مہنگائی کی پہلی قسط ۔۔۔ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے
تحریر : طیبہ بخاری
آٹے کی لائن ۔۔۔پیٹرول کی لائن ۔۔۔سیاسی قیدیوں کی لائن ۔۔۔لائن پہ لائن
کہا جا رہا ہے کہ ابھی تو مہنگائی کی پہلی قسط ریلیز ہوئی ہے۔۔۔ابھی تو مہنگائی ہونی ہے
آئی ایم ایف کے نام پرڈرا کر مزید مہنگائی کا ماحول بنایا جا رہا ہے۔۔۔
اپنی عیاشیاں کم نہیں کرتے، عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈال دیتے ہیں۔۔۔
سب ایک ہی طرح کی پالیسیاں لے کر معیشت چلاتے ہیں، کوئی تبدیلی نہیں۔۔۔
پڑھے لکھے اشرافیہ نے سب کو جاہل بنا دیا ۔۔۔
ان کی اپنی بجلی مفت ہوتی ہے اور قوم کے لیے بجلی کا بل بڑھتا ہے۔۔۔
ایک مزدور 18 ہزار تنخواہ میں کس طرح گزارہ کر سکتا ہے؟
سیاسی میدان میں گرفتاریاں ۔۔۔۔ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے
مہنگائی ، بے روزگاری اور بد امنی سے ایک طرف قوم نڈھال ہے تو دوسری جانب ”سیاسی شخصیت “ کی ملک واپسی پہ ”کانٹا لگا اوئی ماں “ گانے پہ نوجوان بیہودہ ڈانس کرتے دیکھے جا رہے ہیں
سوشل میڈیا پہ سب موجود ہے ، کسی وضاحت ، دلیل یا مؤقف کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔
سب بِک رہا ہے ، سب دِکھ رہا ہے ، ہو سکے تو رُخ ، مزاج، انداز سمجھ لو۔۔۔سمجھو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
اندر ہی اندر سب مرے جا رہے ہیں ، ان گنت مر چکے ، دفن نہیں ہوئے بس چلتے پھرتے نظر آ رہے ہیں، خود کشیوں کی خبروں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن ایسی خبریں کون دیکھتا ،کون پڑھتا ہے ۔
سیاستدان ایک دوسرے کو رُلانے کی دھمکیاں دینا بند کریں ۔۔۔۔قوم بھوک سے مر رہی ہے ، رو رہی ہے
ڈیفالٹ کے تبصروں پر اعتراض کرنے والے مزید کتنی مہنگائی ، کتنی بدحالی ، روپے کی کتنی بے قدری دیکھنا چاہتے ہیں
غریب عوام رو رو کر تھک چکے ، آنکھوں میں آنسو خشک ہو چکے ۔۔۔لیکن ابھی 9فروری باقی ہے آئی ایم ایف کی شرائط آنا باقی ہیں
ابھی منی بجٹ آنا باقی ہے۔۔۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ ڈالر پہلے300کا ہوتا ہے یا پیٹرول
ابھی 2صوبوں کی اسمبلیاں ٹوٹی ہیں ۔۔۔ابھی نگرانوں کا حال دیکھنا باقی ہے ،
ضمنی انتخابات کا حال دیکھنا باقی ہے ۔۔۔یہ دیکھنا باقی ہے کہ قومی انتخابات ہونگے یا نہیں
اور بھی بہت کچھ ہونا باقی رہ گیا ہے۔۔۔۔کیونکہ عوام میں غصہ بڑھ رہا ہے ۔۔۔ اب وہ سوچ رہے ہیں کہ
سب کو اپنے اپنے سیاسی مستقبل کی پڑی ہے ۔۔۔معاشی خود انحصاری کیلئے کون کام کریگا ؟
کون بدلے گاقوم کی قیادت کے دعویداروں کے عادات و اطوار۔۔۔ساری دنیا کے قوانین مختلف اور ہمارے باقی دنیا سے مختلف
جو تین تین دہائیوں تک اقتدار میں رہنے کے باوجود گندے پانی کے مسائل سے چھٹکار ا نہیں دلا سکے وہ پینے کا صاف پانی کیسے فراہم کر سکتے ہیں ۔
سوال یہ بھی ہے کہ سب کے سب ایک ساتھ نکمے کیسے ہو گئے؟ ۔۔۔ہو گئے تو کیوں ؟ نہیں ہوئے تو خرابی کہاں ہے؟ٹھیک کون کریگا ؟
اب نہیں تو کب ؟اور کتنا انتظار ؟ اور کتنی قربانیاں ؟
بجلی مہنگی ترین اور موسم سرما میں بھی لوڈشیڈنگ ۔۔۔گرمیوں میں کیا حال ہو گا۔۔۔
ان کے فیصلے کیسے ٹھیک ہو سکتے ہیں جنہیں منزل کا پتہ ہے نہ راستے کا ۔۔۔
یہ سمجھنا اتنا مشکل نہیں ، صرف لوڈ شیڈنگ کے مسئلے کو لیجیے سارا کام ہی الٹ ہے۔۔۔ ہم قدرتی توانائی پر زیادہ انحصار کے بجائے خود پیدا کی گئی توانائی پر انحصار کرتے ہیں۔۔۔یعنی ساری دنیا کسی اور سمت چل رہی ہے اور ہم کسی اور منزل کے مسافر ۔۔۔ہمارا ان سے راستہ ملتا ہے نہ منزل ۔۔۔ہم ترقی نہیں قرضے اور امدادکے بارے میں سوچتے ہیں ۔۔۔مسئلے کا حل نہیں فارمولہ ڈھونڈتے ہیں ۔۔۔نقص دور نہیں کرتے ”جگاڑ “ سے کام چلاتے ہیں ،اب ملک تو جگاڑ سے چلنے سے رہا ۔۔۔ہوا وہی جو ہونا تھا ، جو بویا تھا وہی کاٹنا پڑ رہا ہے ۔۔۔سیاست میں تمیز یا ایک دوسرے کا ادب پہلے تھا نہ اب ہے بدتمیزیاں ماضی میں بھی ہو رہی تھیں اب بھی ہو رہی ہیں ۔۔۔۔پہلے سب مل کر عورت کی حکمرانی پر اعتراض کرتے تھے ، تضحیک کرتے تھے، تمسخر اڑاتے تھے ۔۔۔اب یہی سلوک ایک دوسرے کیساتھ کر رہے ہیں ۔
کسی ایک لائن پر متفق نہیں ، 7 دہائیاں گزرنے کے بعد بھی تذبذب کا شکار ہیں کہ تعلیم،صحت اور صنعتی ترقی پر خرچ کرناچاہیے یا دفاع پر ...ٹیکسوں کے حوالے سے تو معاملات ہیں ہی عجیب و غریب۔۔۔امیر کو دبانے کی بجائے غریب کو ختم کیا جا رہا ہے ۔۔۔
”میثاق جمہوریت“ کیلئے راتوں رات سب ایک ہو جاتے ہیں” میثاق معیشت “کیلئے کیوں ایک نہیں ہوتے ؟ کیوں اپنے پیٹ پر پتھر نہیں باندھے جا رہے ۔
یہ کیوں سمجھ نہیں آتا کہ ایکسائز، کسٹم اور ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے ذریعے معیشت کا بھلا نہیں کیا جا سکتا۔۔۔۔ ٹیکس نیٹ بڑھائیں نہ کہ ٹیکس کی شرح ، نتیجتاً ٹیکس چوری ہو گا اور کچھ نہیں ۔
لڑائی جھگڑے کی سیاست ایوانوں سے نکل کر عدالتوں میں جا پہنچی ہے ، عوام کو فوری انصاف ملتا نہیں ،بزنس ایشوزاوردیگر تنازعات کون، کب اور کیسے حل ہونگے؟۔
سی پیک انٹرنیشنل زونز کی تکمیل کب ہو گی؟آبی ذرائع اور توانائی کیلئے بہت سے ڈیمز کی ضرورت ہے کئی قومی پراجیکٹس التواءکا شکار ہیں ،ان منصوبوں کی تکمیل کیلئے سیاسی و معاشی ماحول میں ”سکون “لازمی ہے ۔۔۔لیکن یہاں تو اشرافیہ کو چھوڑ کر سب ”بے سکون“ ہوئے پڑے ہیں۔
شاید کوئی یہ بھی سوچے کہ مارکیٹس جلد بند کرنے کے فیصلے سے بے روزگاری بڑھ گئی ہے، جو افراد روزگار کمانے کیلئے ڈبل شفٹ میں کام کرتے ہیں ان کا بڑا نقصان ہورہا ہے، 40 لاکھ کے قریب سیکنڈ شفٹ ملازمین بیروزگار ہو چکے ہیں۔جب مختلف اوقات میں بجلی کے مختلف اور من چاہے ریٹس وصول کیے جا رہے ہیں تو تاجر برادری پر ہی پابندیاں کیوں ؟ حکومت کومارکیٹس بند کرنے سے اگر 62 ارب اکٹھے ہوتے ہیں تو دوسری طرف قومی خزانے کو38 ارب روپے کا نقصان بھی ہوگا۔۔۔۔اس نقصان کو کون پورا کریگا ۔۔۔؟
42ہزار میگا واٹ انسٹال کیپسٹی ہے، ہم 8 سے 12 ہزار میگا واٹ بجلی نہیں بنا سکے۔ بجلی چوری ہو رہی ہے ، ٹیکنیکل لاسز الگ سے ہیں۔ لائن لاسز 48فیصد یعنی تقریباََ 3 ارب ڈالرز ہوچکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق بہتر حکمت عملی بناکر لائن لاسز میں صرف 1 ماہ کے اندر اندر 50 فیصد کمی لائی جاسکتی ہے۔
نیب ۔۔۔احتساب ۔۔۔سب مفلوج ہیں ۔۔۔یا کر دئیے گئے
شاید چیک اینڈ بیلنس کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔۔۔
قرضے اتارنے ہیں تو قرضے معاف کرنے چھوڑ دو ۔۔۔۔ اور جن کے قرضے معاف کیے گئے ہیں ان سے وصول کیے جائیں۔۔۔
کوئی کسی کے دور کو مورد الزام نہ ٹھہرائے ۔۔۔جس نے اپنے دور میں جتنا قرضہ لیا ہے ۔۔۔وہ اتارے
