرل سیلز ٹیکس کے نام پر صارفین کی جیسوں سے ہی رقم نکلوائی جاتی ہے اور یہ بھی بڑی حقیقت ہے کہ اکثر بھائی گاہک کو رسید نہیں دیتے اور یوں ٹیکس بھی خود رکھ لیتے ہیں اور جو بڑے تاجر ایسا کرتے ہیں ان کے بارے میں بھی شکایات ہیں کہ وہ صارفین سے وصول کئے جانے والے ٹیکس میں سے بھی اپنا حصہ نکال کر ٹیکس ایف بی آر کو دیتے ہیں،اور پورا ٹیکس جمع نہیں کراتے۔
جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے اچھا پانسہ پھینکا تھا اور تاجروں کے مزاج کو جان کر ہی احتجاج کی بات کی تھی، چنانچہ ہڑتال کا کریڈٹ تو وہ ہی لیں گے،دلچسپ امر یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے ووٹروں کی بھاری تعداد کا تعلق بھی تاجر برادری سے ہے لیکن یہ بھی کام نہ آیا کہ پیٹ کی آگ سب کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے، ٹیکس نہ چھوڑنے کا بار بار اعلان کرنے والے محترم وزیر خزانہ اورنگزیب کو خبر ہو کہ ابھی ہڑتال کا پورا دن نہیں گذرا کہ ایف بی آر کا پریس نوٹ ٹیلیویژن سکرینوں پر ٹکر کی صورت میں آ گیا کہ ایف بی آر تاجر تنظیموں کی تجاویز کے مطابق مناسب ترامیم کے لئے تیار ہے لیکن تاجر تنظیمیں طے شدہ پروگرام کے باوجود منگل کے روز ایف بی آر نہیں آئیں اور یوں بات چیت نہیں ہو سکی،بورڈ اب بھی بات چیت کے لئے تیار ہے۔
آج(بدھ) کی صورتحال سے مجھے تو یہ اندازہ ہوا ہے کہ حکومت بے بس ہے اور اگر مزیدکال دی گئی تو محلے بازاروں کے وہ چھوٹے دکاندار بھی اس ہڑتال میں شامل ہو جائیں گے،جنہوں نے ہڑتال کے باوجود علاقائی طور پر محلے والوں کو سودا مہیا کیا۔یہ خبر اور بھی تشویشناک ہے کہ نان روٹی والے تنوروں کی بھی بعض شہروں اور علاقوں میں ہڑتال ہوئی۔اب ذرا سوچتے رہئے کہ ایسا کیوں ہوا کہ دو روز پہلے تک تو سرکار کو یہ یقین تھا کہ جزوی ہڑتال ہو گی لیکن اس کی یہ توقع پوری نہیں ہو سکی،اس ہڑتال کو اس کے باوجود مکمل ہی کہا جائے گا کہ اگر کسی شہر میں کسی بازار میں تقسیم نظر آئی تو وہاں تاجروں کے ساتھ مل کر تحریک انصاف والوں نے دکانیں بند کرائیں۔فیصل آباد میں ایسا تنازعہ تو ٹیلیویژن کی خبروں میں دکھایا گیا۔
اس ہڑتال کے پس منظر پر جس کی جو مرضی کہتا اور تجزیہ پیش کرتا رہے،مگر حقیقت یہ ہے کہ بجلی کے نرخوں میں دم روکنے والا اضافہ نہ ہوتا تو ایسی ہڑتال نہ ہو پاتی، اس حوالے سے برسر اقتدار حضرات نے آئی ایم ایف کے سامنے جو بے بسی دکھائی یہ سب اس کا نتیجہ ہے۔اللہ کا شکر ہے کہ یہاں افریقہ کے ان ممالک جیسا منظر نہیں بنا جن ممالک میں باقاعدہ فسادات ہوئے ہیں اور وہ سب کچھ بھی آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط پر عملدرآمد کے باعث ہوا جبکہ ہمارے ملک میں بھی آئی ایم ایف سے قرضے کی وصولی کے لئے سخت ترین شرائط قبول کی جا رہی ہیں،اور انہی کے نتیجے میں یہاں افلاس میں اضافہ ہوا اور پہلا ردعمل یہ ہڑتال ہے۔
قارئین! سچ پوچھیں تو تمام تر تحفظات کے باوجود مجھے محمد شہباز شریف اور ہمنواؤں کے ساتھ ہمدردی ہو گئی ہے کہ کس سخت امتحان میں پڑ گئے کہ اب بقاء کے لئے صف آراء ہونا پڑے گا۔اِس وقت حکومت ایک طرف آئی ایم ایف کے دباؤ کے تحت ٹیکسوں میں اضافے اور سبسڈیز ختم کرنے میں مصروف ہو گئی اور دوسری طرف آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدہ ہونے کے باوجود فنڈز والوں نے اگست کے بعد ستمبر کے اجلاس میں بھی معاہدے کی توثیق کے لئے اس ایجنڈے میں شامل نہیں کیا۔میں نے پہلے ہی اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ امریکہ کے سو سالہ پروگرام میں اب ایٹمی پاکستان بھی زد پر ہے اور ہمارا گھیراؤ کرنے کے لئے رزومرہ کی اشیاء کو مہنگا کرنا ضروری ہے اور ایسا ہی ہو بھی رہا ہے۔عالمی تھانیدار کے سامنے اب ایران اور اس کے بعد ایٹمی پاکستان ہی دو ہدف رہ گئے ہیں اِس لئے ہمیں سمجھ جانا چاہئے کہ گاڑی چلانا ہے تو ان حالات کا مکمل ادراک کرنا ہو گا،اب تو غزہ کے حوالے سے امریکہ دنیا بھر کے سامنے ننگا ہو چکا ہے اس لئے اس سے کسی بھلے کی اُمید عبث ہے۔ بہتر ہو گا کہ ہمارے سیاسی بھائی اور سیاسی جماعتیں صرف زبان سے قومی یکجہتی کی بات نہ کریں،بلکہ عملی میدان میں سب مل کر ایسی غیر ملکی چال کو ناکام بنائیں کہ حملہ ہماری سماجی اور معاشی جڑوں پر کیا گیا ہے اور مسلسل کیا جا رہا ہے اس لئے موجودہ حالات کو بہتر بنانے کے لئے مذاکرات کا عمل شروع کیجئے۔کوئی تو ایسا ہو جو آگے بڑھ کر اِن سب کو ایک میز پر لے آئے، یہ اِس لئے بھی ضروری ہے کہ ایٹمی پاکستان بھی تو ہدف ہے۔حالیہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو بھی اسی تناظر میں دیکھیں!