لاہور بدل رہا ہے،پنجاب کب بدلے گا؟

  لاہور بدل رہا ہے،پنجاب کب بدلے گا؟
  لاہور بدل رہا ہے،پنجاب کب بدلے گا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ماشاء اللہ جی ماشاء اللہ زندہ دلانِ لاہور کو137 ارب روپے کا ڈویلپمنٹ پروگرام مبارک، حکومت پنجاب نے یہ سلوگن بھی دیدیا ہے۔”مریم نواز کا دور، بدل رہا ہے لاہور“۔ اس پروگرام کے تحت عوام کو نکاسی ئ آب کا بہترین نظام اور پینے کا صاف پانی بھی فراہم کیا جائے گا۔اب یہ سن کر سرائیکی وسیب میں بسنے والے حسب ِ سابق دہاڑیں ماریں گے۔خوشی کا اظہار نہیں کریں گے کہ بھائیو ہمارا دارالحکومت مزید چمک رہا ہے۔ بلٹ ٹرین بھی وہاں سے چلے گی، پہلی باری تو دارالحکومت کی ہی آنی چاہئے، پھر صوبے کے دیگر شہروں کا نمبر بھی آ جائے گا۔اُن کی نظر اشتہار میں درج اُس سطر پر ہرگز نہیں جائے گی کہ آئندہ مالی سال میں پنجاب کے تمام اضلاع میں پنجاب پیکیج کے تحت اس طرز کے ترقیاتی منصوبوں پر کام کا آغاز کیا جائے گا۔وہ یہی کہیں گے ایسے لارے تو ہر دور میں اُن  کا مقدر رہے ہیں۔ملتان اور جنوبی پنجاب تو وہ علاقے ہیں جس کا ترقیاتی بجٹ تک ماضی میں لاہور منتقل کیا جاتا رہا ہے حتیٰ کہ صحت کے منصوبوں کے لئے مختص فنڈز بھی لاہور منگوائے جاتے رہے ہیں، یقین واثق تو انہیں اب بھی ہے کہ لاہور کے لئے اگر137 ارب روپے کا ڈویلپمنٹ پروگرام رکھا گیا ہے تو باقی پورے پنجاب کے لئے زیادہ سے زیادہ تیس چالیس ارب روپے کا پروگرام آئے گا۔ اب ملتان والے پچھلی کئی دہائیوں سے سیوریج اور صاف پانی کے شدید ترین مسائل کا شکار ہیں۔ 2015ء میں جب شہباز شریف وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے اس تاثر کو ختم کرنے کے لئے کہ اہم بڑا منصوبہ لاہور ہی کو دیا جاتا ہے، ملتان میں میٹرو بس کا منصوبہ منظور کیا۔اُس وقت بھی انتظامیہ اور سیاسی نمائندوں کی طرف سے یہ تجویز دی گئی، حضور اس منصوبے کو چھوڑیں، یہی فنڈز ملتان کے سیوریج کو بدلنے پر صرف کریں، جو سو سال پرانا ہے اور بالکل ناکارہ ہو چکا ہے۔ اُس وقت سیوریج بدلنے کا تخمینہ 57ارب لگایا گیا جبکہ میٹرو بس منصوبے پر اِس سے زیادہ رقم صرف ہونا تھی،مگر یہ تجویز قبول نہیں کی گئی اور میٹرو بس کا منصوبہ منظور ہو گیا۔ اس کا روٹ بہت وسیع تھا اور اگر واقعی یہ منصوبہ اُس روٹ کے مطابق بن جاتا تو شہر کے ٹرانسپورٹ مسئلے کا حل نکل آتا،مگر وزیراعلیٰ شہباز شریف کو سیاسی دباؤ ڈال کر کئی لوگوں نے اپنی زمینیں اور گھر بچا لئے۔اس منصوبے کے لئے مختص آدھی رقم واپس چلی گئی اور ایک مختصر سے روٹ پر یہ منصوبہ بنا،جس سے75فیصد شہر اس منصوبے کے روٹ سے نکل گیا۔اُس وقت کسی عقل کے اندھے افسر یا سیاسی نمائندے کو یہ عقل نہیں آئی کہ جو فنڈز بچ گئے ہیں انہیں شہر کا سیوریج منصوبہ مکمل کرانے پر صرف کیا جائے۔یقینا شہباز شریف اُس وقت مان جاتے،کیونکہ انہوں نے تو اربوں روپے منظور کر کے ملتان بھجوا دیئے تھے۔ ملتان کا المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں کے سیاسی نمائندے اپنے ذہن کی  تنگنائے سے باہر نہیں نکلتے، چھوٹے چھوٹے مفادات اور چھوٹے چھوٹے لالچ انہیں شہر کے اجتماعی مفاد والے منصوبوں سے دور کر دیتے ہیں ہم ملتانی سارا زور تخت ِ لاہور کو دبدعائیں دینے پر لگا دیتے ہیں،حالانکہ ملتان کی پسماندگی اُن نمائندوں کی وجہ سے ہے  جو ٹرانسفر پوسٹنگ کی ترجیحات میں پھنسے رہتے ہیں اور بڑے منصوبوں کے لئے آواز نہیں اٹھاتے۔

جنوبی پنجاب کے اہل فکر و دانش عموماً اور ملتان کے اہلِ نظر خصوصاً یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جب این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو وفاقی سے حصہ آبادی کے تناسب سے ملتا ہے تو پھر صوبوں کے اندر اُس کی تقسیم اس تناسب سے کیوں نہیں کی جاتی۔ کچھ عرصہ پہلے ایک یونیورسٹی میں اس موضوع پر سیمینار ہو رہا تھا،جس میں مقررین نے کہا اس تفریق کی وجہ سے جو لاہور اور باقی پنجاب میں رکھی جاتی ہے صوبے کا توازن بگڑر ہا ہے۔ایک مقرر نے کہا آپ امریکہ جا کر دیکھیں، جو سہولتیں نیو یارک، واشنگٹن اور دیگر بڑے شہروں میں ہیں۔ ویسی ہی سہولتیں چھوٹے شہروں اور مضافاتی علاقوں میں بھی موجود ہیں۔یہی  وجہ ہے کہ ایک لاس اینجلس اگر بڑا شہر ہے تو اُس سے بڑا شہر اُس کے مضافات میں نظر آتا ہے۔یہ ارتکاز اختیارات ہو یا ارتکاز ترقی ہمیشہ مسائل کو جنم دیتے ہیں۔ ایک مقرر نے کہا آپ لاہور پر صوبے کا تمام بجٹ بھی لگا دیں تو شہر کے مسائل حل نہیں ہوں گے، چونکہ اُس کی ترقی،سہولتوں اور روز گار کے موقع کی وجہ سے اتنی یہ زیادہ آبادی بڑھ جائے گی۔لوگ صوبے کے باقی شہروں سے سے نقل مکانی کر کے لاہور آباد ہونے کو ترجیح دیں گے، یکساں ترقی کا فارمولا ہی ترقی کی اصل بنیاد ہے، مگر  ہمارے ہاں اس کے الٹ کام کئے جا رہے ہیں۔

لاہور پنجاب ہی نہیں پاکستان کا دِل ہے۔پرانے لاہور کو یاد کرنے والے اُس لاہور کو یاد کر  کے آہیں بھرتے ہیں جو باغوں اور رنگوں روشنیوں کا شہر تھا،جس کی زندگی میں ٹھہراؤ تھا اور باہر نکلنے والے اُس ہڑبونگ اور سڑکوں کی بے ہنگم ٹریفک سے تھک ہار کر گھر واپس آتے تھے۔مجھے خود یاد ہے کہ میں بسطامی موڑ ملتان روڈ سے9نمبر ویگن پر بیٹھ کر جی پی او چوک اُتر جاتا،مال روڈ پر واک کرتے اسمبلی ہال تک جاتا یا پھر انار کلی کی سیر کرتا۔آج کبھی اُس طرف جانا ہو تو یوں لگتا ہے اک شور کا دریا ہے اور تیر کے جانا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے لاہور کو سیمنٹ اور اینٹوں کا شہر بنا دیا ہے۔مجھے لاہور کی جس بات سے خوف آتا ہے، وہ اس کی ٹریفک ہے۔ایک کونے سے دوسرے کونے تک جانے کے لئے گھنٹوں لگتے ہی ہیں،دو چار کلو میٹر کا فاصلہ بھی عذاب بن جاتا ہے۔ایسے میں آپ جتنی بھی میٹرو بسیں، اورنج ٹرینیں، انڈر پاسز، اوور ہیڈ برج یا سیوریج کے منصوبے بناتے رہیں۔لاہور کے بہت سے حصے مخمل میں ٹاٹ کا پیوند ہی رہیں گے،تو اربابِ اختیار سے گذارش یہی کرنی ہے آپ پورے پنجاب کے بارے میں نہ بھی سوچیں تو کم از  کم لاہور کے بارے ہی میں سوچیں کہ کب تک اسے سونے کا شہر بنانے کے جنون میں پنجاب کے 37اضلاع کو ترقی سے محروم رکھیں گے۔یہ فطرت کا سادہ سا اصول ہے کہ جہاں مٹھاس ہو گی وہاں مکھیاں بھی آئیں گی،پالیسی تو یہ ہونی چاہئے کہ پورے پنجاب میں ترقی کا جال بچھا کر لاہور کی طرف آبادی کا رجحان روکا جائے۔ ملک کا سب سے بڑا صوبہ بھلا ایک شہر میں کیسے سما سکتا ہے۔ یہ تو خود لاہور کے ساتھ ظلم ہے کہ وہاں زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔وزیراعلیٰ مریم نواز صوبے کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ ہیں وہی اس روایت کو توڑیں کہ سب کچھ لاہور کے لئے ہی کرنا ہے۔ وہ اگر پورے پنجاب کو ترقی دینے کا مشن اپنا لیں تو تاریخ میں ایک منفرد مقام بنا سکتی ہیں۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -