عدالتی فیصلہ اور حکومتی ردعمل

اسلام آباد کی ایک خصوصی عدالت نے سابق صدر اور سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل (ر) پرویز مشرف کی سزائے موت کے حکم پر تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے سیکیورٹی اداروں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ مجرم کو ملک واپس لایا جائے اور عدالتی حکم پر فوری عمل درآمد کرایا جائے۔ عدالت کا یہ فیصلہ دو ایک کی نسبت سے جاری کیا گیا، یعنی تین ججوں میں سے دو نے سزائے موت کی توثیق کی،جبکہ ایک جج کا فیصلہ اس کے برعکس آیا۔ عدالتِ عالیہ نے ظاہر ہے یہ فیصلہ آئین اور قانون کو مدِ نظر رکھ کر ہی دیا ہو گا،کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ اس قدر حساس عدالت کے جج صاحبان خود ریاست کے آئین اور قانون سے بالاتر ہو کر اس قدر انتہائی اہم فیصلہ کر سکتے ہیں۔ حکومت نے مذکورہ فیصلے پر جس قدر غیر ذمہ دارانہ موقف اختیار کیا ہے، یقینا وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔سزائے موت کے فیصلے کوغیر آئینی قرار دینے سے پہلے حکومت کو ایک لمحے کے لئے یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اس کیس کی مستغیث وہ خود تھی،سو اب سپریم کورٹ میں پیش ہو کر کیا یہ کہے گی کہ حکومت استغاثہ واپس لینا چاہتی ہے؟ ایسی مضحکہ خیز صورت حال ملک کی تاریخ میں عدیم المثل ہے۔ سزائے موت کوئی معمولی سزا نہیں ہے، یقینا اس سزا کا تعین کرتے ہوئے جج صاحبان نے ریاست کے آئین اور قانون کو بارہا سامنے رکھا ہو گا۔ اس طرح ایک دم سے عدالتِ عالیہ کے فیصلے پر کہرام مچا دینا، اس کے سوا کوئی معنی نہیں رکھتا کہ حکومت خود اداروں کے درمیان تصادم کی فضا ہموار کر رہی ہے۔ حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ اس ضمن میں ایک نہایت معتدل اور محتاط موقف اختیار کرتی، مگر حکومت تو عدالتی حکم کے مدِ مقابل کھڑی ہو گئی، عسکری قیادت کی جانب سے ایک مخصوص موقف تو سمجھ میں آتا ہے، مگر حکومت کا یہ واویلا انتہائی تعجب آمیز ہے، رہا یہ نکتہ کہ مجرم کو سنا نہیں گیا تو اس کا جواب عدالت اپنے تفصیلی فیصلے میں دے چکی ہے۔
کالم لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ کچھ لوگ جج کی اْس خاص ہدایت پر اعتراض کر رہے ہیں، جس میں لکھا گیا ہے کہ مجرم اگر زندہ سلامت پاکستان واپس نہیں آتا اور دریں اثناء وہ فوت ہو جاتا ہے تو اْسے گھسیٹ کر پاکستان لایا جائے اور اْس کی لاش کو تین دن تک ڈی چوک میں لٹکایا جائے…… اب سوال یہ ہے کہ کیا ملک کا آئین اس قسم کی سزا، جو بعد از مرگ واقع ہوتی ہے، اجازت دیتا ہے، اس کا آئینی جواب تو خود تفصیلی فیصلے میں آ چکا ہے۔ یہاں مَیں بعد از مرگ لاش کو سولی پر لٹکانے کی اسلامی روایت پر بحث کروں گا۔ اسلام اس طرح کی سزا کو ایک مخصوص اصطلاح سے تعبیر کرتا ہے۔ وہ اصطلاح جو قرآن میں بیان کی گئی ہے، صلب کے مادہ سے ہے، جسے عموماً ہم مصلوب کرنا کہتے ہیں۔ سورۃ المائدہ کی آیت تینتیس میں ارشاد ہے کہ وہ لوگ جو خدا اور اْس کے رسولؐ سے جنگ کریں اور زمین میں فساد کے مرتکب ہوں تو اْنہیں قتل کر دیا جائے یا پھر مصلوب کر دیا جائے۔ قرآن میں الفاظ ان یقتلو او یصلبو کے آئے ہیں۔ یقینا قتل اور تصلیب میں فرق ہے، تبھی تو قرآن میں او کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ضروری نہیں کہ آیت مذکورہ کا اطلاق یہاں بعینہ ہو، مگر اس سے ایک نکتہ تو واضح ہو جاتا ہے کہ تصلیب جائز،بلکہ اسلام کی نگاہ میں ایک زبردست تادیبی عمل ہے۔ اس کے علاوہ اگر آپ تاریخِ اسلام کی کسی بھی کتاب میں واقعہ حرہ کے بعد کے حالات دیکھیں تو مروی ہے کہ عبدالملک بن مروان کی فوج نے حجاج بن یوسف کی کمانڈ میں حضرت عبداللہ ابن زبیر کے خلاف سخت ملٹری آپریشن کیا اور آپ کی لاش کو بعد از مرگ تین دن تک سولی پر لٹکائے رکھا۔
اس انتہائی اہم واقعہ کا پس منظر یہ تھا کہ حجاج بن یوسف نے 695ء میں مکہ کا محاصرہ کرکے شہر پر سنگ باری شروع کر دی۔ حدودِ حرم بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکیں اور خانہ کعبہ کی عمارت کو بھی خاصا نقصان پہنچا محاصرہ طویل مدت تک جاری رہا،جس کی وجہ سے اہل مکہ کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔محاصرہ اس قدر شدید تھا کہ کوئی چیز باہر سے اندر نہیں جاسکتی تھی۔ اشیائے خورو نوش کی قلت پیدا ہو چکی تھی۔ عام آبادی قحط اور بھوک کا شکار تھی، لیکن یہ مصائب ابن زبیر کے پایہ استقلال میں کوئی لغزش پیدا نہ کر سکے، محصورین ان صعوبتوں کو آخر کب تک برداشت کر سکتے تھے، چنانچہ آہستہ آہستہ ابن زبیر کا ساتھ چھوڑنا شروع کر دیا۔ پس جب مقابلہ جاری رکھنے کی کوئی صورت باقی نہ رہی تو آپ مشورہ کی غرض سے اپنی والدہ حضرت اسماء کے پاس گئے اور عرض کیا کہ اب جب میرے بیٹے بھی میرا ساتھ چھوڑ گئے ہیں اور جو چند باقی رہ گئے، ان میں بھی لڑنے کی تاب نہیں ہے۔ ہمارا دشمن ہمارے ساتھ کوئی رعایت کرنے کو تیار نہیں ہے،ایسی حالت میں آپ کا کیا ارشاد ہے؟
حضرت اسماء نے، جو حضرت صدیق اکبر کی بیٹی تھیں، جواب دیا بیٹا تم کو اپنی حالت کا اندازہ خود ہوگا،اگر تم حق پر ہو اور حق کے لئے لڑتے رہے ہو تو اب بھی اسی کے لئے لڑو، کیونکہ تمہارے بہت سے ساتھیوں نے اس کے لئے جان دی ہے اور اگر دنیا طلبی کے لئے لڑتے رہے ہو تو تم سے برا کون خدا کا بندہ ہوگا۔ تم نے خود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا اور اپنے ساتھ کتنوں کو ہلاک کیا۔ اگر یہ عذر ہے کہ حق پر ہو، لیکن اپنے مددگاروں کی وجہ سے مجبور ہو تو یاد رکھو شریفوں اور دینداروں کا یہ شیوہ نہیں ہے۔ تم کو کب تک دنیا میں رہنا ہے، جاؤ حق پر جان دینا دنیاوی زندگی سے ہزار درجہ بہتر ہے۔یہ جواب سن کر ابن زبیر نے کہا ماں مجھے ڈر ہے کہ میرے قتل کے بعد بنو امیہ میری لاش کو مثلہ کرکے سولی پر لٹکائیں گے۔ اس خدا پرست خاتون نے جواب دیا: ذبح ہو جانے کے بعد بکری کو کھال کھینچنے سے تکلیف نہیں ہوتی، جاؤ خدا سے مدد مانگ کر اپنا کام پورا کرو، چنانچہ ماں کے اس جواب سے ابن زبیر ایک نئے ولولے اور جذبے سے اٹھے، ماں کو آخری بار الوداع کہہ کر دشمنوں کی صفوں میں گھس گئے اور ان کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا، لیکن بالآخر میدان جنگ میں لڑتے ہوئے شہید ہو گئے، حجاج بن یوسف نے آپ کی شہادت کے بعد آپ کی لاش کو سولی پر لٹکا دیا، جو تین دن وہیں لٹکتی رہی۔ آپ کی والدہ حضرت اسماء کا ادھر سے گزر ہوا تو دیکھ کر بولیں:
”شہسوار ابھی اپنی سواری سے نہیں اترا“