عورت اور خدمت

مرد اور عورت کے بیچ مثالی تعلق تو خیر اب قصہئ پارینہ بن چکا ہے،مگر حقیقت یہ ہے کہ مرد کو قدرت نے جہاں سکتِ جہد و مشقّت دی ہے تو وہاں عورت کو مودّت و خدمت کے جذبات سے سرشار کر دیا ہے، گوکہ قدرت کی یہ دین آج عورت کو پسند نہیں اور اِس ناقابلِ تردید حقیقت کو آج کی عورت کسی نہ کسی صورت میں جھٹلانے اور دبانے کی کوشش میں مصروف ہے مرد اور عورت دونوں کے حقوق یکساں ضرور ہیں، مگر ان دونوں کی ذمہ داریوں میں جوہری فرق ہے، عورت جس قدر بھی خوبصورت اور ذہین ہو، مگر جب تک وہ مودّت و خدمت کے جذبات کو بروئے کار نہیں لاتی تب تک وہ ایک ادھوری عورت ہی رہتی ہے اسی ادھورے پن کو آج عورت مادی اشیاء اور غیر ضروری خواہشات کے بل بوتے پر مکمل کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے حالانکہ عورت چاہے تو ایک پل میں پْرسکون اور مطمئن ہو سکتی ہے،
جبکہ اس کے برعکس مرد اتنی جلدی مطمئن نہیں ہوتا، کیونکہ عورت کی کیمسٹری بہت نفیس اور خالص ہے وہ اپنے اندر بھاری پن زیادہ دیر تک جذب نہیں کر سکتی، آج بھلے عورت کی ترجیحات بدل چکی ہوں، عورت صنعت و حرفت اور سائنس و تکنیک جیسے مشقّت آمیز شعبوں میں خود کو مصروف کر چکی ہو، مگر حقیقت یہ ہے کہ عورت کا مابعد الطبعی جوہر مرد سے بے لوث مودّت اور اْس کی مسلسل خدمت ہی ہے، ممکن ہے کوئی عورت آٹھ گھنٹے کمپیوٹر پر بیٹھ کر کام کرنے میں سکون محسوس کرتی ہو، مگر حقیقت یہ ہے کہ عورت کی جسمانی اور روحانی ساخت ایسی نہیں کہ وہ اپنے جذبات کو مرد ذات کے دائرے سے باہر نکال کر رکھ دے۔
ابتدائے آفرینش سے لیکر آج تک ہر زمانے اور ہر تہذیب و تمدن میں مرد اور عورت کا غیر مشروط ساتھ رہا ہے، اسلام اس ساتھ کو نکاح یعنی سماجی معاہدے کا نام دیتا ہے کہیں یہ تعلق میرج یا کامن لاء میرج تو کہیں وِواہ جیسی اصطلاحات سے موجود ہے، مگر مرد اور عورت کا یہ تعلق ہمیشہ ہر معاشرے میں موجود رہا ہے۔ کسی زمانے میں عورت جس گھر میں بیاہ کر لائی جاتی تو وہ پورا گھر اْس کی خدمت سے مستفید ہوتا، اپنے مرد کے علاوہ وہ اپنے مرد کے پورے خاندان کو سنبھال لیتی اور اسے اس سب میں سکھ بھی ملتا،لیکن آج ایسا نہیں ہے اور نہ ہی اب ایسا ہو سکتا ہے کیونکہ آج کی عورت بہت ذہین ہو چکی ہے۔ مرد کا خاندان تو درکنار، اپنے مرد ہی کی خدمت کو وہ بوجھ سمجھنے لگی ہے اور بینر اْٹھا کر ایک ایسے شخص سے مخاطب ہے جو اْس کی مودّت و خدمت کا غیر مشروط حق دار ہے کہ " کھانا خود گرم کر لو"، مَیں دقیانوسیت کا حامی نہیں عورت کو تعلیم و تربیت اور اپنی مرضی سے جینے کا پورا پورا حق حاصل ہے، مگر سوال یہ ہے کہ عورت ہے کیا اور اْس کی مابعد الطبیعیات مرد کی نسبت ہیں کیسی؟
