”سیاست نہیں....ریاست بچاﺅ“

”سیاست نہیں....ریاست بچاﺅ“
”سیاست نہیں....ریاست بچاﺅ“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ڈاکٹر طاہر القادری نے حال ہی میں ”سیاست نہیں.... ریاست بچاﺅ“ کا نعرہ لگایا ہے۔ اس نعرے کو بار بار ٹیلی ویژن سکرین پر دہرایا گیا۔ اس نعرے کا کیا مطلب ہے؟ نعرے کے خالق ہی بہتر طور پر اس نعرے کی تشریح بھی کریں گے؟ڈاکٹر طاہر القادری کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ان کی ذہانت تو اللہ کی طرف سے ان کو پیدائشی عطیہ ملا ہوا ہے۔دنیا کے علوم کو خود انہوں نے اپنی دن رات کی محنت سے حاصل کررکھا ہے۔ان کی یادداشت بھی قابل ذکر ہے۔دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے دنیا میں اپنے لئے ایک نمایاں مقام بنا لیا ہے۔میری ان سے کوئی خاص جان پہچان نہیں۔مجھے یاد آتا ہے کہ بہت عرصہ قبل میری ان سے ایک مختصر سی ملاقات ہوئی تھی۔یہی سنا گیا ہے کہ وہ ”سیلف میڈ“ ہیں۔اگر یہ سچ ہے تو پھر یہ اور خوشی کی بات ہے۔میری دانست کے مطابق ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان کے متعلق بہت سے خطرات دیکھ رہے ہیں۔اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ ریاست پاکستان کو بچایا جائے، وہ سیاست کو بچانے کی ہرگز فکر نہیں رکھتے ۔میری ذاتی سوچ کے مطابق سیاست اور ریاست دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔دونوں جڑواں ہیں۔ایک کو دوسرے سے جدا کرنا مجھے تو ممکن نظر نہیں آتا۔ ظاہر ہے کہ اگر سیاست سود مند اور عقل و فکر پر مبنی ہوگی تو اس کے نتیجے کے طور پر ریاست خود بخود مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جائے گی۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ کی مثال ہم سب کے سامنے موجود ہے۔انہوں نے ایک ہی وقت میں سیاست کو ریاست کے ساتھ جوڑ رکھا تھا۔قائداعظم کی عظیم الشان سیاست کی بدولت ہی پاکستان معرض وجود میں آ سکا تھا۔ان کا فرمان تھا کہ مسلمان ایک مسلمہ قوم ہیں۔ قائداعظم ایک سچے اور پختہ مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ برصغیر کے ایک فقید المثال سیاسی رہنما بھی تھے۔ وہ کانگریس کو اچھی طرح سے جانتے اور گہرائی میں اس کو سمجھتے بھی تھے۔کانگریس کے مطابق برصغیر میں صرف ایک قوم آباد تھی۔قائداعظم نے سیاست کے میدان میں آتے ہی برصغیر میں یہ نعرہ لگایا تھا کہ مسلمانوں کی سیاست کے مطابق ان کی اپنی قوم ہے اور وہ اپنا ایک علیحدہ وطن قائم کرنا چاہتے ہیں۔پھر دنیا نے دیکھا کہ ہر طرف سے نظریہءپاکستان کی مخالفت ہوئی۔کانگریس اور کچھ اپنے مسلمان بھائی بھی قائداعظم کی تحریک پاکستان کے مخالف نظر آتے تھے۔قائداعظم محمد علی جناح کا ایک الگ ملک کا نعرہ صداقت پر مبنی تھا۔یہی وجہ تھی کہ قائداعظمؒ کی پاکستان بنانے کی سیاست عظیم الشان کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ قائداعظمؒ کی سیاست کامیاب ہوئی، جبکہ کانگریس کا متحدہ ہندوستان اور ایک قوم کا نعرہ بُری طرح ناکام ہوا۔
تاریخ عالم نے اب یہی نتیجہ نکالا ہے کہ قائداعظم ہی کی سیاست سچائی اور حقیقت پر مبنی سیاست تھی۔ کانگریس اور انگریز ناکام ہوئے۔میرے نزدیک پاکستان کا بن جانا ایک زندہ معجزے سے ہرگز کم نہیں ہے۔ اب ہمارا اولین ومقدس فریضہ ہے کہ ہم سب یک جان ہوکر پاکستان کو مضبوط سے مضبوط تر بناتے چلے جائیں۔یہی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔سب جانتے ہیں کہ بھارت نے کبھی دل سے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا ۔اگر اس نے پاکستان کو تسلیم کیا ہوتا تو وہ کبھی بھی متحدہ پاکستان کو ٹکڑوں میں تقسیم نہ کرتا۔وہ دو قومی نظریہ کے پیش نظر کبھی بھی کشمیر پر فوج کشی کرتے ہوئے قبضہ نہ کرتا۔ہر لحاظ سے کشمیر روز اول سے پاکستان کا حصہ ہے۔بھارت کو آخر کار کشمیر کو خالی کرنا ہی پڑے گا۔کشمیر کی آزادی کے بعد ہی پاکستان مکمل ہو سکے گا۔قائداعظم محمد علی جناح کا پاکستان اس وقت تک نامکمل رہے گا، جب تک کشمیر بھارتی سامراج سے آزاد ہو کر پاکستان کے ساتھ شامل نہیں ہو جاتا۔کشمیر کے آزاد ہونے کے بعد ہی پاکستان کی ریاست کے بچاﺅ کا کام پوری طرح مکمل ہوسکے گا۔

پوری دنیا جانتی ہے کہ کشمیر سے آنے والا پانی ہی ہماری زندگی کی ضمانت دیتا ہے۔بھارت نے ہماری معاشی زندگی کو ختم کرنے کا مکروہ پروگرام بنا رکھا ہے۔اس نے کشمیر میں جگہ جگہ ڈیم بنا رکھے ہیں۔ان ڈیموں کی وجہ سے ہمارے دریا تیزی سے خشک ہوتے چلے جارہے ہیں۔خدانخواستہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے سرزمین پاکستان ایک وسیع ریگستان کی شکل تو نہیں اختیار کرلے گی؟مجھے تو ایسے ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔ہمارے ڈیم تو موجود ہیں، مگر ان میں پانی نہ ہونے کے برابر ہے۔آب پاشی کے لئے پانی نایاب ہے۔بجلی بہت ہی کم پیدا ہورہی ہے۔ ہمارے ہاں لوڈشیڈنگ زوروں پر ہے۔ہماری صنعت و حرفت کا پہیہ جام ہوتا نظر آ رہا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے حکمران مسئلہ کشمیر کو دنیا میں اجاگر کریں۔کشمیر کی آزادی کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔
مسئلہ کشمیر کے انصاف کی بنیاد پر حل ہونے تک بھارت کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات استوارنہ کریں۔مجھے تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ بھارت کے ساتھ اچھے دوستانہ تعلقات قائم ہوتے ہی مسئلہ کشمیر اپنی موت مرنے کے قریب تر ہوجائے گا۔بھارت اس دوستی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا کو باور کرانے کی کوشش کرے گا کہ پاکستان، ریاست جموں و کشمیر میں جوں کی توں پوزیشن پر راضی ہوگیا ہے۔ بھارت کے ساتھ اس وقت تک دوستی یا تجارت کے متعلق سوچابھی نہ جائے، جب تک مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی مرضی اور خواہش کے مطابق حل نہیں کردیا جاتا۔ہم سب ہوش اور عقل کے ناخن لیں اور ملک اور قوم کے بہترین مفاد میں جلد بازی میں ایسا کوئی قدم نہ اٹھائیں ،جس سے ہمارا مستقبل ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریکیوں اور اندھیروں میں ڈوب جائے۔
ہمیں مسئلہ کشمیر کو پوری سنجیدگی اور بہادری کے ساتھ دنیا کے ہر پلیٹ فارم پر اٹھانا ہوگا۔کشمیر کے تقریباً 2کروڑ کے لگ بھگ مسلمانوں کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئیہیں۔ کشمیریوں پر آئے دن مظالم ڈھائے جاتے ہیں،ان کو قتل کیا جاتا ہے،ان کو قید کیا جاتا ہے، ان کی بیٹیوں کی عزت کو وہاں بھارتی قابض افواج پارہ پارہ کرتی رہتی ہیں۔
یقینی طور پر پاکستان کی ریاست میں کشمیر بھی شامل ہے۔دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری کشمیرکی آزادی کے لئے اپنے پاس کیا پروگرام رکھتے ہیں۔ان کو کھل کر کشمیریوں کی آزادی کے لئے ساتھ دینے کا اعلان کرنا ہوگا۔مَیں خود ایک کشمیری پاکستانی ہوں۔مَیں نے اپنے بچپن میں بھارتی اور ڈوگرہ افواج کے مظالم کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔لاکھوں کشمیریوں کا قتل عام ہوا تھا۔آج بھی کشمیریوں کی پکار ہے کہ وہ بھارت کی غلامی سے آزاد ہوکر پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔ہمارے بیدار ہونے کا وقت آ چکا ہے۔خود بھی جاگو اور دوسروں کو بھی جگاتے چلے جاﺅ۔کشمیرکی آزادی کے لئے دنیا کے کونے کونے میں پھیل جاﺅ۔میرا پختہ ایمان ہے کہ کشمیر ضرور آزاد ہوگا اور پاکستان کا لازمی حصہ بنے گا۔

مزید :

کالم -