پیپلزپارٹی کہاں ہے؟
جی ڈی اے کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر صفدر عباسی پرانے جیالے ہیں وہ اور ان کی بیگم ناہید خان اُس گاڑی میں بھی محترمہ بے نظیر بھٹو(شہید) کے ساتھ تھے جس پر نشانہ لگا اور محترمہ زخمی ہو کر گر گئیں اور ہسپتال جاتے ہوئے اللہ کو پیاری ہو گئیں۔اس گاڑی میں مرحوم مخدوم امین فہیم(ہالا شریف) بھی تھے یہ تینوں محفوظ رہے، محترمہ کی شہادت کے حوالے سے اب تک بہت سی کہانیاں چل رہی ہیں،لیکن حقائق کھل کر سامنے نہیں آئے۔آصف علی زرداری ایک سے زیادہ بار الزام تحریک طالبان پر عائد کر چکے ہیں اور اس تنظیم کے کچھ لوگ بھی مقدمہ قتل میں ملوث ہیں۔ آصف علی زرداری اور ان کے قریبی رہنماؤں کا موقف یہی ہے لیکن اِس امر کا جواز کوئی نہیں دیتا کہ قانون کے مطابق محترمہ کا پوسٹ مارٹم ضروری تھا لیکن یہ نہ ہوا،اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ موجودہ صدر آصف علی زرداری نے منع کیا تھا جو لیاقت باغ کے باہر اس سانحہ بعد ہی پاکستان آئے تھے،اِس سلسلے میں دہشت گردی کو اتنا دہرایا گیا کہ ہم جیسے حضرات جنہوں نے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی ٹارگٹ کلنگ پر بنے وارن کمیشن کی ضخیم رپورٹ بھی لفظ بہ لفظ پڑھی تھی، خیال کرتے ہیں کہ محترمہ کی شہادت اور کینیڈی کے قتل کی واردات میں کئی مماثلت ہیں تاہم بتدریج وہ لوگ چُپ ہو گئے جو مختلف نوعیت کے سوال کرتے تھے اور اب تو یہ الزام ٹی ٹی پی پر ہی ہے کہ بلوچستان کی حالیہ دہشت گردی کے حوالے سے سینیٹر شیری رحمان نے بھی یہی الزام دہرایا ہے کہ محترمہ کو تحریک طالبان کے دہشت گردوں نے شہید کیا۔
ڈاکٹر صفدر عباسی اور ناہید خان سے میرے تعلقات اچھے رہے اور مخدوم امین فہیم سے بھی ادب کا رشتہ تھا، محترمہ کی شہادت کے بعد میں نے ان حضرات سے رابطہ کر کے بات کرنے کی کوشش کی،لیکن رائیگاں گئی کہ یہ لوگ تکلیف دہ سوالات کا جواب دینے سے مکمل پرہیز کرتے تھے، مخدوم امید فہیم تو اللہ کو پیارے ہوئے، ڈاکٹر صفدر عباسی اور ناہید خان بقید ِ حیات ہیں اور محترمہ کی شہادت کے بعد ہی سے ان کا تعلق پیپلزپارٹی سے ختم ہو گیا تھا، ان میاں بیوی نے پیپلز پارٹی ورکرز کے نام پر اپنی الگ جماعت بھی بنا لی تھی، لیکن رنگ نہ جم سکا،چنانچہ ناہید خان نے شاید چُپ کا روزہ رکھ لیا اور ڈاکٹر صفدر عباسی جی ڈی اے کے ساتھ منسلک ہیں۔ یہ مجھے اس لئے یاد آیا کہ پچھلے دِنوں ڈاکٹر صفدر عباسی نے ایک انٹرویو میں یہ کہا تھا کہ جب تک آصف علی زرداری کا سایہ سلامت ہے تب تک بلاول بھٹو (سربراہ) لیڈر نہیں بن سکتے۔یہ ان کا کہنا ہے، ہم صحافی لوگ تو حالات کا جائزہ لیتے ہیں اور حالات یہ ہیں کہ بلاول بھٹو پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور آصف علی زرداری شریک چیئرمین ہیں، پیپلزپارٹی(پارلیمنٹرین) کے سربراہ آصف علی زرداری ہیں اور ایوانوں میں موجود اراکین اسمبلی کو ٹکٹ چیئرمین آصف علی زرداری کے دستخطوں سے جاری ہوئے تھے۔ بلاول سفارش تو کر سکتے تھے اپنے دستخطوں سے ٹکٹ جاری نہیں کر سکتے۔
عرصہ سے پیپلزپارٹی کے بارے میں لکھنا چاہتا تھا، لیکن کئی وجوہات کی بناء پر لکھ نہ سکا اور آج عرض کر رہا ہوں کہ بات ہی ایسی ہے۔بزرگ کہتے تھے کہ بڑ کا درخت بڑا گھنیرا اور ٹھنڈی چھاؤں والا ہوتا ہے،لوگ اس چھاؤں سے مستفید ہوتے ہیں،لیکن بڑ کے اس درخت کے نیچے گھاس بھی نہیں اُگتا اس لئے چوپال ایسے ہی بڑے درختوں کی چھاؤں میں چارپائیاں بچھا کر ہوتی ہے۔
ذکر پیپلزپارٹی کا ہوا ہے تو عام لوگ بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی صرف سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اور چاروں صوبوں کی زنجیر والی بات نہیں رہی۔یہ بڑی حد تک درست ہے، سندھ میں تو ابھی تک گڑھی خدا بخش کے مقبرہ کا فسوں جاری ہے تاہم دوسرے صوبوں میں پیپلزپارٹی کے اپنے رہنماؤں اور قیادت کی وجہ سے ہی یہ دن آ گئے ہیں کہ پنجاب میں کچھ حاصل کرنے کے لئے وفاق میں موجودگی کو بلیک میلنگ کے طور پر استعمال کیا گیا اور وزیراعظم نے کمیٹی بنا کر تحفظات دور کرانے کا یقین دلایا، جس کے بعد گورنر ہاؤس لاہور میں اس کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ بات یہاں پر پہنچی کہ مسلم لیگ(ن) کی طرف سے یہ منظور کر لیا گیا کہ جو ترقیاتی فنڈز مسلم لیگ(ن) کے اراکین کو ملیں گے اتنے ہی پیپلزپارٹی کے اراکین صوبائی اسمبلی کو مل جایا کریں گے البتہ تبادلوں اور تقرریوں کا مسئلہ التواء میں چلا گیا،اس کی وجہ یہ ہے کہ تاحال وزیراعلیٰ مریم نواز اس پر رضا مند نہیں ہیں،ان کا موقف ہے کہ تبادلے اور تقرری میرٹ پر ہوں گے اور یہ حکومت کا حق ہے،چنانچہ اس سمیت بعض امور اعلیٰ قیادت کی صوابدید پر چلے گئے۔ بہرحال اس کمیٹی کے ایک رکن نے جو پیپلزپارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری ہیں بعدازاں میڈیا سے بات کرتے ہوئے حکومت پر تنقید کی اور مسلم لیگ (ن) حکومت کی وزیر اطلاعات(سابقہ جیالی) عظمیٰ بخاری نے جواب بھی دے دیا۔
اس میٹنگ کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ صدارت مشترکہ تھی، مسلم لیگ(ن) کی طرف سے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور پیپلزپارٹی کی طرف سے راجہ پرویز اشرف کرسی صدارت پر تشریف فرما تھے۔راجہ پرویز اشرف قومی اسمبلی کے رکن، سابق وفاقی وزیر،وزیراعظم اور سپیکر قومی اسمبلی بھی ہیں اور پیپلزپارٹی پنجاب کے ورکنگ صدر ہیں۔ یہ کام انہوں نے کیا ہی نہیں،ان کی جگہ نائب صدر محمد فاروق ہی دفتر آتے جاتے ہیں،اب اگر بُرا نہ لگے تو پیپلز پارٹی کا صوبائی اور ضلعی تنظیمی ڈھانچہ موجود ہی نہیں اور سب لیڈر سابقہ حیثیت کو استعمال کرتے ہیں لیکن تمام تر دعوؤں کے باوجود پنجاب تو پنجاب لاہور میں بھی جماعت متحرک نہیں، البتہ گروپنگ موجود ہے،میرے خیال میں سیاسی جماعتوں کا ایک المیہ میڈیا بھی ہے اور اسی وجہ سے جماعتی تنظیم کی طرف کوئی توجہ نہیں۔آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کئی بار لاہور آ کر مشاورت کر چکے، لیکن بات آگے نہیں بڑھتی کہ عملی کام نہیں ہوتا۔اس جماعت میں بڑے متحرک لوگ رہے ہیں۔جہانگیر بدر (مرحوم) نے جنرل سیکرٹری سے صدر پنجاب تک کی ذمہ داریاں بڑے دھڑلے سے نبھائیں، وہ کارکنوں کے قریب بھی تھے، پھر فیصل آباد والے رانا آفتاب احمد خان کا دور بھی کارکنوں کو یاد ہے وہ تحریک انصاف کو پیارے ہوئے ہیں کہ ان کو پیپلزپارٹی کی صوبائی صدارت سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔راؤ سکندر حیات آج بھی کارکنوں کو یاد ہیں جبکہ قاسم ضیاء کی محنت بھی نظر آتی تھی لیکن اب راجہ پرویز اشرف بے نامی صدر ہیں اور فاروق قائم مقام صدر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ابھی تک تنظیمی اصلاحات نہیں کی گئیں اور شاید اس کی وجہ وہی ہے جس کا ذکر ڈاکٹر صفدر عباسی نے کیا۔افسوسناک بات تو یہ بھی ہے کہ بلاول بھٹو لاہور سے قومی اسمبلی کا الیکشن ہار گئے،ان کو بہت کم ووٹ ملے اِس حلقہ سے جیالے چودھری اسلم گل کو ضمنی انتخابات میں بلاول بھٹو سے چھ گنا زیادہ ووٹ مل گئے تھے حالانکہ جنرل انتخاب میں ووٹ زیادہ ہوتے ہیں اس حوالے سے تحقیقی رپورٹ ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی،بہت کچھ لکھا جا سکتا اور بہت کچھ ہے بھی لیکن اب اتنا ہی سہی، خود کو ٹھیک کریں گے تو پھربہتری ہو گی۔