اس سوال پر شاید آج تک خود عورت نے بھی غور نہیں کیا۔ تعلیم بلاشبہ ایک روشنی ہے تربیت ایک بہترین زندگی کی ضامن ہے فطرتی آزادی بھی بنیادی معنی رکھتی ہے، مگر ان سب کا مطلب صرف ایک مطمئن زندگی کے علاوہ کیا اور کچھ بھی ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں …… مرد ہو یا عورت، انسانی زندگی کا واحد مقصد ہی تسکین اور اطمینان ہے، لیکن جب انسان اپنی من مانی کرنے کے باوجود بھی پْرسکون نہ رہ سکے تو پھر انسان کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ وہ زندگی کے کس باب کو پیچھے چھوڑ آیا ہے جس کے سبب وہ بے چین اور دکھی ہے، عورت کا میٹا فزیکل سٹرکچر کچھ ایسا ہے کہ اْس میں مودّت نمو پذیر ہوتی ہے، مودّت دراصل قرآنی اصطلاح ہے جس کے معنی ایک خاص قسم کا اطمینان ہے جو صرف ایک عورت مرد کی قربت میں آ کر ہی محسوس کرتی ہے۔
قرآن کریم کی سورہ روم میں ہے جعل بینکم مودّت و رحمہ یعنی ہم نے تم دونوں کو ایک دوسرے کے لئے مودّت و رحمت بنایا۔ آیت کا یہ جز بہت معنی خیز ہے اصطلاح مودّت جہاں عورت کے لئے خاص ہے تو وہاں اصطلاح رحمت مرد کے لئے خاص کر دی گئی رحمت بھی ایک عظیم الشان جذبہ ہے، عورت چاہے تو کچھ بھی کر سکتی ہے جہاز اْڑا سکتی ہے بارڈر پر جا سکتی ہے آفس میں بیٹھ سکتی ہے بچوں کو پڑھا سکتی ہے انڈسٹری چلا سکتی ہے وغیرہ وغیرہ، مگر عورت کے فطرتی میلان کا مطالعہ کیا جائے تو عورت سراپا محبت و خدمت ہے عورت کا وجود انسان کی جنم بھومی ہے تبھی وہ اضافی ذہنی صلاحیتوں کی بجائے محبت، شفقت، عقیدت اور خدمت جیسے لازوال جذبات کا نفیس مرکب ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جب سے جدید طبی سہولتوں کا رواج عام ہوا تو مریض کی تیمارداری و خدمت کے لئے مرد کی بجائے عورت ہی کو منتخب کیا گیا اور یہ اْسی فطری میلان کے سبب کیا گیا،
تاکہ عورت اپنی فطری صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر مریض کی بہترین خدمت کر سکے یہ نہیں کہ مرد خدمت کرکے تسکین محسوس نہیں کرتا،بلکہ جو اطمینان اور راحت عورت کو بعد از خدمت نصیب ہوتی ہے مرد شاید اْس احساس سے آشنا نہیں ہو سکتا پس خدمت نسوانیت کا جزو لاینفک ہے یہ انتہائی اہم نکتہ آج کی عورت کو سمجھنے کی ضرورت ہے نہیں تو ایک پْرسکون گھر کا تصور ہی ختم ہو جائے گا،بلکہ جدید دنیا میں تو اب ایک پْرسکون گھر کا تصور قریباً ختم ہی ہو چکا ہے عالی شان مکانات اور عمارتیں تو موجود ہیں، مگر اْن شیشے کے سائبانوں میں محبت، خدمت اور اطاعت جیسی والہانہ اور غیر مشروط اقدار ناپید ہو چکی ہیں اگر روایتی طرزِ ازدواج آج کی عورت کے لئے قابلِ قبول نہیں رہا تو پھر یہ بھی عورت زاد کی ایک انتہائی اہم ذمہ داری ہے کہ وہ روایتی طرزِ ازدواج کے مقابلے میں اْس سے کہیں بہتر ازدواجی نظم دنیا کو دے، تاکہ مرد ایک عورت کی مخصوص فطرتی صفتِ خدمت سے محروم نہ ہو۔