ایک سوال یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں اکیلے ہمارے ملک پر دیوالیہ ہونے کے خطرات نہیں منڈلا رہے ، سپر پاورامریکہ اور ہمارے خطے میں سری لنکا بھی مشکل ترین معاشی حالات سے دوچار ہیں ۔۔۔۔لیکن اُن میں اور ہم میں فرق مزاج اور حکمت عملی کا ہے ۔
تازہ ترین خبر ہے کہ قرضوں کے بوجھ تلے دبے امریکہ کے دیوالیہ کرجانے کے خدشات بڑھ گئے ہیں تو صدر اور اپوزیشن سر جوڑ کر بیٹھنے کو تیار ہو گئے ہیں، ایوان نمائندگان کے سپیکر، صدر جوبائیڈن سے ملاقات کےلئے راضی ہوگئے ہیں۔ٹرمپ کی جماعت سے تعلق رکھنے والے سپیکرکیون میکارتھی نے خبردار کیا ہے کہ حکومت اپنے اخراجات کی مد میں سالانہ جمع کیے گئے ٹیکس سے زیادہ خرچ نہیں کر سکتی۔ اسی طرح قرضوں کی حد کو بھی مقرر کرنے کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن جماعت نے سالانہ خسارے کو روکنے کےلئے نئے اخراجات پر حد لگانے کا مطالبہ کیا ہے جو کہ سالانہ 1 ٹریلین ڈالرز سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔۔۔
جبکہ ہمارے ہاں نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ سر جوڑ کر بیٹھنا تو دور کی بات ایک دوسرے پر قتل کرنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں ۔۔۔۔
سری لنکا میں بد ترین معاشی صورتحال کے پیش نظر ایک آدھا رکن پارلیمنٹ نہیں بلکہ پوری کی پوری پارلیمنٹ ہی معطل کر دی گئی ہے۔سری لنکا کا کل غیر ملکی قرضہ 51 ارب ڈالرز سے تجاوز کرگیا ہے، لنکن صدر رانیل وکرم سنگھے نے 8 فروری تک پارلیمنٹ کو معطل کر دیا ہے،اب صدر سنگھے متعدد معاملات پر طویل مدتی پالیسیز کا اعلان کریں گے، تب تک کیلئے پارلیمنٹ معطل رہے گی۔طویل مدتی پالیسیز میں مہینوں سے جاری غیر معمولی معاشی بحران کے متعلق لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔ 8 فروری کو نئی پالیسیز اور قوانین کا اعلان کیا جائیگا جو 2048 میں سری لنکا کی صد سالہ یوم آزادی تک نافذ العمل رہیں گے۔پارلیمان کی معطلی کے دوران سپیکر اپنا کام جاری رکھیں گے جبکہ قانون ساز اپنی نشستوں پر برقرار رہیں گے لیکن کوئی اجلاس منعقد نہیں کیا جائے گا۔
ہمارے یہاں کیا کیا جا رہا ہے کچھ پتا نہیں ۔۔۔پالیمینٹ میں کوئی آئے نہ آئے ، قانون سازی ہو نہ ہو ، عوام کے مسائل زیر بحث آئیں نہ آئیں لیکن پارلیمینٹ ہونی چاہیے ۔۔۔تنخواہیں ، سہولیات ملنی چاہئیں ۔۔۔۔
سب اقتدار کی باریاں لینے میں لگے ہیں ۔۔۔ عوام کا پارہ ہر گزرتے دن کیساتھ ہائی ہوتا جا رہا ہے، مایوسی ، غصہ اور نفرت سب بڑھتے جا رہے ہیں ،۔۔۔دہشتگردی پھر شروع ہو چکی ہے ۔۔۔
جماعت اسلامی جیسی پر امن جماعت بھی کہہ اٹھی ہے کہ” احتجاج کیے بغیر مسائل کم نہیں ہوں گے “۔
معاشی رونا ابھی پورا نہیں ہوا ۔۔۔ شیخ رشید تو گلی گلی ”ماتم “ کی بات کر رہے ہیں ۔۔۔اس نوحے کی مزید تفصیلات پھر کبھی
آخر میں بس اتنا کہ سوشل میڈیا پر ایک طرف”کانٹا لگا اوئی ماں “ سیاسی ڈانس چل رہا ہے تو دوسری جانب ایک اور میسیج بھی چل رہا ہے ذرا غور سے پڑھیے گا کیونکہ اب" شیر اور چوہے" کی نہیں" ہاتھی" اور "مگرمچھ" کی مثالیں دیں جا رہی ہیں ۔۔۔۔” اب قوم کو ہاتھی بننا پڑے گا اور مگرمچھوں کے اوپر چڑھ کر ان کے پیٹوں سے کھایا ہوا مال نکالنا پڑیگا ورنہ خودکشیاں مقدر بنیں گی اٹھو اپنے لئے قوم کیلئے۔۔۔“
نوٹ : ادارے کا مضمون نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں