بلوچستان، تینوں چیف کی یکجائی کا متقاضی صوبہ

  بلوچستان، تینوں چیف کی یکجائی کا متقاضی صوبہ
  بلوچستان، تینوں چیف کی یکجائی کا متقاضی صوبہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خاندانی عظمت کی ان ہمالیائی رفعتوں میں اطمینان سے بیٹھے ہیں جہاں پرکٹے اور لنگڑے مرغان صحرا کے اچھوتوں کی خود اپنی پہنچ تو کیا، قاضی صاحب ان کی پرواز تخیل سے بھی ماورا ہیں، لیکن فائز عیسیٰ اپنی تمام رفعتوں کے باوصف بہرحال ایک فرد ہیں، ان کے ساتھ کسی بیکری میں بدتمیزی کو اچھالنے پر مجھے کچھ تعجب نہیں ہوا، صاحب ان لوگوں نے تو اپنی چھت، اپنی دھرتی ماتا اور اپنی ماں کے ساتھ وہ سلوک کیے جس کے لیے مجھے، قارئین سے معذرت کے ساتھ، زنا بالمحارم(incest)  کے علاوہ کوئی ترکیب نہیں ملتی۔ آئی ایم ایف کو خطوط کہ پاکستان کو قرض نہ دیا جائے۔ پاکستانی پائلٹوں پر جعلی لائسنس کا جھوٹا الزام جس کے بعد ہمارے تمام طیارے یورپ امریکہ میں اجنبی قرار پائے، پھر پاکستانی پائلٹ پھٹیچر سی ایئر لائنوں کے لیے بھی اچھوت بن گئے۔

 حکیم سعید اور ڈاکٹر اسرار کے کہے پر مت یقین کرو۔ کیا خود اندھے بہرے ہو؟اپنی آنکھوں کانوں سے کیا ہم نے نہیں دیکھا سنا کہ میئر لندن کا انتخاب لڑنے کو پاکستانی مسلمان بیٹا میدان میں اترا تو مقابلے پر عالمی صیہونی تحریک کا فرد تھا، اس صیہونی کو کمک ملی بھی تو کہاں سے؟ ان ملک و دین دشمن اور تہذیب و اخلاق دشمن عناصر کے رئیس نے لندن جا کر صیہونی تحریک کے داعی اور موئید کی انتخابی مہم خود چلائی۔ نہ مانو حکیم سعید کی، مت اعتماد کرو ڈاکٹر اسرار پر لیکن اپنی آنکھیں کان تو کھولو۔ لہٰذا قاضی فائز تو محض ایک فرد ہیں،یہ لوگ تو پورے اسلامی جمہوریہ کے درپے ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ آپ کس شمار میں ہیں،ان بدبختوں نے تو دربار رسوؐل میں اپنی نچنیاں اور بھانڈ تک نچائے ہیں۔

اخباری اطلاعات کے مطابق نئے آئی ایس آئی چیف امور بلوچستان میں دسترس رکھتے ہیں۔ دیگر صوبوں کی مانند بلوچستان بھی متعدد مسائل کا شکار ہے۔ لیکن مسائل کے حل کے لیے سیاسی انداز کی جگہ طاقت کا استعمال یہاں کا بہت بڑا مسئلہ ہے، غیر ملکی امداد کے سہارے صوبے میں گنتی کے کچھ علیحدگی پسند عناصر بلا شبہ موجود ہیں، گھبرا مت جایا کریں۔دیسی اخبارات کے علاوہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ بھی پڑھا سنا کریں۔ دنیا کے طاقتور ترین ملک امریکہ میں ایک دو چار چھ نہیں، درجنوں فعال(active) علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں، تفصیل پھر کبھی، کیا دوسرے طاقتور ترین ملک چین میں منگولیا، تبت، مقبوضہ مسلم ترکستان اور ہانگ کانگ میں علیحدگی کی فعال تحریکیں نہیں ہیں۔ ایران میں کیا کردستان، بلوچستان، خوزستان اور آذربائجان میں طاقتور علیحدگی پسند تحریکیں نہیں چل رہیں۔ بھارت کی تمام 28 ریاستوں اور 8یونین علاقوں میں سے ایک ریاست بتائیے جہاں متعدد طاقتور علیحدگی پسند موجود نہ ہوں۔اطمینان دلاتا ہوں کہ بلوچستان کی ڈیڑھ کروڑ آبادی میں علیحدگی پسند اتنے بھی نہیں جنہیں ہم 4ہندسی عدد سے اوپر شمار کر سکیں۔

دل خوش کن خبر یہ کہ تربت کی عدیلہ بلوچ کو، تفصیل تو نہیں لیکن، سیکیورٹی فورسز نے پہاڑوں سے بازیاب کرا لیا ہے۔ عدیلہ نے فرخ عظیم رکن بلوچستان اسمبلی کے ہمراہ ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عالمی ادارہ صحت کا ایک منصوبہ چلاتے چلاتے میرا رابطہ ان افراد سے ہو گیا جنہوں نے مجھے بہکا کر خود کش حملے کے لیے تیار کر دیا، وہ لوگ برین واشنگ، ورغلانے اور بہلانے پھسلانے سے لے کر سبز باغ دکھا کر نوجوانوں کو پہاڑوں پر تیار کرتے ہیں۔ میں بہت بڑا گناہ کر رہی تھی، ریاست کی شکر گزار ہوں جس نے مجھے بچا لیا۔ عدیلہ کے والد نے بھی یہی باتیں ذرا زور دے کر کہیں، فرخ عظیم نے ازراہ انکسار اتنا کہا کہ ریاست نے بطور ماں اپنا فرض ادا کیا ہے۔

غیر ضروری نہ سمجھیں تو میں کچھ خوش گمانی کر دکھاؤں گا، ممکن ہے، میرا قیاس غلط ہو کہ نجومی تو میں ہوں نہیں، لیکن اس خوش گمانی کے سہارے ریاستی اداروں کو کچھ تشویق دلا دی جائے تو سب کا بھلا ہے۔ شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔ دہشت گردوں سے عدیلہ بلوچ کی پرامن بازیابی امید کی بہت بڑی چھتری ہے۔دہشت گرد اپنی افرادی قوت میں اضافے کے لیے کوئی ایک حربہ استعمال نہیں کرتے، نچلی سطح پر معصوم، نو عمر اور عدیلہ جیسے کچے ذہن کے لوگ انہیں بآسانی مل جاتے ہیں، بدقسمتی سے ان خام ذہن لوگوں کا دہشت گردوں سے معمولی سا رابطہ ہوتے ہی ریاستی ادارے انہیں اچک لیتے ہیں۔ میں خود چند ایسے لوگوں سے باخبر ہوں جنہیں اٹھا لے جانے کے بعد ہفتوں مہینوں تک محض محبوس رکھا گیا،مدتوں بعد تحقیق تفتیش کا آغاز یہ ذہن میں رکھ کر کیا گیا کہ یہ مسلمہ دہشت گرد ہیں، حالانکہ یہ نو عمر افراد سفاک تفتیشی افسروں کے حوالے کرنے کی بجائے انہیں ان ماہرین نفسیات کی نگرانی میں دیا جانا چاہیے جو ان کی الجھی ہوئی ذہنی پرتوں کو سلجھا کر انہیں دوبارہ کارآمد شہری بناسکیں۔

غائب کہلانے والے افراد کے کئی زمرے ہیں، ان میں ریاستی تحویل میں اصل دہشت گردوں سے لے کر کچے ذہن کے ناواقف نوجوان تک ہو سکتے ہیں۔ غائب افراد کا ایک زمرہ وہ ہے جو دہشت گردوں کے ساتھ ملک دشمن سرگرمیوں میں شریک ہوتا ہے،جیسے ایران پر ہمارے جوابی میزائل حملے میں مارے گئے وہ غائب افراد بھی تھے، جنہیں بلوچ لبریشن آرمی کے مارے جانے والے علیحدگی پسند عبدالغفار لانگو کی بیٹی ماہ رنگ بلوچ یہ کہہ کر ہجوم کو ورغلاتی رہی کہ یہ "معصوم" لوگ ریاستی تحویل میں ہیں، اور یہ کہ ان کا کوئی جرم ہے تو انہیں عدالت میں لایا جائے، وہ تو الحمدللہ ہمارے ایک میزائل نے اس عورت کی قلعی کھول دی، ورنہ ندرت کے تعاقب میں اور بدون چھان پھٹک کے اس عورت کے حق میں لکھنے والے اخباری قلم کار اپنی تحریروں کو بلوچستان کے حق میں آواز قرار دے رہے تھے۔

غائب افراد سے عدالتی انداز میں نمٹنے والوں کے چیف، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خود بلوچ ہیں۔ آئی ایس آئی کے موجودہ چیف بلوچ امور کے ماہر ہیں، بلوچ حکومت بخوبی کام کر رہی ہے، یہاں کے دیگر مسائل کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ ریاستی تحویل میں موجود غائب افراد کا بھی ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ وفاق اور صوبے کے مذکورہ اور چند دیگر بڑے افراد غیر رسمی انداز میں خاموشی سے کہیں بیٹھ کر غائب افراد کے معصوم اور کچے ذہن والے زمرے کے باپ بن کر سوچیں، انہیں عقوبت خانوں میں رکھنے کی بجائے ماہرین نفسیات کے حوالے کریں۔ یہ وہ بہت بڑا مسئلہ ہے جس سے ریاست دشمن تنظیموں اور ذرائع ابلاغ کو خوب مواد ملتا رہتا ہے۔حقیقت کچھ اور ہوتی ہے، ماہرنگ کے "غائب افراد"کی ایران میں ہلاکت اور عدیلہ بلوچ کی بازیابی اس کی صرف دو مثالیں ہیں، امید ہے کہ ہمارے یہ تینوں با اختیار چیف خاموشی سے کہیں مل بیٹھ کر اس کا غیر رسمی حل نکالیں گے۔

مزید :

رائے -کالم -