پاکستان اور کم عمری شادی کی رسومات

ہمارا ملک ایک اسلامی ریاست ہے اور یہاں پر تمام اسلامی قوانین رائج ہیں ان ہی میں سے ایک قانون نو عمری میں شادی نہ کرنے کا بھی بنایا گیا ہے لیکن اس پر عملدرآمد بہت کم ہورہا ہے اسکی وجہ تعلیم کی کمی ،غربت ،معاشی بدحالی اور جہیز جیسی لعنت شامل ہے ۔وہ عمر جس میں لڑکیاں اپنی گڑیوں کی شادیاں رچاتی ہیں اس عمر میں انہیں سرخ جوڑا پہنا کروداع کردیاجاتا ہے۔ ایک مرد کے سر سے اسکا بوجھ اتار کر دوسرے مرد کے کاندھوں پر ڈال دیاجاتاہے اور اسطرح ایک پورے کنبے کی ذمے داریاں اسکے معصوم کاندھوں پرلاد دی جاتی ہے۔
کم عمری کی شادی کا اوسط شہروں کے مقابلے میں دیہاتوں میں زیادہ ہوتا ہے جہاں لڑکیوں کی شادی کا فیصلہ والدین کے بجائے وڈیرے یا پنچایت کرتی ہے۔ جہاں والدین کا لیا ہوا قرضہ خاندانی جھگڑے جائداد کا بٹوارہ یا خون معاف کرنے کاسوال ہو۔ہر مرحلے پر کمسن لڑکی کو اسکا کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے مختلف صوبوں میں ایسی شادیاں کو " سوارہ " ونی کے نام سے جاناجاتاہے اسکے علاوہ سندھ میں تو اپنے مذموم مقاصد کوپورا کرنے کیلیے لوگ " کاروکاری " قرآن سے شادی جیسی قبیح رسوم بھی ادا کرتے ہیں ۔کیا ہمارے ارباب اعلیٰ ان مذموم اور قبیح رسموں کو ختم کرنے کیلیے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتے جس سے کم عمراورکمسن لڑکیاں اس معاشرے میں چین و سکون سے زندگی گزارسکیں اور کسی قسم کاکفارہ ادا کرنے کا باعث بننے سے بچ سکیں ؟ کیا ہمارے آئین میں موجود قانون کم عمری کی شادی پر عملدرآمد نہ ہو ،کی پاسداری نہیں کرسکتے ؟ کیا ہمارے ملک میں تعلیم کو عام کرکے وہ خواتین جو مردوں کے غلط و فرسودہ روایتوں پر عملدرآمد کرتی ہیں انکی آنکھیں کھل جائیں اور وہ اپنے متعلق سوچ سمجھ کرقدم بڑھا سکیں ؟ اور تعلیم کے ذریعے انکو نئی روشنی عطا کی جائے تاکہ وہ باشعور قوم بن کر اپنے ملک و ترقی میں اہم کردار ادا کرسکیں۔۔۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