ارکان اسمبلی کی نئی مراعات پر ناحق واویلا کیوں؟
میں جس بستی میں مقیم ہوں،اسے ایک منتخب مینجمنٹ کمیٹی چلاتی ہے۔دو سال قبل کمیٹی کی مدت ختم ہوئی تو ڈی سی ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوا۔ یہ نو آبادیاتی ”صاحب“ دورے پر آیا تو میں ازراہ حصول معلومات دیکھنے ہم بھی گئے پہ تماشا نہ ہوا کے مصداق وہاں جا پہنچا۔ 10 منٹ سے زیادہ کھڑا ہونے کا یارا نہ رہا۔ اٹھارویں اسکیل کے ”صاحب“ کے سامنے میں نے قد آور معززین کی لیلائے حیات کو زندان تملق کا اسیر ہی پایا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ 20 ویں سکیل تک کے ریٹائرڈ افسر اور دیگر خوب کھاتے پیتے لوگ ڈپٹی کمشنر کے سامنے ذرا ذرا سی ضرورت کے لیے یوں کھڑے گھگھیاتے پائے کہ توبہ ہی بھلی۔
پھر نئی کمیٹی بن گئی۔ کمیٹی نے مسائل کے حل کی خاطر واٹس ایپ گروپ بنایا۔ دیکھا کہ ادھر مسئلہ لکھا گیا، ادھر مقررہ اہلکار نے بلا تخصیص لیل و نہار عاجز و مسکین بنے ممکنہ حد تک کم سے کم وقت میں کام کر دیا۔اس مینجمنٹ کمیٹی کا موازنہ کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے کر لیجئے۔ ہماری کمیٹی ہی وکٹری اسٹینڈ پر کھڑی ملے گی۔ان منتخب عہدیداروں کو ملتا کیا ہے؟ دیکھا کہ وہ معززین جو ڈی سی کے آگے خوشامدوں کے ڈونگرے برسا رہے ہوتے تھے, وہی لوگ اپنے منتخب نمائندوں سے گلی میں نیا بلب لگانے کا مطالبہ کرتے وقت بھی وہ درشت لہجہ اختیار کرتے ہیں کہ مکرر توبہ۔
اور یہ بھی نہیں کہ یوں لکھنے بولنے والے ان پڑھ مزدور، پلمبر،موچی، بڑھئی ہیں۔ تحکمانہ انداز گفتگو اور درشت لہجے کے سہارے گروپ میں ان لکھنے بولنے والوں میں سے 70 فیصد انگریزی میں لکھتے ہیں۔ معمولی سرکاری اہلکار کے سامنے دست بستہ کھڑے ان اصحاب کو اپنوں میں سے دن رات ایک کرنے والی کمیٹی کیا ملی کہ ”معززین“ کی پہچان نکھر کر سامنے آگئی۔ سوچتا ہی رہا کہ ایسا کیوں ہے۔ پھر ایک رات پچھلے پہر شاعر مشرق ملے تو عرض کیا:حضرت! وہ فرنگی ساحر چارلس ڈکنزA Tale of Two Citiesمیں ایک بستی کی دو کہانیاں تو رقم کر گزرا، پیر و مرشد! میری بستی کے بندہ ہائے مومن تو وہی ایک، پر یہ کیا کہ گنگا گئے تو گنگا رام جمنا گئے تو جمنا داس! یا حضرت علامہ، حاکم کے سامنے تمہارا شاہین بھیگی بلی لیکن ساتھی و محسن (کمیٹی کا عاجز و مسکین کرتا دھرتا محسن گجر ہے) کے آگے وہی بالشتیہ شیر ببر بن بیٹھے تو کیوں؟
علامہ بولے تو بولتے ہی چلے گئے۔ "ارے بالک! کبھی وہ جو تمہارا”خوب“ ہوا کرتا تھا نا, سقوط سرنگا پٹم کے بعد وہ بتدریج ”ناخوب“ ہوتا چلا گیا, کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر، ارے کج فہم بز اخفش، قوموں کی زندگی میں 77 سال کی بھلا حیثیت ہی کیا؟ اپنے حال کے جس”خوب“ کو تم تمغہ افتخار بنائے سجائے گھوم رہے ہو، ماضی میں وہ تمہارا”ناخوب“ ہوا کرتا تھا۔ کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر، اب آنکھیں بند کر کے سو جاؤ، صبح ابٹھ کر اپنی ہر طرف پھیلے ”خوب“ کو ”ناخوب“ میں بدلو ”خوب“ فی الاصل وہی ہے جسے تم ”ناخوب“لئے بیٹھے ہو، چلو سو جاؤ۔
صبح اخبار میں لکھا دیکھا: "عہدے داران پنجاب اسمبلی کی مراعات میں غیر معمولی اضافہ، رکن اسمبلی کی تنخواہ 76 ہزار سے چار لاکھ کر دی گئی،”رات کو شاعر مشرق سے ہتھ پنجا نہ ہوا ہوتا تو میں بھی اسمبلی کو کوسنے دیتا، لیکن ملک بھر کے تمام لوگوں کا یہ ”ناخوب“ میرا ”خوب“ ہے۔ مجھے خوشی ہوئی۔ریٹائرڈ پاپا جونز جرنیل پنشن اور کروڑوں کے پلاٹ کے ساتھ سی پیک اتھارٹی سے 36 لاکھ ماہانہ مستزاد میں پاتا تھا۔ سرکاری کارپوریشنوں کے بڑوں کی مراعات کروڑوں روپے ماہانہ میں ہیں۔ نیشنل بینک، اسٹیٹ بینک، پی آئی اے، او جی ڈی سی ایل کے بڑوں کی مراعات بلا مبالغہ کروڑوں روپے ماہانہ ہیں تو ارکان اسمبلی کے چار لاکھ پر واویلا کیوں؟ یہ سیاپا کرنے والے وہی معززین ہیں جو ہماری سوسائٹی کے خرانٹ ڈی سی کے سامنے بھیگی بلی تو اپنے عاجز و مسکین محسن کے آگے ببر شیر، کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر۔
ذرا عوامی نمائندہ بن کر سوچیے۔ وہ کچھ نہ کرے تو بھی وہ اپنے ڈیرے پر روزانہ کم از کم سو لوگوں کو چائے تو پلاتا ہی ہے۔ 50 روپے فی پیالہ عام سی چائے پر اس کے پانچ ہزار روپے یومیہ خرچ ہوتے ہیں کہ نہیں؟ مہینے بھر کی صرف یہی ایک رقم ڈیڑھ لاکھ بنتی ہے۔ تو پھر ”خوب“ کیا ہوا اور ”ناخوب“ کیا؟ کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر. صاحبان محترم! بحیثیت ادارہ میرے یہ عوامی نمائندگان، یہ ارکان اسمبلی، یہ کونسلر، یہ ماجھے گامے یہ تمام ہر جج، ہر جرنیل اور ہر بیوروکریٹ سے کہیں زیادہ لائق تکریم ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ یہ میرے اپنے ہیں, میرے نمائندے ہیں، انہیں میں نے وہاں بھیجا ہے؟ نہیں۔ جسٹس کا بستہ اُٹھانے والا ان پڑھ نوکر سوا دو لاکھ روپے ماہانہ ڈکار جاتا ہے۔ اور میرے رکن اسمبلی کو صرف 76 ہزار روپے تنخواہ اور لامحدود کردار کشی بونس میں ملے؟ تو کیوں؟ بولو بتاؤ؟
موٹروے پولیس بنی تو گیارویں سکیل کا میرا ایک عزیز اے ایس آئی پنجاب پولیس سے وہاں چلا گیا۔ یوں مجھ لیکچرر کی تنخواہ اس کی تنخواہ کا نصف ہو گئی تو وہ یوں بولا: ”بھائی جان اب میں گند کماؤں کھاؤں تو کیوں“؟ صرف چائے پر ڈیڑھ لاکھ ماہانہ خرچ کرنے والے ایم پی اے کو 76 ہزار روپے ملیں گے تو باقی رقم وہ کہاں سے لائے گا؟ ضمیر کو بچا رکھے تو کیسے؟ ہے اس کا کوئی جواب آپ کے پاس؟ اب اسے چار لاکھ ملیں گے تو آج نہ سہی، سب نہ سہی 10-20 فیصد چراغ ہی جل اٹھے تو کبھی تو روشنی ہوگی، فرنگیوں نے ڈیڑھ سو سال میں صحرائے زیست کے ہمارے راہنما یعنی ”امام“ کا یہ حال کر دیا کہ فوجی یونٹ کے مولوی کو موچی، نائی، بڑھئی وغیرہ کے ساتھ کوارٹر دیا جاتا تھا۔ جنرل ضیا ء نے اسے نان کمیشنڈ افسر بنا کر ذرا سا اوپر اٹھایا تو تب بھی لوگ یونہی چیخے تھے جیسے آج ارکان پنجاب اسمبلی کے 76 ہزار کے چار لاکھ ہونے پر سیخ پا ہیں۔ کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر۔ میں نے باقی اسمبلی عہدے داروں کی مراعات بھی دیکھیں جو دیگر ریاستی زمروں کے مقابلے میں اب بھی بہت کم ہیں۔
اقتصادی بحران کا رونا مت روئیے۔ اسی اقتصادی بحران میں نو آبادیاتی نظام کی باقیات پائیں تو کروڑوں میں۔ اور دینے والا پائے تو سپریم کورٹ کے ان پڑھ چپراسی سے بھی کم، کیوں؟ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، فچ، موڈیز اور اسٹینڈرڈ اینڈ پورز سب مل کر ہماری بہتر اقتصادی حالت بتائیں تب بھی میں متامل رہوں گا، تا وقتیکہ برادر بزرگ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کچھ کہہ دیں کہ مستند ہے انہی کا فرمایا ہوا۔ اور ڈاکٹر صاحب موصوف کا اقتصادی لب و لہجہ میں نے چھ سال میں پہلی دفعہ بدلا بدلا اور حوصلہ افزا دیکھا۔ تمام اقتصادی اشاریے مائل بہ تشکر ہیں۔ چنانچہ دعا کے ساتھ توقع ہے کہ ان ارکان اسمبلی کی کارکردگی اب خوب بہتر ہو جائے گی۔ دیگر اسمبلیوں سے گزارش ہے کہ وہ بھی اس نوآبادیاتی”ناخوب“ کو ”خوب“ میں بدل ڈالیں۔
٭٭٭٭٭