تعمیری سیاست پر گامزن ہوں
سیاست میں سنجیدگی سے اپنی کارکردگی جاری رکھنے والی جماعتوں کو تنہا یا اتحاد کر کے اس شعبہ میں عوام کے اجتماعی مفادات کو نہایت احتیاط اور توجہ سے ترجیح دینے کی اشد ضرورت ہے۔ جلسوں میں قرب و جوار کے لوگوں کو حتیٰ الوسع زیادہ تعداد میں جمع کرنے کی سعی بلاشبہ ایک مثبت حکمت عملی ہے لیکن عوام سے خطاب کرنے والے نمائندوں اور انتخابی امیدواروں کو اکثر ناظرین اور سامعین کو اپنے حامی اور فینز سمجھ لینا بھی درست توجیہ نہیں ہے۔ کیونکہ گزشتہ کئی سال کی انتخابی مہموں اور سابق امیدوار حضرات کے بیشتر خطابات سے عوام کی زیادہ تر تعداد یہ نتیجہ اخذ کرتی آ رہی ہے کہ وہ حضرات ایسے خوش کن وعدے کر کے لوگوں کو اپنی حمایت میں مائل کرنے اور ووٹ کے لئے سبز باغ دکھا کر کامیاب ہونے کی تگ و دو کرتے ہیں جو بعد میں پورے کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی،بلکہ سامعین کو بیشتر اجتماعات میں حریف امیدوارروں کی کردار کشی اور پگڑیاں اُچھالنے کی چالبازی سے ہی رام کرنے پر زیادہ وقت اور سیاسی شعبدہ بازی بروئے کار لائی جاتی ہے۔ عوام ایسے تجربات اور بے بنیاد قصے کہانیوں سے عاجز آ چکے ہیں، کیونکہ ان کو درپیش مسائل مثلاً مہنگائی، کرپشن اور انصاف کے رائج مہنگے اور طویل نظام سے تا حال کوئی قابل ذکر مثبت نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ سرکاری اداروں میں آئے روز، کروڑوں اور اربوں روپے کی بدعنوانیوں کے واقعات ٹی وی چینلز اور قومی اخبارات میں دیکھنے اور پڑھنے میں آتے ہیں، لیکن عوامی فنڈز کی ان بھاری رقوم کو اکثر اوقات بد دیانتی کی حرکات سے خورد برد کر کے قومی خزانے کو خطیر نقصانات سے دو چار کیا جاتا ہے۔ ملزمان اچھے وکیل کر کے اور دفاتر میں غلط کار افراد کو رشوت دے کر زیادہ تر اپنے الزامات ثابت نہ ہونے پر عدالتوں سے بری ہو جاتے ہیں۔اس طرح خورد برد کی گئی بھاری رقوم یا قومی وسائل بیشتر سرکاری اداروں کو واپس نہیں ملتے۔ ایسے مقدمات مختلف شعبوں کی کوتاہیوں اور غلطیوں سے آئے روز وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں، جن پر متعلقہ وزراء، سینئر اور متعلقہ حکم کو بھرپور محنت اور توجہ دے کر قومی وسائل کے ضیاع کو روکنا چاہئے۔
سیاستدان حضرات عوام سے انتخابی مہم کے دوران صرف وہ وعدے کریں جو قابل عمل ہوں اور جن کے وسائل اور تکنیکی ماہرین وطن عزیز میں موجود ہوں اور ان کو پورا کر سکیں۔ آج کل بعض سیاسی نمائندے اپنے مختلف جلسوں میں یہ دلیل دہرا رہے ہیں کہ بعض سابق حکمران کئی بار یا چند بار یہاں برسر اقتدار رہے ہیں۔ لہٰذا اب انہیں موجودہ سیاسی مقابلہ بازی میں اپنی طبع آزمائی کرنے کی بجائے میدان سیاست سے دست بردار ہو جانا چاہئے۔ ان کی یہ منطق مخاطب حضرات و خواتین کی غالب اکثریت کے لئے اس لئے قابل قبول نہیں لگتی کہ وہ تو ملکی آئین و قانون کے تحت آئندہ انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لینے کے ہر لحاظ سے اہل اور ذہنی و جسمانی طور پر تندرست توانا اور با ہمت ہیں تو پھر وہ کیونکر بعض حریف امیدواروں کی خواہش پر اس معرکہ آرائی سے رضا کارانہ طور پر الگ ہو جائیں۔ یاد رہے کہ سیاست میں حصہ لینے والے حضرات سے اکثر ووٹرز یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ بالخصوص اپنے حلقوں کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہوں گے بلکہ وہ کامیاب ہونے کی صورت میں ملکی یا صوبائی امور پر بھی خاصی دسترس رکھتے ہوں گے تاکہ وہ نمائندے وہاں وزراء تعینات ہو کر لاکھوں یا کروڑوں لوگوں کی مشکلات کو ختم یا کم کرنے میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر سکیں۔ وزراء اور منتخب نمائندوں کو دیگر ممالک اور اداروں میں بھی جانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس لئے ان کا ذہنی معیار اور تصور دیگر ممالک میں بین الاقوامی اہمیت کے فورمز پر بھی اپنی قومی نمائندگی بھرپور استعداد سے نبھانے کا حامل ہونا لازم خیال کیا جاتا ہے۔
سیاست دان حضرات سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ملکی مفاد اور اس کی معیشت کو جلد مستحکم کرنے کے لئے اپنی سرگرمیوں کو زراعت، تجارت، صنعت، سیاحت اور آئی ٹی کے شعبوں کی تعمیر و ترقی کے لئے محنت اور دیانتداری سے اپنے علم، تجربہ اور مہارت سے استعمال کر کے قابل ستائش نتائج حاصل کر سکیں۔ انتخابی مہم میں دیگر جماعتوں کے امیدواروں کے خلاف نفرت، تعصب اور بلا جواز بددیانتی اور بدنامی کے الزامات عائد کر کے اپنے حلقوں کے لوگوں میں افراتفری انتشار اور لڑائی جھگڑوں کے حالات پیدا کر کے باہمی فساد کو کسی طور ہوا نہ دی جائے۔
ہمیں تنگ دلی اور کم ظرفی کے حصار سے باہر آ کر ملک کے 25 کروڑ یا کسی صوبے کی بڑی آبادی کے لوگوں کے مسائل کے سدباب کے لئے اپنی ممکنہ بہترین کاوشوں پر عمل کر کے ان کے دکھوں پریشانیوں کو حتی المقدور کم کرنا ہوگا۔واضح رہے کہ مسلمان ممالک کے لوگ اپنی غفلت سے دیگر ترقی یافتہ اقوام سے سینکڑوں سال پیچھے رہ گئے ہیں ہمارے سیاستدانوں کو اس معاملہ پر دل و جان سے غور کر کے دیگر ممالک اور مالیاتی اداروں کے قرضوں اور مدد کے بغیر اپنے معاشی مسائل اور ضروریات پوری کرنے کے لئے خود انحصاری اور خود مختاری کا جلد باوقار مقام و درجہ حاصل کرنا چاہئے۔ ہمیں موجودہ محتاج حالت سے جلد ممتاز معاشی مقام تک ملک کو لے جانا یہاں کے سیاستدانوں کی اولیں ترجیح ہے۔